ہمیں اللہ کافی ہے!
سوال: تمام پیغمبرانِ خدا علیہم السلام نے مصائب میں حق تعالیٰ کی طاقت و قدرت کی پناہ مانگی اور اس یقین کااظہار کیاہے کہ کامیابی کی ضامن صرف حق تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس تناظر میں بکثرت مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے والے مخلص لوگوں کے لیے ’’حسبیہ دعائیں‘‘ (مجھے اللہ کافی ہے) مانگنے کی کیا اہمیت ہے؟
جواب: چونکہ انسان بنیادی طورپر کمزور اورضرورت مندہے، اس لیے وہ قادرمطلق اور غنی مطلق خدا کی پناہ میں آکر ہرقسم کی مشکلات پر قابو پاسکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ [آل عمران:173] (ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔) کہہ کر پیش آمدہ مشکلات کے خلاف حق تعالیٰ کی پناہ مانگے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو لوگ خلوصِ دل سے یہ آیت مبارکہ پڑھتے ہیں وہ اپنے معاملات کو خدا کے سپرد کرتے اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہی ان کا کارساز ہے اور جب وہ اس کی پناہ مانگیں گے تو وہ انہیں بے یارومددگار نہیں چھوڑے گا۔
اللہ تعالیٰ پر اعتماد
جب کچھ لوگوں نے نبی کریم ﷺاور آپﷺکے راستے سے بے اعتنائی اختیار کی تو حق تعالیٰ نے درج ذیل آیت مبارکہ نازل فرمائی: ﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾ [التوبہ:129] (سواگر یہ لوگ پھر جائیں اور نہ مانیں تو کہہ دو کہ اللہ مجھے کفایت کرتا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس پر میرا بھروسہ ہے اور وہی عرشِ عظیم کا مالک ہے۔)
بدیع الزمان سعید نورسی اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر گمراہ لوگ بے رخی اختیار کرتےہوئے آپ کے راستے سے علیحدہ ہوجاتے ہیں اور قرآن کریم کی طرف توجہ نہیں دیتے تو آپ پریشان نہ ہوں، بلکہ کہیں: ﴿حَسْبِيَ اللَّهُ﴾ (مجھے اللہ ہی کافی ہے) میں اس پر بھروسا کرتا ہوں۔ وہ تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا، جو میری پیروی کریں گے۔ ہر چیز پر اس کی حکمرانی ہے۔ نافرمان اس کی سلطنت سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے مدد مانگنے والوں کو بے یارومدد گار چھوڑا جائے گا۔‘‘[1]
رسول اللہ ﷺسےمروی صبح و شام کی دعاؤں میں سے ایک دعا کے الفاظ درج ذیل ہیں: "يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ، أَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، وَلا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرفَةَ عَيْنٍ"[2] (اے حی و قیوم خدا! میں آپ کی رحمت کے صدقے آپ سے مدد کا امیدوار ہوں۔ میرے تمام معاملات کو درست فرما دیجیےاور مجھے ایک لمحے کے لیے بھی تنہا نہ چھوڑیے)۔
ہم اس کی وضاحت یوں کرسکتے ہیں: ’’اے اللہ! اپنے راستے پر چلتے ہوئے میرے ہرعمل کو غفلت کے شر سے محفوظ رکھیے اور مجھے ایک لمحے کے لیے بھی نفس و شیطان کے سپرد نہ کیجیے، کیونکہ اگر انہیں مجھ پر قابو حاصل ہوگیا تو شاید وہ مجھے جہنم کی طرف لے جائیں گے۔چونکہ نفس پرکبھی بھی بھروسا نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے اگر میری لگام اس کے ہاتھ میں آگئی تو میں ناکام ہوجاؤں گا، تاہم اگر آپ میری نگہبانی فرمائیں تو میں ہدایت اور سیدھے راستے پر چل سکتا ہوں اوراگر آپ کی قوت و حمایت مجھےحاصل ہو تو نفس و شیطان کچھ بھی نہیں کرسکتے۔‘‘
خدا کی قدرتِ مطلقہ
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اوران کے پیروکاروں کی قوم نے ان سے بے اعتنائی برتی تو انہوں نے حق تعالیٰ پر بھروسا کرتے ہوئے کہا: ﴿رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (4) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ﴾ [الممتحنہ:5-4] (اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہمارا بھروسہ ہے اور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیرے ہی حضور میں ہمیں لوٹ کرآنا ہے۔ اے ہمارے پروردگار ہمیں کافروں کے ذریعے فتنے میں نہ ڈالنا اور اے ہمارے پروردگار ہمیں معاف فرما۔ بیشک تو غالب ہے حکمت والا ہے۔) یہ کہہ کر انہوں نے کافروں کے بارے میں ذمہ دارانہ موقف اختیار کیا اوران کی دھمکیوں کو للکارا۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ خدا کے سوا پوجی جانے والی کوئی بھی چیز کسی اہمیت کی حامل ہے اور نہ ہی کسی تعریف کی مستحق ہے ۔ ان کے یہ الفاظ خدا کی قدرت کے ہر چیز پر کامل تسلط پر ان کے یقین اور نورِایمان کے غماز ہیں۔
یہاں میں ایک اورنکتے کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا۔جب ہم نبی کریمﷺاورگزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام کے اقوال و افعال کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہوطور پر سامنے آتی ہے کہ آپﷺکے فضائل میں گزشتہ انبیائے کرام علیہم السلام کی دعاؤں کی تکراربھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حق تعالیٰ سےقلبی سکون کی التجا کرتے ہوئے درج ذیل دعا مانگی تھی: ﴿رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي﴾ [طہ:25] (اے میرے پروردگار اس کام کے لیے میرا سینا کھول دے) لیکن قرآن کریم نبی کریم ﷺ کے بارے میں کہتا ہے: ﴿أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ﴾ [الانشراح:1] (کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کھول نہیں دیا؟) یہ نبی کریم علیہ و علی جمیع الانبیاء السلام کو عطا کی گئی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے پیروکارایسی صورت حال میں تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان کے حالات بدل سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسری آیت مبارکہ نبی کریم ﷺکے صحابہ کی صورتحال کو درج ذیل الفاظ میں بیان کرتی ہے: ﴿الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ [آل عمران:173] (جب ان سے لوگوں نے آکر بیان کیا کہ کفار نے تمہارے مقابلے کے لیے لشکرِ کثیر جمع کیا ہے تو ان سے ڈرو تو ان کا ایمان اور زیادہ ہوگیا اور کہنے لگےہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے)۔
اس سےثابت ہوتا ہے کہ جن حالات میں عام لوگ نامعلوم انجام کے بارے میں خوف اور پریشانی محسوس کرتے ہیں صحابہ کرام نے ایسے حالات میں حق تعالیٰ پر مکمل یقین اور اعتماد کیا۔چونکہ وہ روحانی بیداری سےسرشار تھے، اس لیے انہوں نے بے خوف ہوکر دشمن کا سامنا کیا۔
خدا پر مکمل اعتماد
جب بدیع الزمان جلا وطنی کے دوران مکمل تنہائی کا شکار تھے انہیں ساری دنیا تاریک دکھائی دینے لگی تھی۔ ایسے مایوس کن حالات میں انہیں درج ذیل آیت مبارکہ سے تسلی حاصل ہوئی: ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ [آل عمران:173] (ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔) اچانک اس آیت مبارکہ کی ایک نئی توجیہ ان کے ذہن میں آئی۔ اس کے بعد سے انہوں نے اس آیت مبارکہ کو روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھنا شروع کردیا، جس کے نتیجے میں ان کے دل پر متعدد راز آشکارا ہوئے۔ صرف اس ایک آیت مبارکہ سے اخذ کردہ اسباق سے انہوں نے جو روحانی طاقت حاصل کی، اس نے انہیں ایسا مضبوط ایمان عطا کیا، جو ان کے لیے نہ صرف جلا وطنی کےعلاقے کے ظالموں بلکہ ساری دینا کے خلاف کافی ہوگیا۔ جس شخص کے دل کو اس قدر سکون حاصل ہوجائے وہ کبھی افسوس اورپریشانی میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے راستے کو تبدیل کرنے کے لیے ڈالے گئے کسی قسم کے دباؤ کو قبول کرتاہے۔
بدیع الزمان کے لیے قید خانہ "یوسفی مدرسہ" بن گیا اور انہوں نے وہاں بھی اپنے مشن کو جاری رکھا حتی کہ جب ان کے لیے قید سے رہائی ممکن تھی تب بھی انہوں نے اپنی جدوجہدکے ثمرات کو آدھے راستے میں ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اور قیدیوں کے مفاد کی خاطر قید ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ راحت، سکون اور قلبی اطمینان کا حقیقی مفہوم یہی ہے۔اس کے برعکس مایوس اور پریشان دل اور روح کا مالک شخص اس قدر دباؤ، پریشانی اور افسردگی محسوس کرتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز اس کی مشکل حل نہیں کرسکتی۔ جن لوگوں کے باطن کو حق کا ادراک نہیں ہوتاوہ کبھی بھی باطنی تاریکی سےمحفوظ نہیں رہ سکتے، خواہ وہ روزانہ ہزاروں پُرتعیش کشتیاں اور گاڑیاں کیوں نہ بناتے ہوں۔ حقیقی سکون اور مسرت دل کے خداداد سکون میں ہے۔ ایسی کیفیت کے حامل لوگ عظیم مشکلات کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں، آگ کو اپنے دلوں کے رنگ برنگےشعلوں اور چنگاریوں میں بدل دیتے ہیں اور اپنے ا رد گرد کےلوگوں کو آتش بازی کے دلچسپ منظر سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ جب ہماری مشکلات اور مصائب کے اثرات ہمارے تصور،تخیل اور طرزِ استدلال کے افق کو چھوئیں گے تو بدیع الزمان کو عطا کیے گئے الہامات جیسے الہامات ہمارے دلوں پر بھی ہونےلگیں گے۔ خاص طورپر جو لوگ ذوق وشوق سے کامل ایمان اور اطمینان چاہتے ہیں اور حق تعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنےکی کوشش کرتے ہیں انہیں اس قسم کی کیفیات سے نوازا جاتا ہے، تاہم ہم میں سے اکثر لوگ اس قسم کی کیفیات کو اس لیے نظر انداز کردیتے ہیں کہ یا تو ہم اپنے دل کی آواز پر کان نہیں دھرتےیا پھر انہیں ہرکسی کو حاصل ہوسکنے والی معمولی کیفیات سمجھتے ہیں، تاہم روحانی ہستیاں ا لہامات کو مختلف زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہیں جو عام اور معمولی نہیں ، بلکہ اپنے اندر بڑی حکمت اور معنویت رکھتے ہیں۔ درحقیقت وہ ایسے واقعات کو اہم علامات اور تنبیہات سمجھتی ہیں، چنانچہ بدیع الزمان نے اپنے دل پرآشکارا ہونے والی قیمتی صداقت کی قدردانی کی، اس میں تدبر کیا اورحکمت اور الہام حاصل کرنے کی امید سے اس آیت مبارکہ کو روزانہ پانچ سو مرتبہ پڑھا۔
اس حقیقت کے پیش نظر کہ وہ اس آیت مبارکہ کو پانچ سو مرتبہ دہراتے تھے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی بات کی صداقت کو شدت سے محسوس کرنے کے لیے بار بار دہرانے میں یقیناًکوئی پُراسرار حکمت ہوگی۔ لہٰذا عام لوگوں کو اپنے دشمنوں کے شر سے بچنے کے لیے خدائی قدرت کی پناہ مانگنی چاہیے، بلند آفاق کو اپنا ہدف بنانا چاہیے اور روزانہ پانچ سو بلکہ ہزار مرتبہ نبی کریم ﷺ سے مروی یہ دعا پڑھنی چاہیے: ﴿حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾ (مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے)۔
اس عظیم ہدف کو پانے کے لیے ہم درج ذیل طریق کار اختیار کرسکتے ہیں: جب کوئی گروہ کسی طویل دعا کے مختلف حصوں کو آپس میں تقسیم کرکے اس کے چھوٹے چھوٹے حصوں کو پڑھتا ہے تووہ اسے آسانی سے مکمل کرسکتاہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس جماعت کا ہر فرد اس اجتماعی عمل کےپورے ثمرات سےمستفید ہوتا ہے، چنانچہ یہ دعا بھی اسی انداز سے پڑھی جاسکتی ہے۔ مثال کے طورپر اگر دس افراد فی کس سومرتبہ کے حساب سے اسے پڑھنے پر اتفاق کرتے ہیں تو اس اجتماعی عمل پر ان شا ء اللہ اتنا ثواب ملے گا جیسے ان میں سے ہر ایک نے انفرادی طورپر اسے ہزار مرتبہ پڑھا ہو۔
کامیابی کے بعد ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ﴾ کہنا
مومن کو صرف مشکلات و مصائب ہی میں نہیں،بلکہ کامیابی حاصل کرنےکےبعدبھی خدا کی پناہ مانگنی چاہیے۔کسی مخصوص معاملے کی نزاکت مختلف افراد کے لحاظ سے مختلف ہوسکتی ہے، کیونکہ بعض لوگ صرف مشکل حالات ہی میں ﴿حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ﴾ (ہم کو اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے) کہتے ہیں۔ اس انداز سے خدا کی طرف متوجہ ہونے کے نتیجے میں خدا کے فضل سے ان کے تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ اس قسم کی پناہ کی پریشان حال لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے۔ بعض دوسرے لوگ اسے معمول کی دعا بنا لیتے ہیں اوراپنی صبح و شام کی دعاؤں میں خدا کی پناہ مانگتے ہیں، مزید برآں جن حضرات کی روحانی صلاحیتوں کو خدائی اسرار تک رسائی ہوتی ہے،انہیں ہر چیز میں بلکہ اپنی ذاتی زندگی کے انتہائی معمولی معاملات میں بھی خدائی قدرت کا مشاہدہ ہوتا ہے حتی کہ یہ روشن دل حضرات سوئی کے ناکے میں دھاگا پرونے اور اپنے منہ کی طرف نوالہ لے جانے جیسےمعمولی کاموں کے دوران بھی خدائی قدرت کی پناہ مانگتے ہیں۔ درحقیقت ان کااس بات پرایمان ہوتاہے کہ جب وہ کچھ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو حق تعالیٰ ان کےفعل کو وجود میں لاتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے افعال کے خالق نہیں ہیں،بلکہ کسی مخصوص فعل کے کرنے کا صرف ارادہ کرتے ہیں، لہٰذا وہ ہمیشہ کہتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ ہی ہمیشہ ہمارے افعال کووجود میں لانے والے ہیں۔‘‘ یہ عقیدہ خدا کی توحید پر خالص ایمان کاغماز ہے۔
درحقیقت جب ہم نبی کریم ﷺ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے صبح کے وقت سات بار﴿حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾ (مجھے اللہ ہی کافی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی پر میں بھروسا کرتا ہوں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔) پڑھتے ہیں تو ہم اپنے اس اعتراف کا اعلان کرتے ہیں کہ آئندہ دن میں پیش آنے والے تمام مسائل کوحل کرنے کی کامل قدرت صرف حق تعالیٰ کو حاصل ہے۔ پھر جب شام ہوتی ہے تو ہم یہی الفاظ دہرا کر اپنی رات کو لامحدود رحمت کے مالک پروردگار کے سپرد کرتے ہیں۔ خدا سے التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر لمحے کو رسول اللہ ﷺ کی اس سنت کی نورانی کرنوں سے منور کرنے کی توفیق بخشے!
[4] Badiuzzaman Said Nursi, The Gleams (New Jersey: Tughra Books, 2008), 66.
[2] الحاکم، المستدرک، 545:1۔
- Created on .