تعصّب : سوچنے کی صلاحیت کو مفلوج کردینے والی ایک سماجی بیماری
سوال: تعصب کیا ہے اورایمان پر ثابت قدمی اور تعصب کے درمیان کیا فرق ہے؟
جواب: تعصب معاملات کو صرف اپنی سمجھ کے مطابق دیکھنے ا ور کسی اور پہلو سے ان کا جائزہ نہ لینے سے عبارت ہے، نیز اس کے مفہوم میں عقل اور دین کی روح کے منافی باتوں پر ضد اور ہٹ دھرمی کرنا بھی شامل ہے۔اسی حقیقت کو رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ میں ’’عصبیہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔[1] عصبیہ کا لغوی مفہوم اشتعال ہے، کیونکہ متعصبانہ طرز عمل مکمل طور پر اشتعال اور جذباتیت پر مبنی ہوتا ہے۔نیز یہ انسانوں میں حیوانی جذبات کا ایک مظہرہے۔ تعصب کے لفظ میں مجبور کرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ کسی معاملے پر حد سے زیادہ اصرار کرنے، دوسروں کا لحاظ کیے اور ان کی بات سنے بغیر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرنے اور ہر معاملے میں صرف اپنی ذات اور رائے کو سب سے برتر سمجھنے سے عبارت ہے۔ جیسا کہ آئندہ سطور میں واضح ہوجائے گا تعصب کا عقل، درست فیصلے اور شعور کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح متعصب انسان شعور عام کے ذریعے کوئی کام نہیں کرسکتا اسی طرح اس کے لیے ضمیر کے ذریعے محسوس کی جانے والی حقیقی روحانی کیفیات کو پانا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
ایمان کے راستے میں ایک رکاوٹ
اہل ایمان کو ایذائیں پہنچانے والے ہمیشہ متعصب لوگ ہی تھے۔ مثال کے طور پر عہد رسالت میں مشرکین اور منافقین نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے فخر انسانیت ﷺ کی طرف سے پیش کیے جانے والے پیغام کو دیکھنے اور سننے سے انکار کردیا، لیکن اگر وہ نبی کریمﷺ کو غیر جانبداری سے دیکھتے اور آپ ﷺ کی پُرحکمت باتوں پر تھوڑی سی توجہ بھی دیتے تو وہ بھی وہی کچھ دیکھتے اور سنتے جو دوسرے باشعورانسانوں نے دیکھا اورسنا۔اگر آپ ﷺ کے مخالفین آپ ﷺ کے پیش کردہ حقائق پر کچھ دیر کے لیے غور وفکر کرتے تو وہ انہیں سمجھ جاتے اورتحسین کی نظر سے دیکھتے، لیکن بدقسمتی سے تعصب، ناپسندیدگی اور نفرت کے نتیجے میں انہوں نے ان خوبصورت حقائق سے نظریں پھیر لیں اور کفر کی دلدل میں دھنس گئے۔
تکبر، فسق و فجور اور صحیح نقطہ نظر سے انحراف کے علاوہ ایمان کو قبول کرنے سے ایک اورمانع آباء و اجداد کی ایسی اندھی تقلید ہے، جس میں یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ وہ حق پر تھے یا نہیں۔ دراصل ایسی اندھی تقلید تعصب ہی کی ایک صورت ہے۔ دور جاہلیت کے مشرکوں نے اسلام کی مخالفت میں وہی دلائل پیش کیے جوان کے آباء و اجداد سے ان کی طرف منتقل ہوئے تھے ۔ صلح حدیبیہ سے پہلے ان کا مسلمانوں کو کعبہ کی زیارت سے روکنا اسی تعصب کا نتیجہ تھا۔ قرآن کریم ان کے اس رویے کو ’’حمیۃ الجاھلیۃ‘‘ (یعنی دورجاہلیت کے ساتھ مخصوص حمیت) کا نام دیتا ہے۔ وہ اس حمیت سے اس قدر مغلوب ہوگئے تھے کہ وہ پہلے کی طرح اپنی رسوم اور روایات سے چمٹے رہے اور دوسرے عرب قبائل کی نظروں میں اپنی سبکی سے بچنے کے لیے انہوں نے مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روک دیا۔
درحقیقت اس قسم کے تجربات آج کی دنیا میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ مثال کے طورپر جب آپ اپنے ایمان اور روحانی اقدر کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو بعض لوگ ناقابل فہم حد تک سخت اور مخالفانہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو اس آزادی سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ممکن ہےآپ معاشرے کی فلاح و بہبود اور اس کے معیار کو بلند کرنے کے لیے مختلف منصوبے اور تجاویز پیش کریں، لیکن اس کے باوجود کچھ حلقے صرف اس لیے آپ کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں گے کہ ان کی نظر میں آپ کے اقدامات ان کےطور طریقوں کو بدلنے کے مترادف ہیں اورکہیں گے: ’’یہ لوگ ترقی اور فلاح و بہبود کے بہانے دراصل ہماری اقدار کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔‘‘ اگرچہ آپ ان کے مارکسی ، لیننی اور ان جیسے دیگرنظریات کی برائی میں کچھ بھی نہ کہیں اور ان کی نظر میں قابل احترام شخصیات کی کوئی برائی بیان نہ کریں، تب بھی اگر آپ کی سوچ اور اقدار کو معاشرے میں مقبولیت ملتی ہےاوروہ اپنے آپ کو نظر انداز ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو دعویٰ کرتے ہیں: ’’ تمہاری سرگرمیاں ہمارے خلاف ہیں اور تم ہمیں اور ہماری اقدار کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہو۔‘‘ حتیٰ کہ اگر آپ کسی طرح انہیں براہ راست جنت کی طرف جانے والا راستہ بھی دکھا دیں گے تب بھی کچھ لوگ کہیں گے: ’’یہ کرتب دکھا کر یہ لوگ ہمیں اپنے نظریات فراموش کرانا چاہتے ہیں۔‘‘ اس قسم کے تمام رویے اور طرز ہائے عمل دور جاہلیت کی ’’حمیت‘‘ پر مبنی ہیں۔
ایک خطرناک بیماری
اس قسم کی حمیت کا مظاہرہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں ہوسکتا ہے۔ تعصب کا کسی مخصوص علاقے سے تعلق نہیں ہوتا۔یہ منفی رویہ کسی بھی قوم میں مختلف افکار و نظریات کے روپ میں آسکتا ہے۔نیز مذہبی لوگ بھی تعصب سے اس قدر متاثر ہوسکتے ہیں کہ بعض لوگ ہر چیز کو اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھتے اور اپنے سطحی علم کو مطلقاً صداقت سمجھتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ ثانوی اہمیت کے معاملات کے بارے میں بھی بے لچک اور عدم برداشت پر مبنی رویہ اپناتے ہیں۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ خودکش حملہ آور کسی نشہ آور چیز یا دھوکے کے زیر اثر ہوتے ہیں اورنہ ہی انہیں مکمل طورپرہپناٹائزڈکیا گیا ہوتا ہے تو دور حاضر میں بزعم خود مذہب کے نام پر کیے جانے والے خود کش حملے بھی اسی تعصب کا نتیجہ ہیں۔ یہ ایسی خطرناک بیماری ہے کہ لوگ خود ساختہ پارسائی کے دھوکے میں اپنی روحانی زندگیوں کو بھی برباد کردیتے ہیں۔ جو لوگ خود کش حملے کرکے بچوں،بوڑھوں اور عورتوں سمیت معصوم لوگوں کی جانیں لیتے ہیں وہ اس قسم کے طرز عمل کے ذریعے اپنے آپ کو جنت کے بجائے جہنم کا مستحق بناتے ہیں۔ یہ کتنا افسوس ناک انجام ہے کہ کوئی شخص جنت کا راستہ اختیار کرنے اور دوسروں کی اس کی طرف رہنمائی کرنے کے بجائے جہنم میں جا گرے!
ایمان پر ثابت قدمی
چونکہ صاحب ایمان نیک دل انسان ہوتا ہے ، اس لیے تعصب کے ساتھ اس کا دور کاواسطہ بھی نہیں ہوتا۔ نیکی کے راستے پر چلنے والوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ حق کی مخالفت کریں گے یا سچائی سے غفلت برتیں گے، کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ حق کی توہین ہوگی۔ لہذا اہل ایمان کی خصوصیت تعصب کے بجائے ایمان پر ثابت قدمی ہے۔
’’ایمان پر ثابت قدمی‘‘ کا تعلق مومن کے الفاظ، رویوں اور کیفیات کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب بے لچک، سخت اور غیر متحمل ہونا نہیں، بلکہ یہ ہر قسم کی مخالفتوں کے باوجود اسلامی تعلیمات کے تمام پہلوؤں پرخلوص کے ساتھ عمل پیرا ہونے کے پختہ عزم سے عبارت ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب اپنے تمام رویوں اور طرز ہائے عمل کے ذریعے مسلسل رضائے حق کی جستجو میں رہنا ہے گو دوسرے لوگ دنیوی لذتوں میں کیوں نہ منہمک ہوں۔ نیز اس کے مفہوم میں کسی بھی دینی کام میں سستی کا مظاہرہ نہ کرنا اور ہر قسم کے حالات میں اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے پُرعزم رہنا بھی شامل ہے۔ اس درجے کی ثابت قدمی حاصل کرنے کے لیے مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے تحقیق پر مبنی حقیقی ایمان پانے کی بھرپور کوشش کرے، پھر ایمانی حقائق کی گہرائیوں میں مسلسل غوطہ زنی کرے اور پھر تمام معاملات کوعقل سلیم اور درست قوت فیصلہ کے ذریعے پرکھنے کے بعد ان کی بنیادقابل اعتماد علم پر رکھے۔ایسا سالک خدا کے علم کی بدولت ہر قسم کے حالات میں اسی پر بھروسا کرتا ہے، تقویٰ کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے، اسباب کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، ہر قدم احتیاط سے رکھتا ہے، دھوکا نہیں کھاتا اور کبھی بھی جذبات کی رو میں نہیں بہتا، کیونکہ ایسے سالک کی روح میں حکمت، محبت اور خدا کے ساتھ لگاؤ سے بنا ہوا فانوس ہر لمحے اس کے راستے کو روشن رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تعصب انہی لوگوں کے رویوں اور طرز عمل میں پایا جاتا ہے،جن کے اعمال زیادہ تر سنی سنائی باتوں اور تقلید پر مبنی ہوتے ہیں ۔ تعصب سے پاک ثابت قدمی کے حصول کے لیے اہل ایمان کو سب سے پہلے قرآن و سنت کے بنیادی احکام کو پورے طورپر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انہیں چاہیے کہ وہ اپنے علم کو ان دو ماخذوں کی روشنی میں پرکھیں اور پھر قرآن و سنت سے حاصل کردہ علم کو ممتاز اہل علم کے پاکیزہ فہم اور عمومی اتفاق رائے کی روشنی میں جانچیں۔اس سب کے بعد بھی اہل ایمان کو اپنے تمام فیصلوں میں خدا کے حضور یہ التجا کرنی چاہیے: ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ [آل عمرآن:8] (اے پروردگار جب تو نے ہمیں ہدایت بخشی ہے تو اس کے بعد ہمارے دلوں میں کجی نہ پیدا کر دیجیو اور ہمیں اپنے ہاں سے نعمت عطا فرما تو تو بڑا عطا فرمانے والا ہے۔)
تعصب جس قدر قابل نفرت چیز ہے ایمان پر ثابت قدمی اسی قدر قابل تحسین عمل ہے، کیونکہ ثابت قدمی کسی بلند عمارت کی طرح غیر متزلزل موقف کا اظہار کرتی ہے۔ درحقیت متعصب شخص کے لیے غیر متزلزل طرز عمل اپنانا اور ایمان پرثابت قدم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، کیونکہ وہ عقل اور قوت فیصلہ کے بجائے جذباتی محرکات کی روشنی میں ہر کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آج ایک نظریے کے لیے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ کل کسی دوسرے نظریے کے لیے بھی اسی طرح تعصب کا مظاہرہ کریں گے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ کسی مادہ پرستانہ نظریے کے تعصب کی حد تک حامی ہوتے ہیں جب وہ روحانیت سے متاثر ہوتے ہیں تو وہ حد سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ اس کی ترویج میں لگ جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف حقیقی اہل ایمان اپنی بنیادی اقدار کے بارے میں جس موقف پر عہد رسالت میں قائم تھے چودہ صدیوں کے بعد بھی اسی درست موقف کو اپنائے ہوئے ہیں۔
جہاں تک بدلتے ہوئے حالات کے مطابق نئے اجتہادات کا تعلق ہے تو یہ ایک مختلف معاملہ ہے،جو ایمان پر ثابت قدمی کے منافی نہیں ۔ جید علمائے کرام کی آراء کا حوالہ دینے کی اہمیت کا خود قرآن کریم (النساء:83) میں ذکر ہے۔ قابل اعتماد علمائے کرام کے منہج کو اپناتے ہوئے نئے پیش آنے والے مسائل کا جواب دینا ایک قسم کی ترقی ہے، تاہم یہ ترقی تخریب، شہرت کی خاطر مبالغہ آمیز فتوی بازی اور غور و فکر کے بغیر کسی معاملے پر تعصب کا مظاہرہ کرنے سے بالکل مختلف ہے۔ اس کے برعکس وہ محدود اصولوں سے لامحدود مسائل کا استنباط کرنے، اسلام کی عالمگیریت اور اس کی ہمہ گیر فطرت سے عبارت ہے۔
[1] سنن ابی داؤد ، کتاب الادب، 111؛ سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن،7۔
- Created on .