خدمت کی زندگی میں چستی اور نشاط
سوال: ہم اس چستی اور نشاط تک کس طرح پہنچ سکتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا ہدف ہے؟
جواب: زندگی کے فلسفے کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر میں جمود اور سستی کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ انسان سے لے کر زمین تک ہر شے میں چستی اور نشاط پایا جاتا ہے اور یہی بات اشیاء اور زمانوں میں جاری و ساری ہے کیونکہ جس طرح اسلام نے فرد کو اپنے نیک اعمال میں ہمیشہ چستی اور نشانط کا درس دیا ہے اسی طرح اس کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ وہ مال، زمین ا ور وقت سب میں بہترین سرمایہ کاری کرے اور ان کو بہترین طریقے سے کام میں لائے تاکہ بہترین پھل حاصل کرسکے۔
دوسری جانب وہ اہم مسائل جو ایک مسلمان سے چستی اور نشاط کا تقاضا کرتے ہیں، وہ ایمانی مسائل ہیں۔اس لئے ہم ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں: ’’یا اللہ ہمارے علم، ایمان اور یقین میں اضافہ فرما۔‘‘ پس مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کتابوں اور سلف صالحین کی سوانح حیات پڑھ کر اورایمانی مجالس اور اوراد و اذکار کے ذریعے اپنے ایمان کی تجدید اور یقین میں اضافے کی کوشش کرے۔ اس بارے میں ’’القلوب الضارعۃ ‘‘ (1) اور اس جیسی دعاؤں کی دیگر کتابوں میں مذکور دعاؤں پر توجہ دینے اوران کی گہرائی میں اترنے سے انسان کے سامنے کئی رستے کھل سکتے ہیں۔
کئی صدیوں سے عالم اسلام کو درپیش پیچیدہ مشکلات کو حل کرنے اور ایمان والوں کی دوسروں کے زیر سایہ ذلت کی زندگی گزارے بغیر، اپنے وجود کو برقرار رکھےع میں چستی، نشاط اور تاثیر کی بڑی اہمیت ہے۔ (افسوس کی بات ہے کہ ) مسلمان صدیوں سے اس جذبے، نشاط اور تاثیر کو کھوچکے ہیں اور وہ عالمی سطح پر توازن کے ایک عنصر کی حیثیت سے اپنا مرتبہ برقرار نہیں رکھ سکے۔ اس لیے وہ قیادت سے محروم ہوگئے اور سیاسی ، ثقافتی، اقتصادی اور دیگر میدانوں میں دوسروں کے زیر سایہ آگئے۔
ہاتھ پاؤں بندھا ہوا ایک معاشرہ
حضرت نورسی ر حمہ اللہ نے ہمیں اس حقیقت کی جانب متنبہ کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:’’اے دو پاؤں پر چلنے والی قوم اور دیکھنے والو مُردو! اے بیچارے لوگو جو دونوں جہانوں کی زندگی کی روح (اسلام) کو چھوڑ چکے ہو، اگلی نسل کے دروازے کے سامنے سے واپس چلے جاؤ، اس کے سامنے رکاوٹ بن کر کھڑے نہ ہو کیونکہ قبریں تمہارے انتظار میں ہیں۔ رستے سے ہٹ جاؤ تاکہ وہ نئی نسل آئے جو اسلام کے حقائق کے پرچم بلند کرے گی اور اسے اس طرح لہرائے گی کہ کائنات کے چہرے کے سامنے ان کی لہریں ہوں گی۔‘‘(2) کیونکہ سست انسان یا پرانے افکار، یا کم ہمتی اس آخری عالمی دین کو پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس لیے حضرت نورسی نے جذبے سے عاری ان سست روحوں سے جو اگلی نسل کے لیے برا نمونہ پیش کرتی ہیں، رستے سے ہٹ جانے اور اس نسل کے لیے رستہ خالی کرنے کا مطالبہ کیا جو ان کے بعد چستی اورنشاط کے ساتھ آئے گی تاکہ اس مرتبے پر فائز ہوسکے جو اس کا ہونے چاہیے اور اپنے اوپر لازم ذمہ د اریوں کو ادا کرے۔
جی ہاں، اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ انسان برا نمونہ نہ بنے۔ یہاں میں اپنے آباؤ اجداد رحمہم اللہ کی برائیوں کا تذکرہ کرکے گناہگار نہیں ہونا چاہتا، لیکن حق کو ثابت کرنے اور حقیقت کو واضح کرنے کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے آپ سے درج ذیل بات ذکر کرنے کے لیے معذرت خواہ ہوں:
آج ہم جس جمود اور پست ہمتی کا شکار ہیں اس کا سبب ہمارے والد، ہماری مائیں، ہمارے دادے اور ہماری دادیاں ہیں اور ان کی غلطیوں میں (ایک حد تک) ان سے پہلے لوگوں کا ہاتھ ہے۔ انصاف کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رب پر ایمان اور عبادات کی ادائیگی میں اپنے کاندھوں پر آنے والی ذمہ داریوں کو تو پورا کیا مگر وہ واقعات کا اندازہ لگانے میں سادہ فکری اسلوب سے آگے نہ بڑھ سکے۔ چنانچہ وہ ان افکارتک نہ پہنچ سکے جن پر غور و فکر کرکے وہ اپنے زمانے کا ادراک کرتے۔ اس طرح وہ اس قحط اور خشک سالی کا سبب بن گئے جس کا ہمیں فکری اور عملی زندگی میں برابر سامنا ہے۔
اسی وجہ سے ہم ایک ضائع اور ناکام نسل کے طورپر تیار ہورہے ہیں کیونکہ ہماری تربیت ایسے ماحول میں نہیں ہوئی جو عصر حاضر کا ادراک کرنے کے لائق ہو۔ علاوہ ازیں ہم بھی ایسے لوگ نہیں بن سکے جو مستقبل کے امین ہونے کے وصف سے متصف میں، جو زمین کے وارث ہوں گے اور ہم بھی صرف چپو چلا رہے ہیں جبکہ معاملات کو کوئی اور چلا رہا ہے۔
اگر اس مسئلے کو معاشرتی رخ سے دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ: یا تو معاملات کوعالمی توازن کے لیے چلاؤ یا پھر ساری عمر چپو چلاتے رہو، ان دونوں باتوں میں درمیانی رستہ کوئی نہیں۔جی ہاں، یاتو آپ حاکم بن جائیں یا محکوم رہیں ۔ بالفاظ دیگر یا تو آپ عالمی توازن کے عناصر میں سے ایک عنصر بن جائیں یا اس چوکےوں کے اندر رہیں جو دوسروں نے آپ کے لیے بنایاہے۔ یا یوں کہیے: یا تو آپ فیصلہ اور اثر ورسوخ کے مالک بن جائیں یا غیروں کے قیدی ۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ان غلاموں کی طرح ہوجائیں جن کی گردن میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ہیں ۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کا یہی حال ہے۔
اسلام کوحقیقی طورپر پیش نہ کرسکنے سے پیدا ہونے والے اس حال میں پڑنے سے ہم اسلام کی عزت و توقیر بھی برقرار نہ رکھ سکے بلکہ اسے ذلت و رسوائی میں ڈال دیا جبکہ سچی بات یہ ہے کہ جس قدر ہماری بیچارگی کی یہ حالت اسلام کی توہین کا سبب بنے گی، اسی قدر اللہ کے ہاں ہماری بھی رسوائی ہو گی۔ اس طرح یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کا بدلہ ہوں گی۔ اس لیے عمل کیجیے عمل، اور ہمارے لیے مناسب مرتبہ دوبارہ حاصل کرنے کے رستے پر کوشش کیجیے کوشش۔ اس مقصد کی خاطر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ بلندیوں اور چوٹیوں کی تلاش میں رہے اوراپنی ہمت اور ارادوں کو بلند کرے۔
ارادے کے سورما اور اسلام کی عزت
انسان کوئی درخت ہے اورنہ بے جان چیز، بلکہ وہ ایک جاندار ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ایسی قوت ارادی عطا فرمائی ہے کہ وہ اگرایک عام شرط کے طورپر اس ارادے کا حق ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اس قوت کو درست انداز سے استعمال میں لائے تو اللہ کے حکم سے پوری زمین میں ایک نئی روح پھونک سکتا ہے کیونکہ جب ارادوں کو تیز کیا جائے اور دوسروں کی مشعلیں روشن کی جائیں گی، تو اس سے ساری زمین اس طرح روشن ہوجائے گی کہ گویا وہ جشن کا میدان ہے۔ اگر چاہو تو اس رخ سے ’’عصر سعادت‘‘ کو دیکھ لو۔ کیا نبی کریمﷺ نے تیئس سال کے عرصے میں وہ ہدف حاصل نہیں کرلیا جو دوسرے لوگ کئی صدیوں میں بھی حاصل نہ کرسکتے تھے؟ کیا خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس زمانے کی دو بڑی طاقتوں کے ناخن ایک ایسے لشکر کے ذریعے نہیں کاٹ دیے جس کے افراد کی تعداد بیس ہزار سپاہیوں سے متجاوز نہ تھی؟ حالانکہ آپ اسی وقت مرتدین کے گروہوں سے بھی برسرپیکار تھے جن میں مسلیمہ کذاب کا گروہ بھی شامل تھا جس کی تعداد اس دہشت گرد تنظیم کے لوگوں سے کئی گنا زیادہ تھی جس پر ترکی حکومت کئی سالوں سے قابو نہیں پاسکی۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے ارادے کا حق ادا کیا اور اللہ کے فضل و کرم سے ان تمام مشکلات پر قابو پا لیا۔ یہ تاثیر اور چستی کی ایسی زندہ مثال ہے جس پر ہر مسلمان کو کاربند ہونا ضروری ہے۔
چستی اور نشاط کو برقرارکھنے کے اصول
چستی اور نشاط کو برار رکھنے کے اصولوں کا خلاصہ درج ذیل انداز میں بیان کیا جاسکتا ہے:
لوگوں میں چستی اور نشاط کو برقرار رکھنے کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ ان کی ایسے رستے کی طرف رہنمائی کی جائے جس پر سب چل سکتے ہوں اورایک میدان کو مقرر کردیا جائے جس کے خدوخال بالکل واضح ہوں کیونکہ انسان اگر انانیت سے نکل کر جماعت کے نام سے کام کرنے لگے تو بھی اسے اپنے کام کی حدود اوروہ نقطہ معلوم ہونا چاہیے جس تک اسے پہنچنا ہے۔ اسی طرح کسی انسان کی سعی اور کوشش پر اس کی دلجوئی اور احترام سے، اچھے کام کرنے کے لیے اس کے شوق اور عقع میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ موجود ہیں جو کامیابی کے مختلف درجات حاصل کرنے کے بعد انانیت کو اس میں ملا دیتے ہیں لیکن ایسی حالت میں مناسب اور نرم اسلوب سے ان اخلاص کی جانب ان کی رہنمائی کی جانی چاہیے۔
دوسری جانب جب آپ دوسروں کے احیاء کی کوشش اور ان کی مدد کرتے ہیں، اسی وقت آپ اپنے اندر بھی چستی اورنشاط کو برقرار رکھتے ہیں کیونکہ جو انسان دنیا کو زندہ کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ تصور نہیں ہوسکتا کہ وہ خود مردہ رہے کیونکہ یہ بات ممکن ہے کہ جس وقت آپ دوسروں کو پستی سے اٹھنے میں مدد کر تے ہیں، ان سے کام شروع کراتے ہیں اوران کو ’’میراتھن ریس‘‘ میں دوڑنے والوں کی طرح دوڑنے کا شوق دلاتے ہیں، آپ خود پیچھے رہیں۔ چستی اور نشاط کو برقرار رکھنے کے لیے وقت کی حقیقی قیمت کا ادراک بہت ضروری ہے جو ایک فرضی لکیر کی طرح ہے جبکہ (ایک طویل عرصے تک) ہم یہ نہ سمجھ سکے کہ وقت بذات خود ایک قیمتی شے ہے کیونکہ یہ وہ واحد خزانہ ہے کہ اگر اس کو اچھی طرح استعمال کیا جائے تو اس کے ذریعے جنت حاصل کی جاسکتی ہے ۔ جی ہاں، جب انسان وقت کو اچھی طرح استعمال کرتا ہے تو وہ ایک نہایت مختصر وقت میں ’’لازمانیت‘‘ تک پہنچ جاتا ہے اور ابدیت حاصل کرلیتا ہے کیونکہ وقت کی حقیقی قیمت پہچاننا اور اچھے عمل اور حرکت سے اس کے ہر لمحے کو زندہ کرنا’’خدمت ‘‘ کی چست زندگی کے لیے بہت بنیادی ’’جوہر ‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
(1) القلوب الضارعۃ: ایک کتاب ہے جس میں آنحضرت ﷺ ، دیگر انبیاء عظام، صحابہ کرام اور بڑے بڑے اولیاء اور صالحین کی دعاؤں کوجمع کیا گیا ہے۔ حضرت فتح اللہ گولن نے اس کام کی نگرانی فرمائی جبکہ اکثر دعائیں حضرت ضیاء الدین کومشخانوی کی کتاب ’’مجموعۃ الاحزاب‘‘ سے لے گئی ہیں۔ آپ خلافت عثماینہ کے دور کے ایک عالم تھے۔
(2) بدیع الزمان سعید نورسی، صیقل الاسلام، المناظرات، ص: 380-379
- Created on .