منافقت کی حاسدانہ چالوں کے بارے میں ایمانی موقف

منافقت کی حاسدانہ چالوں کے بارے میں ایمانی موقف

سوال: ایمان والے دلوں کو اپنے ارد گرد ہونے والے منفی اور غلط واقعات کے بارے میں کیا موقف اپنانا ضروری ہے؟

جواب: سرراہے یہ بات ہمیں جان لینی چاہیے کہ یہ منفی اور برے واقعات پہلی بار وقوع پذیر نہیں ہورہے کیونکہ قرآن کریم اس حقیقت کوکئی بار زندہ تصویروں کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ مثلاً کبھی وہ مختلف اسالیب اور صورتوں میں سابقہ انبیاء کے واقعات بیان کرتا ہے، کبھی وہ ایسے واقعات بیان کرتا ہے کہ ان میں سے ایک بھی دلوں میں حیرت اور تعجب پیدا کرنے کے لیے کافی ہوجائے۔ اس طرح یہ واقعات نبی کریم ﷺکے دل کو تسلی دیتے تھے اور تاریخ کے بار بار دہرائے جانے کی جانب توجہ مبذول کراتے تھے۔اگر ہم ان سارے تاریخی واقعات کو تلاش کریں تو ہمارے سامنے ایک ایسی لطیف تصویر آئے گی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کا شیرازہ بکھرتا تھا تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت اور اصلاح کے لیے انبیائے کرام کو مبعوث فرماتاتھا جبکہ خاتم الانبیاء ﷺ کے بعد تجدید اور معاشرے میں پیدا ہونے والی تباہی کی اصلاح کا کام مجددین کرتے آرہے ہیں۔

ظالم کے دل میں انجام کا خیال نہیں آیا لیکن ۰۰۰۰۰

تاریخ کے کسی بھی دور میں معاشرے میں اس قدر برائیاں نہیں پھیلیں جتنی زمانہ جاہلیت میں ۔ اس بارے میں شاعر اسلام محمد عاکف کہتے ہیں:

’’انسان درندگی اور وحشت میں گوہ سے بھی آگے نکل گئے ہیں

کمزور اور حلیم انسان کو اس کے بھائی بند دھوکے اور جلدی سے کھارہے ہیں

پوری زمین کے گوشے گوشے میں انارکی پھیلی ہوئی تھی

مشرق میں آج پھیلی ہوئی تفرقہ بازی اس زمانے کی وبا اور بیماری تھی‘‘

اس زمانے کی یہ دردناک تصویر پیش کرنے کے بعد شاعر کہتا ہے:

’’اس کے بعد ظالموں اور جابروں کا ظلم ختم ہوگیا اور اس کی جگہ پاکیزگی نے لے لی

اور وہ عاجزی مسرور ہوگئی جس کے خیال میں صرف پسنا اور ظلم برداشت کرنا ہی اس کا حق تھ

ظلم کے بادل چھٹ گئے اور ظلم ختم ہوگیا

حالانکہ اس کے دل میں کبھی ختم ہونے یا گرنے کا خیال بھی نہیں آیا تھا‘‘

یہاں شاعر اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی جانب اشارہ کرتا ہے جو معاشرتی زندگی میں جاری رہتی ہے ۔ جی ہاں، ہوسکتا ہے کہ عاجزی کے دل میں آج یا کل احیاء کا خیال نہ آئے اور ظلم کے دل میں ختم اور زائل ہوانے کا خیال نہ آئے لیکن یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تاریخ میں باربار پیش آچکی ہے جبکہ کسی واقعے کا پیش آجانا ، اس کے دوبارہ پیش آنے کی دلیل ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے ، اس کی کتابوں کا شکم چاک کرنے اور ماضی اور حال کو آپس میں جوڑنے سے جو سب سے بڑی بات ہمیں معلوم ہوتی ہے ، وہ اس حقیقت کا ادراک ہے کیونکہ تباہی اور ا صلاح کے عمل کا آج تک تسلسل کے ساتھ جاری رہنا اوررات دن کا بغیر کسی و قفے کے ایک دوسرے کے بعد پے درپے آنا، اس بات کی سب سے روشن دلیل ہے کہ حقیقی تباہی کے بعد اصلاح کا دور آتا ہے اوردن سچ مچ رات کے پیٹ سے جنم لیتا ہے ۔

میں اپنی پوری زندگی تنگی اور تکلیف کا شکار رہا مگر کبھی مایوس نہیں ہوا!

مزید وضاحت کے لیے کہتاہوں کہ بہت سی دفعہ انسان رستے سے بھٹک جاتے ہیں، ان میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اس تسبیح کے دانوں کی طرح دائیں بائیں بکھر جاتے ہیں، جس کی لڑی ٹوٹ گئی ہو اور منفی تبدیلیوں کے بعد مزید تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور معاشرے کی شکل بری طرح بگڑ جاتی ہے لیکن ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دلوں میں معرفت اور نور کی آگ کو اس طرح دوبارہ روشن کرسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو جگانے اور ان کی شیرازہ بندی کا سبب بن سکتی ہے۔

میں ذاتی طورپر اس بات کا دعوی نہیں کرتا کہ میرا ایمان قوی ہے لیکن اس کے باوجود میں بیس سال کی عمر سے تنگی اور ظلم کا شکار رہا ہوں مگر کبھی بھی مایوس نہیں ہوا۔ ان سب معاملات کی وجہ سے میرے اوپر کوئی اثر ہوا ، میرا بازو کمزور ہوا اور نہ میرے دل میں (ایک لمحے کے لیے بھی ) یہ خیال آیا کہ میں اس رستے سے ہٹ جاؤں جس پر چل رہا ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی توہین اور دھمکیوں کی کوئی پروا نہیں کی۔چنانچہ جب بھی مجھے مسجد میں چند لوگ مل جاتے میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتا اور درس و تدریس کا سلسلہ ہوجاتا۔ یہ ظلم جاری رہا لیکن مجھے کبھی بھی مایوسی نہیں ہوئی کیونکہ میرے ذہن میں ہمیشہ یہ سوچ چھائی رہتی تھی:

’’عنقریب وہ دن روشن ہوجائیں گے جن کا رب العالمین نے آپ نے وعدہ کیا ہے

کون جانتا ہے ، ہوسکتا ہے کل، یا اس سے پہلے، اس لیے یقین رکھنے والوں میں شامل ہوجا۔‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ ارشاد خداوندی ہے :

﴿وَلاَ تَيْئَسُوا مِنْ رَوْحِ اللهِ إِنَّهُ لَا يَيْئَسُ مِنْ رَوْحِ اللهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ﴾

(یوسف:87) (اور اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا کہ اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی نا امید ہوا کرتے ہیں) میرا خیال ہے کہ میں ان الفاظ کے ذریعے قربانی کے لیے تیار روحوں کے جذبات کا اظہار کررہا ہوں کیونکہ ان میں سے کسی کو بھی جب کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ شاعر نسیمی کے الفاظ میں یوں کہتا ہے:

’’اے میرے حبیب اور محبوب میں تیرا عاشق زار ہوں

اگر تو میرے دل کو خنجر سے چیر ڈالے تو بھی میں تیری محبت سے پیچھے نہیں ہٹ سکت

اگر ترکھان دھمکی دیتے ہوئے آری میرے سر پر رکھ دے (تو بھی)

بلکہ اگر حضرت زکریا کی طرح مجھے بھی دوبارہ دو حصوں میں چیردیں

اگر میرے جسم کو جلا دیں اور اس کی راکھ اڑا دیں

تو اے میرے رب ، اے ستار، میں تجھ سے کبھی نہ ہٹوں گا ، اے میری مراد۔‘‘

اس کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے اہم بات اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اور رضا کا ذریعہ خدمت کے قافلے میں چلنا۔ اس لیے اس قافلے کے اپنے سفر کو جاری رکھنے کے مقابلے میں ہمارے اوپر آنے والے ایسے واقعات کی کوئی قیمت نہیں جن سے دل جل اٹھتا ہے کیونکہ یہ خدمات ہم میں سے کسی ایک شخص کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہیں۔

جرأت اورثابت قدمی بدنیتوں کا کھیل خراب کردیتی ہے

ہم جتنا بھی امید شکن اور ہمتوں کوپست کرنے اوردلوں کو مکدرکرنے والے واقعات کا شکار ہوجائیں، ہم پر لازم ہے کہ ہم ڈریں اور نہ مایوسی کے اس دلدل میں پھنس جائیں جوکمال کے ہر رستے میں حائل ہوتا ہے بلکہ ہمارے لئے بغیر کسی چیلنج اور عناد کے ثابت قدم رہنا ضروری ہے کیونکہ ایمان والے دلوں کی جرأت اور ثابت قدمی بدنیتوں کی آوازوں کو دبا دیتی ہے کیونکہ ہماری جانب سے اس موت کا استقبال جس سے وہ ہمیں دھمکاتے ہیں اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ : ’’سرآنکھوں پر ، میں تو ہمیشہ سے جام شہادت نوش کرنے اور اپنے رب سے ملاقات کی تمنا رکھتا تھا‘‘اس بات سے ان کے دل میں حیرت اور تعجب پیدا ہوتا ہے اور وہ انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ جی ہاں، مومنوں کی ثابت قدمی اور اپنے موقف پر ڈٹ جانا، ان کے اپنے رب پر بھروسے اور اعتماد کی دلیل اور مدمقابل کے منصوبوں کو برباد کرنے اور خاک میں ملانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے جو اسے خوف اور دہشت میں مبتلا کرتا ہے۔

صبر اور نصر

صبر نجات تک پہنچنے کی واحد جادوئی اور خفیہ کلید ہے۔ پھر جس طرح صبر جنتوں کی خوشیوں تک رسائی اور اللہ کے جمال کے مشاہدے تک پہنچنے اور خلود اور رضا حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے، اسی طرح اس کا دنیوی فائدہ بھی ہے اور وہ ہے مشکلات سے نجات اور کامیابیوں کا حصول۔ صبر کی فہرست میں عبادت اور اطاعت کی پابندی، گناہوں کا مقابلہ، مصائب کو برداشت کرنا، ظلم و عدوان کی مخالفت اور وقت کے ساتھ جڑے کاموں میں جلدبازی نہ کرنا ، دنیا کے فتنوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا اور اللہ تعالیٰ کے جمال کے مشاہدے کے اشتیاق پر خدمت کی مشکلات کو ترجیح دینا شامل ہے۔

ان امور کو ہم صبر کی ا قسام کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے اگر ہم ان میں سے کسی میں بھی غفلت نہ کریں تو ہم اس خفیہ کلید سے ہزاروں دروازے کھول سکتے ہیں لیکن اگر انسان صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے اور جلدی بازی پر اتر آئے تو گرنا اس کا یقینی مقدر ہے کیونکہ :

جلدباز اپنی عباء سے اٹک کر گر پڑتا ہے

اور صبر کرنے والوں اپنی بردباری سے اپنی منزل پالیتا ہے

جی ہاں، جو شخص جلدی قدم اٹھانا چاہتاہے تو اس کی عباء کا کنارہ اس کے پاؤں میں اٹک جاتا ہے اور وہ گر پڑتا ہے جبکہ احتیاط سے ، سوچ سمجھ کر چلنے والا اپنی مراد اور مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لیے مومن کو چاہیے کہ وہ پہلے سے تیار کردہ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق قدم اٹھائے مگر ساتھ ہی اس پر لازم ہے کہ وہ صبر، منصوبہ بندی اور سوچی سمجھی چال اور سستی اور کاہلی میں فرق بھی ملحوظ خاطر رکھے بلکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ چست ہو اور اپنے ہدف کی جانب آگے بڑھے اور یہ سفر کرتے ہوئے اسے تدبر، تفکر، تأمل اور احتیاط کا خیال رکھنا چاہیے۔ اسے چاہیے کہ وہ اس بات کے اول اور آخر پر غور کرے ۔ حسد اور غیرت کے جذبات رکھنے والوں کا بھی خیال رکھے اور بدنیت لوگوں کے دل میں موجود حسد، بغض اورکینہ کے جذبات سے بھی صرف نظر نہ کرے۔

گردوغبار سے سورج کی روشنی نہیں چھپ سکتی

اسی طرح آپ کو چاہیے کہ ان ساز شوں، جھوٹ اور غلط سلط باتوں کی پروا نہ کریں جو بعض ظالم لوگ کررہے ہیں کیونکہ ضرب المثل ہے کہ :’’بادل کو کتوں کے بھونکنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جب تم درست سمت اور صحیح رستے پر چل رہے ہو تو پھر ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی جو بعض ایسی گندی زبانیں تمہارے بارے میں گھڑتی ہیں جن کا مزاج فتنہ فساد برپا کرناہے۔ یہاں نصیحت کے لیے یہ قطعہ ذکر کرنا خالی زاد فائدہ نہ ہوگا:

آسمان کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ

کسی دن سارے کتے بھونکنے لگ جائیں ،خدا کی قسم

اگر ہربھونکنے والے کتے کے منہ میں تم پتھر دینے لگو

تو ایک مثقال پتھر،ایک دینار کا ہوجائے گ

اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بھونکنے والے کو بھونکنے دیں۔ ہمیں ان لوگوں کی بالکل پروا نہیں کرنی چاہیے جو ہمارے اوپر کیچڑ اچھالتے ہیں۔اگرچہ اس طرح کے اقوال اور عبارتیں ہمارے مزاج اور خاص اسلوب کے مطابق نہیں تاہم ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ خود قرآن کریم نے بعض حقائق کو بیان کرنے کے لیے گدھے اور کتے کی مثال دی ہے(1) اور جب ہم قرآن کریم کے پاکیزہ اور صاف ستھرے اسلوب کو اپنا نصب العین بنائیں گے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حقیقت کا احترام کرنے کے لیے اس مسئلے اور قضئے کو اسی شکل میں بیان کرنا چاہیے۔

جی ہاں، اگر آپ اپنی امت کی روح، اس کی عقل اور دل کے ساتھ گھل مل جانا چاہتے ہیں، دوسری قوموں کی سربراہی اور اثر ورسوخ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور بین الاقوامی سطح کے توازن میں وہی اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، تو پھر آپ پر لازم ہے کہ ادھر ادھر سے آنے والے ان غلط اور گندے الفاظ اور افعال پر کان نہ دھریں۔ جب آپ کو اس رستے کےصحیح اور درست ہونے کا یقین ہے جس پر آپ چل رہے ہیں اور جب آپ حق تعالیٰ کی خوشنودی کے علاوہ کسی اور ہدف کے پیچھے نہیں بھاگ رہے، تو پھر آپ کو اپنے خلاف ہونے والے دشمنانہ امور کی کوئی پروا نہیں ہونی چاہیے، آپ کو ان پر زیادہ غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کا بالکل خیال نہیں رکھنا چاہیے۔

گمراہی میں چلنے والے لوگوں کو انجام بد سے موڑنا چاہیے

اگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے معاملات کے بارے میں حیران و سرگرداں، پریشاان اور خوفزدہ ہیں اور اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کو کیا کرنا چاہیے تو یہ لوگ غلط رستے پر ہیں کیونکہ وہ اپنے سفر میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے نہیں بچ سکتے حالانکہ تخریب، تعمیر سے آسان تر ہے ۔ اس لیے جس شخص کا یہ حال ہو ، وہ ایک انگلی کے بقدر بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگرچہ اس قسم کے لوگ خوف، تسلط اور بداخلاقی ، اعلیٰ اقدار کی تبا ہی جیسے ہر طرح کے تخریبی عوامل اور طریقوں کو بروئے کار لاتے ہیں لیکن یہ کہنا ناممکن ہے کہ وہ آج تک ایک بھی قدم آگے بڑھے ہوں خواہ معمولی ہی کیوں نہ ہو۔

جی ہاں، ان لاعلاج دردوں اور ویرانیوں کی وجہ سے انسان کی روح میں نا امیدی نہیں پیدا ہونی چاہیے، اس سے خوف نہیں پیدا ہونا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تباہی اور تخریب کاری سے آنکھیں بند کرلیں بلکہ اس کے برعکس ا س خوفناک تخریب کو دیکھنا چاہیے کیونکہ اس کا مشاہدہ انسان کو اس کی ذمہ داری اور مسؤلیت کی یاد دلاتا ہے۔اس طریقے سے مثالی فکر اور اعلیٰ اور تیز احساس اور شعور کا مالک انسان ا ن امور کے بارے میں غور و فکر کرے گا جو اس منظر کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سچے بندوں سے مطلوب ہے اور ان امور پر توجہ مرکوز کردے گا جن کو ادا کرنا ضروری ہے اور یوں کہے گا کہ: ’’اگر کسی نبی کو اس منظر کا سامنا ہوتا تو وہ کیا کرتا اور ان کا مقابلہ کس طرح کرتا؟‘‘

لیکن منظر پردے میں ہے اور واقعات تمام تفصیلات کے ساتھ معلوم نہیں ہوسکتے اور بعینہ وہ بات معلوم نہیں ہوسکتی جو کرنا لازمی ہے، تو اس کی وجہ سے ہوسکتا ہے( اللہ تعالی ہمیں محفوظ فرمائے)کچھ لوگ ان مصائب اور آزمائشوں کے باوجود آرام پسند ہوجائیں اور یہ سوچنے لگ جائیں کہ ان کے لیے معاشرے کو درپیش تبدیلیوں اور اس میں وقوع پذیر ہونے والی تخریب کاریوں اور بری طرح تباہ ہونے والے گھروں اور اداروں کی بجائے، اپنے ذاتی اور نجی امور کی مشغولیت ہی کافی ہے کیونکہ یہ بات بھی ایک طرح کی انانیت ، حسی کند ذہنی اور لاپرواہی ہے۔ اس لیے اس مقولے ’’جہاں کہیں بھی آگ گرے گی تو سب سے پہلے مجھے جلائے گی ‘‘ کے مصداق ، ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر توکل ، امید اور برے تصرفات اور اقوال سے چشم پوشی کو عاجزی کے مخالف نہ سمجھیں۔ اسی وجہ سے منظر کو ایک طرف اس کے عمومی خطوط کے ساتھ دیکھنا اوراس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے تو دوسری طرف قوی ایمان، راسخ یقین اور بڑی امید کے ساتھ اس تخریب کاری کی اصلاح کی زبردست کوشش ، ا ن قواعد اور مضبوط اصولوں کے مطابق ہونی چاہیے جو ہمیں اپنے ماضی سے ورثے میں ملے ہیں۔

1۔ ملاحظہ فرمائیے: سورۃ الاعراف:176، الجمعۃ:5

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔