حقیقی دینداری اور درست شناخت
سوال: ایک مومن جوکسی ترش رویے یا غلط لفظ کا شکار ہوجائے ، تو اس کو کن باتوں کی رعایت رکھنی چاہیے تاکہ اس کی شناخت میں کوئی دراڑ یا رخنہ نہ پڑے؟
جواب: شناخت کا مطلب ہماری اصطلاح میں یہ ہے کہ آدمی احسان کے شعور کے ساتھ اسلامی اعمال اور عبادات تسلسل کے ساتھ انجام دیتا رہے یعنی ہم اللہ کی عبادت اس طرح کریں جیسے کہ ہم اسے دیکھ رہے ہیں اور اگر ہم اسے نہیں دیکھ رہے تو ، وہ تو ہمیں دیکھ رہا ہے ا ور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ شعور ہماری فطرت کا جزو لاینفک بن جائے۔ اس کو ہم ’’اسلامی شاخت‘‘ کا نام دے سکتے ہیں۔ گویا مومن کی شناخت کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے رب سے تعلق کو مضبوط کرے اور فخر انسانیت حضرت محمد مصطفیﷺ ک>ی اتنی توقیر اور احترم کرے جو آپ علیہ السلام کے مرتبے کے لائق ہے اور اپنے کاندھوں پر آنے والی انفرادی، خاندانی اور معاشرتی ذمہ داریوں کو مثالی انداز میں پورا کرے اور یہ کوشش کرے کہ اس کی ساری زندگی اس نہج پرآجائے۔ پس معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں ’’شناخت‘‘، ’’احسان‘‘ کی طرف نسبت کا نام ہے۔
نوافل کے ذریعے مشق
اس طرح کی شناخت کا حصول انسان کی جدوجہد اور مسلسل کوشش کا مرہون منت ہے مگر اس کو زندگی بھر برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہے اور یہ مومن سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے گھوڑے کی پشت سے کبھی نہ اترے بلکہ ہمیشہ اس طرح کی مشکلات کو تلاش کرے۔ دیکھیے نبی کریمﷺ فرما رہے ہیں کہ سورۃ ’’ہود‘‘ نے آپ علیہ السلام کو بوڑھا کردیا۔ آپ علیہ السلام کا فرمان ہے: ’’ شَيَّبَتْنِي هُودٌ وَأَخَوَاتُهَا ‘‘ (مجھے سورۃ ہود اور اس جیسی دوسری سورتوں نے بوڑھا کردیا۔) (1) اور ’’ہود‘‘ وہی سورت ہے جس میں ارشاد خداوندی ہے: ﴿فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ﴾ (هُود: 112) ) جیسا کہ تم کو حکم ہوتا ہے، اس پر قائم رہو)۔
اس لیے حقیقی مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ حتی الامکان آنحضرت ﷺ کی اس سوچ سے قربت کو اپنی زندگی کا اعلیٰ ہدف قرار دے دے جس میں آپ علیہ السلام نے ا پنی زندگی بسر فرمائی۔ سو اگر وہ اس مسئلے کو اپنی زندگی کا جزو لاینفک بنا کر عبادات کو بجا لانے کی مشق کرے، تو وہ اس بوجھ کا کچھ حصہ کم کرسکے گا جو اس کے ارادے پر بھاری ہے اور باقی احکام کو بھی زیادہ آسانی اور آرام سے بجا لاسکے گا۔
بے شک نوافل کے ذریعے یہ کام آسان ہوسکتا ہے ۔ مثال کے طورپر موسم گرما کے طویل دنوں میں مسلسل ایک ماہ کے روزے رکھنا نفس پر گراں گزر سکتا ہے۔ لیکن صاحب شریعت ﷺ نے (جیسا کہ آپ جانتے ہیں) ہمیں ہر ماہ تین روزے اور ہر ہفتے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھنے کا فرمایا ہے۔(2) اس لیے جو شخص معتدل ایام میں نفلی روزے رکھنے کا عادی ہوگا، اس کے لیے گرمیوں کے طویل دنوں میں بھوک اور پیاس کو برداشت کرنا آسان ہوجائے گااور اللہ کے حکم سے وہ روزے کا فریضہ ز یادہ سہولت کے ساتھ ادا کرسکے گا۔
یہی بات زکاۃ پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ اسلام نے مال کی اقسام کے مطابق (چالیسواں، بیسواں ، دسواں یا پانچواں حصہ) زکاۃ مقرر فرمائی ہے۔ پس اگر انسان کو نفلی صدقات (خواہ معمولی کیوں نہ ہوں) کی عادت نہ ہو تو اس پر اسلام کی جانب سے فرض زکاۃکی ادائیگی گراں گزرے گی لیکن اگر وہ (معمولی) صدقات کی عادت اور رفتہ رفتہ اس کو اپنے مزاج کا حصہ بنالے، تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق زکاۃ ادا کرنے میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
اسی طرح اگر آدمی اپنے لیے آسان اور مناسب ترین وقت میں نفل نمازپڑھے اور اسے اپنے مزاج کا حصہ بنالے تو اس کے لیے فجر اور دیگر اوقات کی فرض نمازیں بھی ادا کرنا آسان ہوجائے گا جو اس پر گراں گزرتے ہیں اور وہ ان رکاوٹوں سے گزرنے میں کامیاب ہوجائے گا جو اس کے نفس اور خواہشات نے کھڑی کی ہیں۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ جَعَلَ لِكُلِّ نَبِيٍّ شَهْوَةً، وَإِنَّ شَهْوَتِي فِي قِيَامِ هَذَا اللَّيْلِ ‘‘(3) (اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہے اور میری خواہش قیام اللیل ہے)۔
اس حدیث شریف میں آپ علیہ السلام اس عبادت پر روشنی ڈال رہے ہیں جو انسان کے مزاج کا حصہ بن گئی ہے اور کبھی بھی اس سے الگ نہیں ہوتی۔گویا آپ علیہ السلام یہ فرمارہے ہیں کہ ’’میں اپنے رب کی عبادت کرکے اسی طرح محظوظ ہوتا ہوں جس طرح تم میں سے کوئی اپنی خواہشات پوری کرکے۔‘‘
یوں ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اس سوچ تک پہنچنے کے لیے خوب محنت کرے لیکن یہ بات یاد رہے کہ ہر آدمی اس فلک بوس چوٹی تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے باوجود اس رستے پر چلنا اور اس ہدف کو اپنا مقصد بنانا بذات خود بہت بڑی فضیلت اورخوبی ہے کیونکہ اس رستے پر کی جانے والی ہر کوشش کو انسان کے لیے عبادت لکھا جاتا ہے اور وہ ایک درجہ اوپر چڑھ جاتا ہے۔
آپ اس سوچ کو ان منفی امور کے بارے میں بھی اسی طرح لے سکتے ہیں جن سے بچنا ضروری ہے۔مثلاً اگر انسان ایسے غلط کاموں سے دوچار ہوجائے جن کے ذریعے اس کا نفس اسے دھوکہ دیتا ہے اور اس کی خواہشات اسے آزمائش میں ڈالتی ہیں، تو اس وقت اس کے لیے اپنے ارادے کا حق ادا کرنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن اگر انسان نفس کے لیے زندگی میں ایک رستہ مقرر کردے اور چھوٹے بڑے مختلف قسم کے حرام کاموں کا دروازہ بند کر دے اور اس بات کو اپنے مزاج اور فطرت کا حصہ بنا لے، تو ان شاء اللہ حق تعالیٰ جو ہمیشہ اپنے بندوں پر رحم و کرم فرمات ہے ، اسے اپنے اوپر آنے والی ہر مشکل پر قابو پانے کی ہمت دے دے گاحتی کہ اگر وہ عقلوں کو مسحور، آنکھوں کو خیرہ کرنے والے منکرات سے دوبدو ہوجائے تو بھی اسے اس طرح ان سے نکال لے گا کہ وہ ان آلودگیوں میں گھرے ہونے کے باوجود ان سے آلودہ نہیں ہوگا۔
افعال اور صفات میں استقامت
ہم نے جو کچھ بیان کیا، وہ مسلمان کے دوسروں سے تعلقات پر بھی صادق آتا ہے۔ جی ہاں،مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خالق اور مخلوص دونوں سے اپنے معاملات اور تعلقات کے بارے میں دینی احکام کا خیال رکھے اور اس امر کو اپنے مزاج کا حصہ بنا لے۔ مزید تفصیل کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگرانسان اخلاق حمیدہ (جیسے لوگوں کو ان کی نسبتوں کو بھلا کر گلے لگانا، ان کے ساتھ بشاشت کا اظہار، ان کا اکرام و احسان اور ان میں سے پریشان حال لوگوں سے ہمدردی) کو اپنی طبیعت کا حصہ نہیں بنائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ جب کسی غیر متوقع برے برتاؤ کا شکار ہو تو غیر ارادی طورپر سختی اورترشی سے پیش آئے گا اور اپنی توہین کا جواب دیتے ہوئے ایمانی اسلوب پر کاربند رہنے میں مشکل محسوس کرے گا اور ممکن ہے کہ غلطی اور لغزش کا شکارہوجائے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس طرح کی توہین کا جواب اس اسلوب سے دینے کی عادت نہیں بنائی ہوگی ۔ رویے اور برتاؤ میں اس طرح کی غلطیاں، اس شخص پر لوگوں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے اگر ہم اپنے آپ کو ارد گرد کے لوگوں کا اعتمادکا محل بنانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں عبادات کی ادائیگی، برائیوں سے بچنے او ر حسن معالمہ کوا پنے مزاج کا حصہ بنانا ہوگا۔
ان ساری باتوں کے باوجود بعض اوقات انسان کی شناخت میں کسی واقعے کے رونما ہونے یا اس کی شدت کی وجہ سے دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔ یہ ٹوٹ پھوٹ کبھی انسان کی غیرت اور کبھی ان غلط الزامات اور توہین سے پیدا ہوسکتی ہے جو اس آدمی کو بعض لوگوں کی طرف سے پیش آتی ہے اور انصاف کا تقاضا کرتی ہے۔ کبھی اس کا منبع اس آدمی کی حساسیت اور خواہش بھی ہوسکتی ہے ۔ چنانچہ اس بارے میں مومن کے مزاج میں خود بخود کدورت پیدا ہوجاتی ہے ۔ کبھی بہت سے جھگڑے اور خواہشات ہوسکتی ہیں جن کی وجہ سے دل ٹوٹتے اور سینوں میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری جانب سے کسی بھی ایسے رد عمل کا اظہار جوہمارے مزاج کے مطابق نہ ہو، ہم پر لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے گا۔ اس لیے حقیقی مومن پر لازم ہے کہ وہ کسی بھی ظلم اور توہین کی وجہ سے ا پنی شناخت سے پیچھے نہ ہٹے اور اگرجواب دینا ضروری ہو جائے تو بھی ایسے انداز سے دے جو ایک مسلمان کے رویے سے مطابقت رکھتا ہو اور ادب اور اخلاق کا نمونہ ہو۔
صبر کے ابطال اور شناخت والے
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت: ﴿وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ﴾ (النحل:126) (اور اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو ، تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے)کے مطابق مومنوں کو اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا جواب بالمثل دینے کی اجازت دی گئی ہے اور اس بارے میں اس کو اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ ، اعلیٰ شناخت والوں کو آیت کے آخر میں ان الفاظ سے مخاطب فرما رہے ہیں: ﴿وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ﴾ (النحل: 126) (اور اگر صبر کرو، تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہت اچھا ہے)۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ا پنی زندگی میں (خواہ ایک مرتبہ کیوں نہ ہو) اپنی شناخت کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اوپر اپنے مخاطبین کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیتاہے، کبھی اس سے مستقبل کی غلطیوں کے لیے دروازے کھول دیتا ہے اور جو شخص اس قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے وہ خودبخود غلطی اور بلا ارادہ لغزش کا نشانہ بن جاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اس شناخت کی حفاظت اور اس کو بچا کر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ حالات اور واقعات کیسے ہی کیوں نہ ہو، اس میں ٹوٹ پھوٹ کی اجازت نہ دیں۔
پس قرآن اور ایمان کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں اور اس خدمت کے ساتھ دل سے جڑنے والوں پر لازم ہے کہ وہ ہر جگہ محبت اور درگزر کے اصول کا خیال رکھیں اور اپنے رستے ا ور طریقے کو ادنیٰ سے ادنیٰ اور حقیر ترین زیادتی کے مقابلے میں بھی تبدیل نہ کریں۔ ’’یونس امرہ‘‘ اس جانب یوں اشارہ کرتے ہیں: ’’مارنے والے کامقابلہ درگزر اور گالی دینے والے کا مقابلہ معافی سے کروکیونکہ زاہد کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے!۔‘‘ آ پ بھی ان الفاظ کو استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس کے آخری حصے کو یوں تبدیل کرلیں: ’’قرآن کے طالب کو تنگ دل نہیں ہونا چاہیے!‘‘ جی ہاں، ان کو کوئی دل نہیں توڑنا چاہیے خواہ ان کے دل توڑ دیے جائیں، ان کی جانب سے کسی کو دکھ نہ پہنچے خواہ وہ دکھوں کا شکارہوں کیونکہ نیتجے کے اعتبار سے دکھ سہنے اور تکلیف برداشت کرنے والا دل ہوتا ہے۔ اور دل (حقیقت میں نہ بھی ہو تو ) اپنے اندر پوشیدہ مفاہیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔ بالفاظ دیگر: دل ایسا بیج اور گٹھلی ہے جس سے درخت اگتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی یہ اعلیٰ قیمت (جو بعض لوگوں کے لیے بیج کی حیثیت رکھتی ہے) اس وقت تک ظاہر نہیں ہوسکتی جب تک اسے زرخیز زمین میں بویا نہ جائے، جب تک اسے مناسب ماحول میسر نہ آئے اور جب تک وہ سورج کی کرنوں سے جڑ نہ جائے۔ اس لیے آپ کو اس عظیم مخلوق کے بارے میں کسی بھی نامناسب رویے سے بچنا چاہیے جو رحمن کے عرش کا چھوٹا سانمونہ ہے۔
اس نقطے کے بارے میں ذہن میں فوراًیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ ٹھیک ہے، کیا پھر مومن شرور اور برائیوں کے سامنے خاموش رہے اور ان کا مقابلہ کس طرح کرے؟‘‘ پہلی بات یہ ہے کہ : مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ بات جانے کہ وہ غلط رویوں، برتاؤ اور تصرفات کا شکار ہوا ہے، یہ غلطیاں کرنے والوں کا نہیں، اس لیے اس کو جہالت ، الحاد اورنفاق اور حد سے تجاوز کا مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ اس طرح وہ اس چیز کو دور کردے جو انسان کی روحانی قیمت یعنی اس کی صفات اور خواص کو ختم کردیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ منفی صفات والے لوگوں کے مقابلے میں آدمی کو اسی طرح کا قلق اور اضطراب اوران سے بچنے کی شدید خواہش ہونی چاہیے جس طرح اس کو یہ اضطراب اپنے ان بچوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو گرنے والے گڑھے کی جانب بڑھ رہے ہیں یا ان لوگوں کے بارے میں جو جہنم میں گررہے ہیں۔ اسے ان پر غم اوران کے بارے میں اندیشے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا چاہیے اوراس کو بغیر کسی تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے اپنی نصیحتوں اور اچھے مشوروں کے ذریعے ان کی سیدھے رستے کی طرف رہنمائی کی کوشش کرنی چاہیے۔ نبی کریم ﷺ ہمارے سامنے اس بات کی ایک نہایت خوبصورت تمثیلی تصوریر پیش فرما رہے ہیں: ’’ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَ الْجَنَادِبُ وَالْفَرَاشُ يَقَعْنَ فِيهَا، وَهُوَ يَذُبُّهُنَّ عَنْهَا، وَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ، وَأَنْتُمْ تَفَلَّتُونَ مِنْ يَدِي ‘‘ (4) (میری اور تمہاری مثال ایک ایسے شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی تو بھنورے اور پتنگے اس میں گرنے لگے تو وہ ان کو اس سے دور کرنے لگا۔ میں بھی تمہاری کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے دور کررہا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹے جارہے ہو)۔
جی ہاں، حقیقی مومن رحمت اور شفقت کی علامت ہوتا ہے اور یہی سوال آپ کے سامنے بھی ہے۔ تو کیا (روئے زمین پر رحمت اور شفقت کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ) جب آپ کسی انسان کو دیکھیں جو جہنم کی جانب بڑھ رہا ہے تو یہ کہیں گے کہ : ’’جاؤ جہنم میں! جب تم ادھر جانا ہی چاہتے ہو تو پھر جلدی کرو؟‘‘ یا آپ اس کو اس غلط رستے سے روکنے کی کوشش کریں گے اور وہ رویہ اختیار کریں گے جو آپ علیہ السلام نے اپنایا اور اسے اس ماحول سے نجات دلانے کی کوشش کریں گے؟ پہلا انتخاب اس شخص کا ہے جس کا ضمیر سیاہ اور وجدان اندھیرا ہے جبکہ دوسرا انتخاب سچے مومن کی صفت ہے ۔ اس لیے بری صفات کا مقابلہ جس طرح نہایت اہم اور انسانیت کے لیے انتہائی نفع بخش ہے، اسی طرح یہ بات اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تلاش کرنے والوں کے لیے بھی نہایت اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان لوگوں میں شامل فرمائے جو حقیقی طورپر دین پر عمل کرتے ہیں، جنہوں نے اسلام کو اخلاص کے ساتھ اپنے دلوں میں اتارا ہے ، جنہوں نے اسے اپنی عادت بنا لیا ہے اور اسی سے اپنی شناخت بنائی ہے کہ انتہائی منفی اور برے واقعات کا مقابلہ بھی اسی سے کرتے ہیں۔
(1) ۔ سنن الترمذی ، تفسیر القرآن : 56، مصنف عبدالرزاق:386\3
(2) ۔صحیح البخاری، الصوم: 56، احادیث الانبیاء:37، صحیح مسلم، الصیام:181
(3) ۔ المعجم الکبیر:84/12
(4) ۔ صحیح البخاری، الانبیاء: 40، صحیح مسلم، الفضائل:19,17
- Created on .