اخروی اعمال میں باہمی شراکت
حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اپنی تالیفات میں اخروی اعمال میں باہمی اشتراک سے پیدا ہونے والے مجموعی ثواب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان اعمال میں شریک تمام لوگوں میں سے ہر ایک کے نامۂ اعمال میں پورا پورا اجر لکھا جائے گا۔ اس خوشخبری اور ثواب کے حصول کے لیے کن شرائط کا خیال رکھنا چاہیے؟
جواب: حضرت بدیع الزمان رحمہ اللہ نے اخروی اعمال میں باہمی شراکت کے بارے میں واضح اور جلی انداز میں بات کی ہے اور فرمایا ہے کہ ایمانی اور قرآنی خدمت میں مصروف ہر فرد، اس خدمت میں شامل تمام لوگوں کے ثواب میں شریک ہوگا۔(1) مجھے یاد نہیں پڑتا کہ حضرت نورسی سے قبل اس مسئلے کو کسی نے ایسی وضاحت سے بیان کیا ہو، نہ تصوف کی کتابوں میں، نہ تفسیر اور دیگر اسلامی کتابوں میں۔ اگرچہ بعض جلیل القدر قدیم ا ور معاصر علماء نے اس مسئلے کو چھیڑا ہے مگر حضرت نورسی کا اس بارے میں بیان بالکل واضح ہے۔
حضرت نورسی جو کچھ بیان فرما رہے ہیں وہ ماوراء الطبیعیاتی عالم کی لطافت کےعین مناسب ہے کیونکہ نورانی اشیاء بذات خود منعکس ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر ہم فرض کریں کہ ایک کمرے میں ایک بلب جل رہا ہے اور اس کی دیواروں میں چار الگ الگ آئینے لگے ہوئے ہیں تو بے شک اس بلب کی بعینہ ایک ہی روشنی بیک وقت ان تمام آئینوں پر منعکس ہوگی۔ اسی طرح اخروی اعمال میں شراکت سے حاصل ہونے والا ثواب ، اللہ کے فضل و کرم اور اس کی عنایت سے ان اعمال میں شریک ہر انسان کے نامۂ اعمال میں لکھا جائے گا۔
ایک نقطۂ نظر جس کی بنیاد قرآن و سنت ہے
بدیہی بات ہے کہ حضرت نورسی نے یہ بنیادی افکار اور اصول قرآن و سنت کے مستنط، کئے ہیں کیونکہ جب ہم قرآن معجز بیان اور سنت نبویہ شریفہ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق، اتحاد و یگانگت پر موقوف ہے اور جن اعمال پر اتحاد اور یگانگت کی روح چھائی ہوتی ہے ان کا اجر بھی ایک خاص قسم کا ثواب اوربرکت ہوتی ہے۔ مثلاً حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (آلِ عِمْرَانَ: 103) (اور سب مل کر اللہ کی ہدایت کی رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور فرقے فرقے نہ ہو جانا۔ اور اپنے اوپر اللہ کی اس مہربانی کو یاد رکھنا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تعالی اپنی آیتیں تم کو کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم راہ راست پر رہو)۔ دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ (الأَنْفَالِ: 63) (اور ان کے دلون میں الفت پیدا کر دی ۔ اور اگر تم دنیا بھر کی دولت خرچ کرتے تب بھی ان کے دلون میں الفت پیدا نہ کر سکتے۔ مگر اللہ ہی نے الفت ڈال دی۔ بے شک وہ زبردست ہے حکمت والا)۔ یہ دونوں آیتیں اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ وہ کامیابی اور توفیق جو معاشرے کے فائدے میں ہوتی ہے اس کی بنیاد اتحاد و یگانگت پر ہے۔
کام میں باہمی شراکت دنیوی کاموں میں بھی عظیم کامیابیاں حاصل کرنے کا سبب بنتی ہے۔ آپ کے سامنے یہ دو مثالیں پیش کرتا ہوں جو حضرت نورسی رحمہ اللہ نے بیان فرمائی ہیں:
پہلی مثال: سوئیاں بنانے والے دس آدمیوں نے الگ الگ اپنا کام شروع کیا۔ چنانچہ ہر ایک کے پورے دن کے کام کا نتیجہ تین تین سوئیاں تھا۔ بعد ازاں ’’یکجا کوشش اور کاموں کی تقسیم‘‘ کے اصول کے تحت ان لوگوں نے آپس میں اتفاق کرلیا۔ چنانچہ ایک لوہا لایا، دوسرے نے آگ کا بندوبست کیا،تیسرے نے سوئیوں میں سوراخ کئے ۔ اس کے بعد ایک نے ان کو آگ میں ڈالا اور ایک ان کو تیز کرنے لگا۔ اس طرح باری باری کام ہوتا رہا اور کسی کا وقت ضائع نہیں ہوا کیونکہ ہر آدمی ایک خاص کام میں مشغول رہا اور اسے جلدی پورا کرلیا ۔ اول تو اس لئے کہ یہ جزوی اور آسان کام تھا اور دوسرے اس لئے کہ ہر ایک کو تجربہ اور مہارت حاصل ہوگئی ۔ چنانچہ جب انہوں نے سب کی محنت کے نتیجے کو تقسیم کیا تو پتہ چلا کہ ہر ایک کے حصے میں یومیہ تین کی بجائے تین سو سوئیاں آرہی ہیں۔
دوسری مثال: پانچ ا،ٓدمیوں نے ایک تیل کا دیا جلانے میں شرکت کی، چنانچہ ایک کے اوپر تیل لانے کی ذمہ داری آئی، دوسرے پر بتی کی، تیسرے پر بوتل کی، طوتھے پر دئے کی اور پانچویں پر دیا سلائی لانے کی ذمہ داری عائد ہوئی۔ ۔۔۔۔۔ پھر جب انہوں نے دیا روشن کر لیا تو ہر ایک پورے دئے سے مستفید ہونے لگا۔ اگر ان میں سے ہر ایک کے پاس دیوار پر لٹکا ایک ایک بڑا آئینہ ہو، تو اس میں پورے دئے کا عکس آئے گا ، اس میں تجزی اور کمی نہ ہو گی۔(2)
جی ہاں، دنیوی کاموں میں شراکت بھی کام کو آسان کرنے اور برکت کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے جو شخص اس بات کو سمجھتا ہے،و ہ بطریق اولیٰ اس بات کا بھی ادراک کرسکتا ہے کہ کس طرح شراکت کے اصول پر مبنی ہونے کی وجہ سے شفاف، نورانی ،اخروی امور کو کس طرح فیوض و برکات گھیر لیتے ہیں۔
اس بنا پر ہم کہتے ہیں کہ: وہ مجموعی ثواب جو اللہ کے فضل و کرم سے آج پوری دنیا اور زندگی کے ہر شعبے میں ہونے والی عظیم خدمات سے پیدا ہوتا ہے، وہ پورے کا پورا (اخروی اعمال میں شراکت کے راز کی وجہ سے) اس بارے میں کوشش اور سعی کرنے والے ہر فرد کے نامہ اعمال میں منعکس ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ اس وسیع دائرے میں موجود ہر شخص اپنے جیسے لاکھوں لوگوں کی سعی اور کوشش سے مستفید ہو گا۔ اس لئے عمومی ثواب کو بھلا کر انفرادی مصلحتوں پر جھپٹنا اور انانیت ،تکبر اور غرور کےآگے جھکنے کا مطلب اس عظیم ثواب سے محرومی ہے، کیونکہ انا ن کے اندر جتنی بھی صلاحیتیں اور قابلیت ہو ، اگرچہ وہ پچاس عبقری لوگوں جتنا چالاک کیوں نہ ہو، وہ اکیلا اس دنیا میں انسانیت کی کوئی دائمی نافع خدمت کر سکتا ہے اور نہ اتنا عظیم اخروی اجر حاصل کر سکتا ہے۔
اخلاص : عمل کی روح
حضرت نورسی نے اس طرح کا ثواب حاصل کرنے کے لیے ’’اخلاص پر مبنی شراکت ‘‘ کواس کی بنیاد ی شرط قرار دیا ہے اور اخلاص کا مطلب ہے : صرف اور صرف امر الٰہی کسی کام کو کرنے کا باعث ہونا چاہیے اوریہ کہ انسان اللہ کی خوشنودی کے علاوہ کسی بھی شے کو اپنے عمل کا ثمر نہ سمجھے اور اس کے بعد اس عمل کا پھل بھی آخرت میں چننے کے لئے چھوڑ دے۔ اس وجہ سے آخرت کے بارے میں حقیقی مخلص آدمی کے لئے بھلائی کی خدمات کوپورا کرنا ہی سب سے اہم بات ہوتی ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اس کی کوئی فکر نہیں کرتا خواہ وہ کام اس نے کیا ہو یا کسی اور نے۔ بالفاظ دیگر اہم بات یہ ہے کہ ہم ان دکھی دلوں کے ساتھ بانسری کی طرح آہیں بھریں جو ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں ایک سرور پیدا کردیتے ہیں یا ہم ایک ایسا طائفہ تشکیل دیں جس کے ذریعے ہم ان تک حق اور حقیقت پہنچائیں اور ان کو حق تعالیٰ کے حضور اس طرح لائیں کہ ان کو بھی ’’وجد ‘‘ ، ’’اضطراب‘‘ اور ’’حیرت‘‘ کی شکلوں میں سے کسی شکل کے ساتھ ہمکنار کردیں۔
پس جب مقصد اور ہدف یہ ہو تو انسان کے لیے ضروری ہے کہ جب وہ مطلوبہ ہدف حاصل ہوجائے تو نہایت خوشی کا اظہار کرے اور یہ نہ دیکھے کہ وہ کام کس نے انجام دیا ہے بلکہ اس طرح خوش ہو جیسے وہ کام خود اس نے انجام دیا ہو۔ حضرت نورسی اس بارے میں ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’حافظ علی‘‘ میرے پاس آئے تو میں نے ان سے کہا: ’’فلاں‘‘ صاحب کا خط آ پ سے اچھا ہے اور وہ کام اور کارکردگی میں بھی آپ سے اچھے ہیں۔‘‘ تو کیا دیکھتا ہوں کہ حافظ علی اخلاص اور سچائی کے ساتھ دوسرے کے اپنے اوپر سبقت لے جانے پرفخر کررہے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز اور خوش ہورہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرا شخص اللہ کی راہ میں خدمت میں ان سے آگے بڑھا ہے ۔ میں نے ان کے دل پر بڑی گہرائی سے غور کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں کوئی بناوٹ نہیں بلکہ یہ ایک صاف ستھرا احساس ہے۔(3) ماشاء اللہ! اخلاص کے راز کے ساتھ اعمال میں باہمی اشتراک کی کس قدر خوبصورت اور مؤثر مثال ہے۔
اسی طرح حضرت بدیع الزمان اس مسئلے کی مثال ایک بڑے اور عظیم خزانے کو اٹھانے اور اس کی حفاظت کرنے سے دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ فطری بات ہے کہ اس عظیم خزانے کو اٹھانے والے لوگ ان طاقتور لوگوں کی شراکت سے خوش ہوں گے جو ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ جی ہاں، ہم میں سے ہر آدمی کو اس خزانے کو ایک طرف سے اٹھا کر اس کے اٹھانے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اس نے خزانے کو کس طرف سے اٹھایا ہے۔ چونکہ خزانہ اٹھانے میں شریک ہر انسان کو اس سے ایک مخصوص حصہ ملے گا ، اس لئے ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اس خزانے سے متعلق اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے اور کسی سے تکرار اور جھگڑا نہ کرے۔
رہی بات کامیابی اور اخلاص کے راز تک رسائی کی ، تو یہ بات اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک آدمی نفس اور انانیت کے رنگ سے نکل کر اجتماعی روح کے رنگ میں نہ رنگ جائے اور اپنے ساتھیوں کی خوبیوں پر فخر نہ کرے۔
حقیقیت یہ ہے کہ جو شخص دل سے ایمانی اورقرآنی خدمت کے ساتھ جڑ جاتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ اس بات کو کبھی فراموش نہ کرے کہ وہ ایک ایسی ذمہ داری اور نہایت اہم کام میں لگا ہوا ہے جو شہرت، خطابات اور نشانات سے بہت بلند اور اوپر ہے بلکہ اگر کسی ایسے آدمی سے جو اپنے اس رستے کو خوب اچھی طرح سمجھتا ہے ، یہ کہا جائے کہ: ’’مبارک ہو۔۔۔ آپ نے یوں یوں کیا۔‘‘ تو جواب یہ ہونا چاہیے کہ : ’’مجھے یاد نہیں اور نہ میں ایسا سمجھتا ہوں۔ بہت سے احباب نے بڑی تگ و دو کی ہے شاید اس دوران میں بھی ان کے ہمراہ موجود تھا۔‘‘ یہ ہے اخلاص کا راز اور اس شراکت کا معیار جس کے بارے میں حضرت نورسی نے بات کی ہے۔
اخوت اور یکجہتی کی روح
حضرت نورسی نے ’’اخوت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے یکجہتی‘‘ کو اخروی اعمال میں شراکت سے مستفید ہونے کی دوسری شرط قرار دیا ہے کیونکہ جہاں اخوت ہوگی وہاں یکجہتی اور یگانگت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے مسلمانوں کے درمیان اخوت کے رشتے کے بارے میں بتایا تو آپ علیہ السلام نے ایک جسم میں موجود اعضاء کے آپس کے تعلق کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى‘‘ (3) (مسلمانوں کی آپس میں ایک دوسرے سے محبت، ایک دوسرے پر شفقت اور نرمی کی مثال ایک بدن کی طرح ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو سارا جسم بے خوابی اوربخار میں مبتلا ہوجاتا ہے) ۔ پس جب کسی ایک عضو کو تکلیف یا نقصان پہنچتا ہے توجسم کے اعضاء بے خوابی اور بخار محسوس کرتے ہیں ہے اور اس کی اس حالت میں شریک ہوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کا معاملہ بھی بعینہ یہی ہے کیونکہ ان کو چاہئے کہ وہ حقیقی اور سچے بھائی چارے کا ایسا رشتہ قائم کریں جیسا بدن کے اعضاء کے درمیان ہے۔ اس کے بعد ا گر اسلامی معاشرے میں کوئی واقعہ ہوجائے تو ہر ایک اس سے متاثر ہو اور درد کو محسوس کرے۔
جی ہاں جن ایمان والے دلوں نے ا پنے آپ کو حق کی طرح وقف کردیا ہے ،ان کو ایک قبے کے پتھروں کی طرح ایک دوسرے کا سہارا بن کر جڑے رہنا چاہیے تاکہ ان کے گرنے سے پورا قبہ نہ ڈھہ جائے، ان کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں اور اپنے ہمسفر وں میں سے کسی کو بھی اس سفر کے دوران گرنے نہ دیں جو انہوں نے شروع کرلیا ہے۔ اگر خدمت میں مصروف سب لوگ اس طرح ، اس سوچ کے سانچے میں یکجا ہوجائیں اور ایک جسم بن جائیں ، ایسی روحانی حالت میں رہیں اور حقیقی یکجہتی اور تعاون تک پہنچ جائیں، تو ان میں سے ہر فرد کے نامۂ اعمال میں مستقل طورپر کروڑوں نیکیوں کی بارش ہوتی رہے گی مگر ان میں سے کسی ایک کے اجر میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی۔
اجتماعی سوچ کے مطابق کام اور سعی
تیسری شرط ہے ’’اتحاد کی بنیاد پر کاموں کی تقسیم ‘‘۔ یعنی کاموں، ذمہ داریوں اور فرائض اور مطلوبہ اعمال کو اتحاد و یگانگت کی روح کے مطابق تقسیم کرنا، بالفاظ دیگر اجتماعی سوچ اور کام کا ملہح حاصل کرنا اور انفرادی طورپر کام کرنے سے ہر طرح سے بچنا۔ اس لئے کسی بھی کام کو شروع کرنے سے قبل ذمہ داریاں تقسیم کرلینی چاہیںا اور ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ جتنا کام کرسکتا ہے کر لے اور وہ کام کرے جس کو کرنے میں اسے پوری مہارت ہو۔
ان تین شرائط کو پورا کرنے کے بعد اگر ’’خدمت‘‘ کے کارکنان آپس میں مل بیٹھ کر مشورہ کرلیں اور اپنے معاملے کو اجتماعی سوچ کے حوالے کردیں تو (اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی عنایت سے ) ان غلطیوں میں نہیں پڑیں گے جن میں انفرادی سوچ پڑ جاتی ہے کیونکہ دس عقلوں کا یکجا ہوکر کسی غلط نتیجے پر پہنچنے کا احتمال دس لاکھ میں ایک ہے اور اگر مشورہ کرنے والی عقلوں کی تعداد بیس ہوجائے تو اسی نسبت سے غلطی کا احتمال بھی کم ہوجائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اجتماعی اعمال کو اجتماعی سوچ کے مطابق انجام دینا بہت ضروری ہے۔ اس لئے کسی بھی انسان کو (خواہ وہ کتنی ہی غیر معمولی اور عری ی سوچ اورتدبیر کا مالک ہو ،عمومی مصلحت اور معاشرے سے متعلق کسی بھی کام کے بارے میں انفرادی طورپر کوئی تصرف نہیں کرنا چاہئے کیونکہ انسانی تاریخ میں مجھے کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں معلوم کہ اس نے اکیلے کوئی فیصلہ کیا ہو اور اسے مسلسل کامیابی اور توفیق ملی ہو۔ جی ہاں، ’’سیزر‘‘، ’’نپولین‘‘،’’ ہٹلر‘‘ اور نہ ہی ’’مسولینی‘‘ کی کامیابیوں کو کوئی دوام مل سکا بلکہ ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہا۔ شروع میں یہ کامیابیاں گھاس میں آگ کی طرح چمکیں ۔ پھر اس کی روشنی بجھ گئی اور کچھ عرصے بعد اس کی چمک جاتی رہی اور ان کے اثرات افسوسناک اور راکھ کے ملبے کے ڈھیر کی طرح رہ گئے لیکن اس کے مقابلے میں وہ حقیقی رہنما جو اجتماعی سوچ کے ساتھ کام کرتے تھے، ان کو اتنی ہی کامیابی اور توفیق نصیب ہوئی جتنا انہوں نے معاملات کو مشورے کے ساتھ جوڑا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی خدمات کے ذریعے اپنے معاشرے کے مستقبل کو تعمیر کیا۔
حاصل کلام یہ ہے کہ دنیا و آخرت میں اخروی اعمال میں شراکت تک پہنچنے کا رستہ یہ ہے: سچی نیت اور اخلاص ، عقل مشترک اوراجتماعی سوچ اوراتحاد و اخوت کی روح۔
(1) سعید نورسی، اللمعات، گیارہواں لمعہ، چوتھا دستور، ص:226
(2) سعید نورسی ،گزشتہ ماخذ
(3) سعید نورسی، الملاحق، ملحق بارلا، ص :54
(4) حیح البخاری ، الادب:27، صحیح مسلم، البر،66
- Created on .