1-استغفار

استغفار

ایمان والے دلوں کو استغفار سے کیا امید ہونے چاہیے ؟خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جب گناہ ہر طرف پھیلے ہیں اور ایک متعدی مرض کی طرح ہیں ؟اور کیا ایسے کوئی معین اوقات ہیں جو استغفار کے لئے زیادہ بہتر ہوں؟

جواب: ایک حدیث شریف میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘‘(البخاری ،القدر:۳ ،مسلم ،القدر۶) اور شرعی احکام کا اصل مقصد اس بنیادی فطرت کی حفاظت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ کی عطا کردہ فطرت کی تادم مرگ حفاظت کرے ۔پھر جس طرح’’نجات دینے والے‘‘سارے کاموں کا مقصد فطرت اصلیہ کی حفاظت ہے ،اسی طرح ’’ہلاک کرنے والے‘‘کاموں کا ہدف فطرت اصلیہ کی تباہی ہے ۔اس وجہ سے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک طرف ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچنے کے لئے زبردست قلعے تعمیر کرے اور دوسری جانب ہمیشہ نیک اعمال اور ایسے ذرائع تلاش کرے جو ان نیک اعمال کو ان کی فطرت پر برقرار رکھیں اور ان کو فساد اور آلودگیوں سے محفوظ رکھیں ۔

بے شک ہر گناہ انسانی طبیعت میں ایک طرح کا فساد ہے اور جو انسان اس طرح کے فساد کا شکارہو جائے ،اسے استغفار کے بغیر ہوئی چیز اپنی اصل طبیعت پر نہیں لا سکتی ۔بالفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان کی ماہیت میں منفی تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ رفتہ رفتہ گناہ آلود دل اپنا کام کرنے سے بھی عاجز آجاتا ہے ۔علاوہ ازیں ہر گناہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور اور کفر کے قریب کرتا چلا جاتا ہے جبکہ استغفار ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے انسان کفر کے قریب کرنے والے گناہوں سے نجات اور اپنے دل پر لگے سیاہ دھبوں اور میل کچیل کو صاف کر سکتا ہے ۔

احتیاط علاج سے بہتر ہے

اصل بات یہ ہے کہ انسان کو شروع سے ہی گناہوں اور خطاؤں کے بارے میں فیصلہ کن مؤقف اپنانا چاہئے ۔اس لئے سب سے چھوٹے گناہ کے قریب بھی نہ پھٹکے ۔اس بارے میں اسے چاہئے کہ ایسا پاکیزہ اور صاف ستھرا ماحول پیدا کرے جو اسے گناہوں سے بچائے اور گناہوں کی دعوت دینے والے ماحول سے بھی اس طرح بھاگے جس طرح شیر سے بھاگتا ہے اور یہ بات صرف اس مومن دل کو ہی میسر آسکتی ہے جو اپنے وجدان میں محسوس کرتا ہے کہ وہ ہر گناہ کے بدلے میں جہنم کی آگ میں لڑھک رہا ہے ۔اس لئے وہ دل مردہ ہے جو گناہوں سے تنگ نہیں ہوتا۔جی ہاں اگر دل گناہوں کے مقابلے میں کوئی ردعمل ظاہر نہ کرے،خطاؤں سے پریشان نہ ہو اور گناہوں کی وجہ سے اس کی نیند نہ اڑ جائے تو وہ مردہ جسم کی طرح ہے کیونکہ ایمان والا دل لامحالہ گناہوں کو برا جانتا ہے اور گناہوں کے مقابلے میں استغفار اس کا پہلا کام ہے ۔

مضارع کے صیغے کے ساتھ ’’استغفراللہ ‘‘کہنے کا مطلب یہ ہے :’’اے اللہ ،میں اس وقت اور آئندہ ساری زندگی تیرے عفوودرگزرکا طلبگار ہوں‘‘۔

جی ہاں ،ماضی کے صیغے کی بجائے ،وسیع زمانے پر دلالت کرنے والے مضارع کا صیغہ استعمال کرنے کا ایک گہرا مطلب ہے کیونکہ انسان اس صیغے کے ذریعے مغفرت کی درخواست ماضی اور مستقبل کے تمام گناہوں کے لئے عام کر دیتا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ایک بار استغفار سے بھی انسان کے سارے گناہ معاف کر سکتا ہے ،لیکن انسان کو اپنے ہاتھوں ،اپنی آنکھوں اور کانوں کے گناہوں پر ایک بار استغفار کرنے پر اکتفاء نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسے اپنے گناہوں پر ساری عمر ندامت کا احساس کرنا چاہئے اگرچہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو اور یہ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہو:’’اے اللہ میں اس وقت تجھ سے معافی مانگتا ہوں اور ساری عمر مغفرت مانگتا رہوں گا ،کیونکہ تجھ سے ایک بار معافی مانگنا کافی نہیں ،لیکن جس طرح میں تجھ سے اس وقت معافی مانگ رہا ہوں ،اسی طرح اپنے گناہوں پر ساری عمر ندامت کے احساس کے ساتھ معافی مانگتا رہوں گا ۔اے اللہ تو مجھے معاف فرما دے ‘‘۔

جی ہاں، مومن کو چاہئے کہ وہ ہر گناہ کے وقت یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھلائیوں کی طرف ہدایت ملنے کے باوجود گناہوں کا ارتکاب کس قدر بڑا عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے جنت کے وعدے کے مقابلے میں کتنی قباحت کی بات ہے کہ وہ گناہوں کے راستے پر چل کر اس وعدے سے نظریں پھیر لے ،بلکہ اس پر لازم ہے کہ ندامت محسوس کرے اور ہمیشہ استغفار کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ رہے اور اپنے رب سے ایک گناہ کے اوپر دس ہزار بار بلکہ لاکھوں بار مغفرت مانگے اور اپنے وجدان میں اس کومحسوس کرے۔

شر کے جذبے کا بیج مارنے کے لئے ایک اکسیر دوا

جس طرح استغفار برباد شدہ فطرت کو دوبارہ آباد کرتی ہے ،اسی وقت یہ شر کی طرف میلان کے جذبے کا بھی بیج مارتی ہے کیونکہ انسان استغفار کے ذریعے پاکیزہ رہنے کی پابندی کرتا ہے تو دوسرے گناہ کے لئے ماحول ہی نہیں بن سکتا یعنی دل اس وائرس سے خالی ہو جاتا ہے جو دوسرے جراثیم کو بلانے کا سبب بنتا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی ہو سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے طریقے سے انسان کے گناہوں کے جذبے کو کمزور کردے جو اسے معلوم نہیں ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے} فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ{ [الفرقان: 70] ( تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں میں بدل دے گا )کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان، عمل صالح ،استغفار اور توبہ کے ذریعے اس کی جانب رجوع کرنے والے بندوں کو ان کی غلطیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی بشارت دی ہے ۔جی ہاں انسان اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرتا ہے تو وہ اس کے نامہ اعمال میں موجودہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور اس کتاب کے صفحات کو خالی نہ رکھنے کےلئے ہمارا پروردگاران کو نیکیوں سے بھر دیتا ہے ۔بس یہ بھی اس کی اس رحمت کی ایک تجلی ہے جو اس کے غضب سے آگے بڑھی ہوئی ہے۔

حضرت بدیع الزمان سعید نورسی اس آیت کی ایک اور تفسیر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب انسان توبہ اور استغفار کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سےرجوع کرتا ہے اور بندہ گناہ کرنے کے بعد سچی تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’چونکہ تو میری طرف لوٹ آیا ہے تو میں تجھے انعام دوں گا اور تیرے شر کے جذبات کو خیر سے بدل دوں گا ‘‘۔

استغفار کے اہم اوقات

فرض نمازوں کے بعد تین بار استغفار کرنا سنت ہے (مسلم، المساجد:135) چنانچہ درج ذیل دو باتیں اللہ تعالیٰ کی محبوب ترین عبادت اور بندے کےاللہ تعالیٰ کے قریب ترین پہنچنے کے ذریعے یعنی نمازوں کے بعد استغفار کی فضیلت کے سبب سے پردہ اٹھاتی ہیں :

اول: انسان کا نماز پر توجہ نہ دینا ،دورانِ نماز اپنی دنیا میں مگن رہنا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے کا احساس کئے بغیر دنیوی امور میں مشغول رہنا ...یہ سب کام جو انسان اس عبادت کے دوران کرتا ہے جو بندے کی معراج ہے، اللہ تعالیٰ کی بے ادبی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہونے کے وقت ضروری ہے کہ انسان ان جذبات کے پیچھے بھاگنے کی کوشش کرے جو نبی کریم ﷺ نے معراج میں محسوس کئے۔ اس وجہ سے انسان کے ناسمجھی اور لا پروائی میں کئے جانے والے کاموں کا تقاضا ہے کہ ان پر استغفار کی جائے ۔

دوم: نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعاؤں اور اذکار کی ایک خاص قیمت اور مقبولیت ہے کیونکہ یہ (نماز)دعا اور عاجزی کی قبولیت کا مقام ہے ۔اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے گناہوں سے پاک ہونے کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس مقام پر اللہ تعالیٰ سے رجوع اور استغفار کرنے کا حکم فرمایا ۔اس لحاظ سے نماز پنجگانہ استغفار کی بنیاد اور ایک اہم موقع ہے ۔

شاید ان اہم اوقات میں وہ اوقات بھی ہیں جن کی طرف یہ آیات کریمہ اشارہ کر رہی ہے: } كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ { [ الذاریات:17-18] (رات کے تھوڑے حصے میں سوتے تھے اور اوقات سحر میں بخشش مانگا کرتے تھے ) پس یہ آیات استغفار کے بارے میں ایک اہم وقت کی جانب توجہ دلا رہی ہے کیونکہ یہ ان مومنوں کی تعریف کر رہی ہے جو سحر کے اوقات میں اٹھتے ہیں اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اس کے سامنے گڑگڑاتے ہیں اور یوں طویل سجدے کرتے ہیں کہ زمین سےسر اٹھانا بھول جاتے ہیں ۔ پھر یہ ثناء آسمان والوں ،روحانی مخلوق اور تمام مومنین کے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔بلکہ دوسری جانب یہ مسلمانوں کو ایک ہدف دکھاتی ہے کیونکہ قرآن کریم میں وارد ہونے والے اوصاف جہاں ایک طرف ان اوصاف والوں کی تعریف کرتے ہیں ،دوسری جانب ایک ایسے ہدف کی تعیین کرتے ہیں جس تک سب کو پہنچنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سحر کے اس وقت قیام کرنا جب لوگ سو رہے ہوں اورتہجد کی نماز پڑھنا خواہ دو ہی رکعتیں کیوں نہ ہوں ، اور اس کے ذریعے اللہ کے حضور عبودیت کا اظہاراور اس کے بعد استغفار ،ان لمحوں میں بہت اہم بات ہے اور خصوصاً اس لئے بھی کہ جب انسان کو کوئی بھی نہیں دیکھ رہا ۔

دوسری طرف وہ اوقات جن انسان کا دل نرم ہو جاتا ہے اور وہ اس میں گناہوں کے بوجھ کو محسوس کرتاہے اور اس کے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں ،تو ان اوقات کو استغفار کے لئے اچھی طرح استعمال میں لانا ضروری ہے کیونکہ ان لمحات میں اللہ تعالیٰ کی قربت کی ہوائیں چل رہی ہوتی ہیں ۔

اس طرح ہر گناہ اور خطا کے ارتکاب کے بعد فوراً اللہ تعالیٰ سے رجوع بھی اس پہلے لمحے کو استعمال میں لانے کے برابر ہے جب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ گناہ کی جانب ایک قدم چل چکا ہے ۔یہ لمحہ بھی استغفار کے لحاظ سے بڑا اہم ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ گناہ ایک لٹو کی طرح ہے اور انسان کو اپنا عادی بنا دیتا ہے۔ اس لئے گناہوں میں غرق شخص ان گناہوں سے نہیں نکل سکتا بلکہ مختلف گناہوں اور شرور میں پڑا انسان یہ تمنابھی کر سکتاہے کہ وہ گناہ حرام ہی نہ ہوتے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اگر اس دلدل سے نکلنے کا حقیقی عزم اور اور اپنے ارادے کا حق ادا نہ کرے تو یہ بات اسے اعتقادی مصیبت میں ڈال دیتی ہے اور جو لوگ ہلاک ہوئے وہ اسی طرح کے ملاحظات کی وجہ سے ہلاک ہوئے ۔اس لئے یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ انسان گناہوں سے یہ کہتے ہوئے فوراً واپس آجائے :’’یہ راستہ دلدل تک لے جاتا ہے اور چند قدموں بعد ہو سکتا ہے میں ایسےمقام پر پہنچ جاؤں جہاں سے واپسی ناممکن ہو ‘‘۔

آخری بات یہ کہ مذکورہ بالا اوقات اگرچہ استغفار کا موقع ہیں ،مگر اس کے لئے کوئی وقت مخصوص کرنے کی شرط نہیں ہے اور استغفار کو ان اوقات کے ساتھ مخصوص کرنا بھی بالکل درست نہیں کیونکہ انسان صبح،شام،رات،دن ،ہر وقت معافی مانگ سکتا ہے اور اپنی زندگی کے ہر لمحے کو استغفار کا لمحہ بنا سکتا ہے جی ہاں، جب انسان کے پاس فرصت ہو تو وہ ایک طرف ہو کر جس بھی حالت میں ہو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے خواہ رکوع میں ہو، سجدے میں ہو، گھٹنوں کے بل کھڑا ہو اور اللہ کی جانب توبہ کے ذریعے رجوع کرے ،بلکہ ہر حال میں استغفار کرے ،جب ایک جگہ سے دوسری جگہ جا رہا ہو ،گاڑی چلا رہا ہو ،یا کسی کا انتظار کر رہا ہو۔ اس کے لئے ممکن ہے کہ اپنے دل میں موجود ہر بات کو استغفار کی کسی بھی شکل میں اللہ کے حضور پیش کردے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لمحے کو اسی پس منظر میں گزارے کیونکہ موت اچانک آتی ہےاور استغفار سے تر ہونٹوں سے موت کا استقبال انسان کے پاک صاف ہو کر آخرت کی جانب کوچ کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔