دنیامیں رضا اورآخرت میں رضوان
سوال: کیا رضا اور رضوان میں کوئی فرق ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کے رضوان تک پہنچنے کا سب سے اہم ذریعہ کیا ہے؟
جواب: رضا ، اللہ تعالیٰ اور بندے دونوں کی جانب سے ہوتی ہے اور رضا اور رضوان کا معنی ایک ہی ہے البتہ رضوان میں رضا کی کثرت ہوتی ہے جبکہ سب سے بڑی رضا، اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں لفظ رضوان، اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ مخصوص ہے۔(1)
بندے کے راضی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حق تعالیٰ سے راضی ہو اور دین مبین اسلام سے راضی ہو جو اس کے رب نے بنایا ہے اور اللہ کے اس رسول سے ر اضی ہو جس نے یہ دین مبین ہم تک پہنچایا اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر دل سے یقین رکھے اور اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور مصیبتوں کو سکون اور اطمینان سے قبول کرے۔ نبی کریم ﷺ رضا کے اس مرتبے کی جانب اس ارشاد میں اشارہ فرما رہے ہیں: ’’
ذَاقَ طَعْمَ الْإِيمَانِ مَنْ رَضِيَ بِاللهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا
‘‘ (وہ شخص ایمان کا ذائقہ چکھ لے گا جو اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد کے رسول ہونے پر راضی ہوگا۔)(2)
اس مبارک بیان کے ذریعے آنحضرت ﷺ ایک طرف اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان تعلق کی حقیقت کو واضح کررہے ہیں اور دوسری طرف وہ ہدف مقررفرما رہے ہیں جس کی طرف ہمیں بڑھنا چاہیے۔ قرآن کریم کی کئی آیات میں حق تعالیٰ شانہ کا یہ ارشاد مذکور ہے:
﴿رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ﴾
(المائدہ:119) (اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں) اس میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ رضا کا مرتبہ وہ سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے جہاں تک مومن کو پہنچنا چاہیے۔
پس جو شخص رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے، اسے اپنا نصب العین اور سب سے بڑی امیدبنائے اور اس کی خاطر پیہم کوشش کرے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی سے راضی نہ ہو تو اس کو رضا کے احساس سے محروم کردیتا ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے اوراس کی قضا و قدر سے راضی نہ ہو اور اپنے اوپر آنے والی آزمائش اور مصیبت کا تسلیم و رضا سے استقبال نہ کرے، تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی نہیں۔
رضوان: ابدی سعادت کی بشارت
آخرت میں رضوان وہ جزاء ہے جو بندے کو دنیا میں اپنے رب کی رضا کی تلاش میں کی جانے والی کوشش پر ملتی ہے جبکہ یہ بات آپ کی نظر میں رہنی چاہیے کہ انسان دنیا میں جو بھی عبادت کرتا ہے وہ آخرت میں اس کے سامنے جنت کی نعمتوں میں سے کسی نعمت کی شکل میں آتی ہے ، جیسے کہ حضرت بدیع الزمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’بندہ مومن دنیا میں ’’الحمد للہ ‘‘کا جو لفظ کہتا ہے، قیامت کے روز وہ ایک مجسم پھل بن جائے گا۔‘‘(3)
جی ہاں، جو روزہ دار دنیا میں بھوک پیاس برداشت کرے گا، وہ قیامت ے دن ’’باب الریان‘‘ سے جنت میں داخل ہونے کا شرف پائے گا۔(4)مطلب یہ ہے کہ وہ ایک ایسے چشمے تک پہنچ جائے گا جہاں سے پانی پینے کے بعد وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ قصہ مختصر یہ کہ دنیا میں انسان کا ایمان اور اس کے اعمال، آخرت میں مختلف شکلیں اختیار کرلیں گے کیونکہ کبھی تو وہ ایسی محسوس نعمتوں کی شکل میں سامنے آئیں گے کہ ان کو آنکھ سے دیکھ کر اور ہاتھ سے چھو سکے گا اور کبھی شرح صدر کی صورت میں اور کبھی ایسی موجوں کی صورت میں جن میں رضا کی خوشبو شامل ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ رضوان، فضل و احسان کا وہ بحربے کراں ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں جو اللہ کے فضل سے اس کے بندوں کے پاس آخرت میں ایک محسوس جسم کی صورت میں آئے گا۔ بالفاظ دیگر رضوان ایک ایسی نعمت ہے جو تمام تصورات سے بالاتر ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دار سعادت ابدیہ میں عطا فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس سے ان کی روحوں کو سیراب کرے گا جس سے وہ ایک ایسی روحانی لذت محسوس کریں گے جو ان کو جنت کی نعمتیں بھی بھلا دے گی۔
کونسی چیز کی فضیلت زیادہ ہے: رضوان یا اللہ تعالیٰ رویت کی؟
اس بارے میں ذہن میں ایک مسئلہ آسکتا ہے کہ کونسی چیز کی فضیلت زیادہ ہے رضوان یا اللہ تعالیٰ کی رویت کی؟ اس بارے میں قرآن کریم اور سنت صحیحہ کا علم رکھنے والے علماء اصول الدین کی آراء سے ہم یہ بات مستنبط کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ جنت کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ حضرت علامہ سراج الدین اوشی رحمہ اللہ نے ’’بدء الامالی‘‘ میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے اور اس بارے میں اہل سنت کے عقیدے کی وضاحت یوں کی ہے:
مومن اس (اللہ )کو بغیر کیفیت
بغیر ادراک اور بغیر مثال کے دیکھیں گے
جب اسے دیکھیں گے تو ساری نعمتیں بھول جائیں گے
افسوس ہے معتزلیوں کے نقصان پر(5)
حضرت نورسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دنیا میں عیش و عشرت کی زندگی کے ہزار سال جنت کی زندگی کی ایک گھڑی کے برابر نہیں ہوسکتے! اورجنت کی پوری نعمتوں کے ہمراہ ایک ہزار ایک سال کی زندگی حق تعالیٰ کے جمال کے مشاہدے کی ایک گھڑی کے برابر نہیں ہوسکتی۔‘‘(6)
جی ہاں، اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ اس کا بہت بڑا فضل ہے جو جنت کی نعمتوں سے بڑھ کر ہے ۔ اس کے باوجود نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اہل جنت کو مخاطب فرمائیں گے: اے اہل جنت!
تو وہ کہیں گے: اے ہمارے رب ہم حاضر ہیں، بھلائی تیرے ہی ہاتھوں میں ہے !
اللہ تعالیٰ سوال کریں گے کیا تم راضی ہوگئے؟
تو وہ جواب دیں گے: اے ہمارے رب ہم کیوں راضی نہ ہوں جبکہ آپ نے وہ کچھ عنایت فرمایا ہے جو اپنے بندوں میں سے کس کو نہیں دیا۔
تو اللہ تعالیٰ سوال کریں گے: کیا اس سے بھی اچھی چیز نہ دوں؟
اس پر وہ سوال کریں گے: اے ہمارے رب اس سے اچھی کونسی چیز ہے؟
تو اللہ تعالیٰ جواب دیں گے : میں تم اپنی رضوان اتاروں گا اوراس کے بعد کبھی بھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔‘‘(7)
پس جنت میں اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے خطاب اس بات کی دلیل ہے کہ رضوان وہ سب سے بڑا احسان ہے جو انسان کے دل میں اس قدر خوشی اور سرور کا باعث بنے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ بھی بھلا دے گا اور اسے ایسی روحانی لذتوں کا احساس دلائے گا جن کا تصور اور خیال بھی محال ہے۔
حق تعالیٰ شانہ نے سورۃ التوبہ میں صراحت کے ساتھ ا رشاد فرمایا ہے کہ رضوان جنت کی سب بے بڑی نعمت ہے۔ پس ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ﴾
(التوبہ:72) (اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑھ کر نعمت ہے)۔
رضا تلاش کرنے والے کو رضوان مل جائے گی
خلاصۂ کلام یہ کہ بندے کی اللہ سے رض اور اللہ کا بندے سے رضوان اگرچہ دنیا اور آخرت سے متعلق ہونے کی وجہ سے مختلف حقیقت کو ظاہر کرتی ہے مگر ان دونوں میں ایسا مضبوط تعلق ہے جوسبب اور مسبب اور علت اور معلول کے درمیان تعلق سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس لیے اگر تم دنیا میں اپنے جزوی ارادے کا حق ادا کردو اور اپنے رب کی رضوان کے حصول کی خواہش ظاہر کرو اور اس بارے میں اپنی کوشش بھی کرو ، تو اللہ تعالیٰ تمہاری اس سعی اور اچھی کوشش کے نتیجے میں تمہیں رضوان عطا کردے گا۔
یہاں ایک اور بات بھی ہے جس کو درست انداز سے سمجھنا اور اس سے غافل نہ ہونا ضروری ہے ۔ وہ یہ ہے کہ : ان دونوں باتوں میں سبب اور علت اور معلول کا تعلق مادہ کے عالم کے سبب اور نتیجے کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اگر تم دنیا میں رضا کا ایک قطرہ بھی بہاد و، تو آخرت میں وہ قطرہ بخار بن کر آسمان کی طرف اڑ جائے گا اور ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر بن جائے گا حالانکہ سبب اور نتیجے کے قانون کے مطابق قطرہ سمندر کبھی نہیں بن سکتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بے پناہ لطف و کرم اور اپنی بے کراں اور وسیع رحمت کی وجہ سے دنیا میں تمہاری اس سے رضا مندی کے اس ایک قطرے کو آخرت میں ایک تلاطم خیز سمندر سے بدل دیا ہے۔
اعلاء کلمۃ اللہ اور اخلاص : رضوان تک پہنچنے کے دو پر
انسان کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور رضوان تک پہنچانے کا سب سے مختصر اور بڑا رستہ اعلاء کلمۃ اللہ ہے۔ جی ہاں، تبلیغ اور دنیا کے اندھیرے گوشوں میں اللہ تعالیٰ کا نام بلند کرنا اورچاردانگ عالم میں روح محمدی کا پھریرا لہرانے کے لیے بغیر کسی تھکن اور سستی کے اسپ تازی کی طرح دوڑنا ، پلک جھپکتے میں اللہ تعالیٰ کی رضا تک پہنچنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر ہم اعلاء کلمۃاللہ کو رضوان تک پہنچنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، تو یہ ذریعہ ہدف کے مرتبے کا ہے۔
اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی حرکات و سکنات میں دوسروں میں زندگی پھونکنے کا اہتمام کرے اور اپنی ساری کوشش اس میں صرف کردے کہ انسانیت نئے رویوں سے آشنا ہو اور انسانیت کا رخ اللہ تعالیٰ کی جانب موڑنے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھائے اور اس کام سے عشق کرے اور اس سے چمٹا رہے۔یہاں تک کہ اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہ کرسکے تو اپنی قسمت پر روئے اور اپنی زندگی کو فضول اور بے فائدہ سمجھے۔
یہ بات ضروری ہے کہ انسان اعلاء کلمۃ اللہ کی اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں مخلص ہو، تاکہ اس مقام پر نقصان نہ اٹھائے جہاں کامیابی حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مخلص وہ شخص ہوتا ہے جو اخلاص کاعملی نمونہ ہو۔ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اخلاص کے مسئلے پر اس قدر زیادہ توجہ دے کہ اسے کم سمجھنے لگے اور مخلصین کی صف میں شامل ہونے کے لیے زبردست کوشش کرے اور مخلص ہی وہ شخص ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلوص اور صفا کے درجے تک پہنچتا ہے اور صاف ہو کر اس قدر چمکتا ہے کہ گویا وہ بذات خود عین اخلاص ہے اور یہ ان لوگوں کی صف ہے جن کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿
وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الأَخْيَارِ
﴾ (ص:47) (اور وہ ہمارے نزدیک منتخب اور خوبی والے تھے) جبکہ آنحضرت محمد ﷺ اس گروہ کے سرخیل ہیں لیکن مومنوں کو چاہیے کہ وہ اس عظیم مرتبے پر نظر رکھیں تاکہ ’’ظلیت‘‘ کے مرتبے پر اس اعلیٰ ہدف تک پہنچ جائیں (کیونکہ اصل مرتبہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ساتھ مخصوص ہے) اور اللہ تعالیٰ کی مراد کو بجا لائیں اور تمام عبادات اپنے رب کے حکم کے مطابق ادا کریں اور اپنی عبودیت کو کسی بھی دنیوی غرض سے نہ جوڑیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضوان کے علاوہ اخروی اغراض کو بھی چھوڑ دیں اور اس کے بعد تمام کاموں کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔
اس مرتبے پر پہنچے کے بعد انسان کامزاج اخلاص سے خالی کسی بھی شے کے بارے میں خود بخود رد عمل ظاہر کرنا شروع کردیتا ہے۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا انسان اگر کو ئی حیران کن کامیابی حاصل کرلے یا کوئی ایسی بات کہہ دے جو دلوں میں جذبات کو بھڑکا دے، یا کوئی ایسا مقالہ اور مضمون لکھ دے جس کی بڑے بڑے شعراء اور ادیب تعریف کریں، تو بھی دوسروں کی جانب سے احترام اورواہ واہ جیسی کسی بھی دنیوی غرض کی امید نہیں رکھتا۔ پس اگر (تصور اور استحضار کے بغیر) ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی شے اس کے خیال میں بھی آجائے گی تو فوراً پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اپنے رب سے شرک خفی کی معافی چاہتا ہے بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور اپنے نفس کو توبہ ، انابت اور اللہ کی جانب رجوع کے تالابوں میں ڈال دیتا ہے تاکہ وہاں سے صاف ہو کر باہر نکلے۔
اخلاص کا یہ مرتبہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضوان کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔اس لیے انسان دنیا میں جس قدر اخلاص میں گہرائی اختیار کرے گا اسی قدر جلدی سے وہ آخرت میں اللہ کی رضوان تک پہنچے گا اور ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ ا س کو قبر کی ہولناکی اور خوف سے بھی محفوظ رکھے کہ اور وہ اس کے عذاب اور تکالیف سے بھی بچا رہے۔ پھر جس وقت یہ انسان اپنی قبر میں رکھا جائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ربانی لطائف کی وجہ سے اس مرتبے پر عمودی انداز سے اوپر چڑھے گا۔
اس اس وجہ سے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اعلاء کلمۃ اللہ کی ذمہ داری کو تلاش کرے اور اخلاص کو حاصل کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کے لیے اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں انتہائی باریک بینی سے کام لے۔
1۔ ملاحظہ ہو :الراغب الاصفہانی، المفردات فی غریب القرآن مادہ:رض ی
2۔ صحیح مسلم، الایمان:56
3۔ بدیع الزمان سعید نورسی، الکلمات، اکتسیواں کلمہ، تیسری اساس، ص:678
4۔ صحیح البخاری، الصوم:4صحیح مسلم، الزکاۃ:85
5۔ الاوشی، بدء الامالی:20-21
6۔ بدیع ا لزمان سعید نورسی، المکتوبات، بیسواں مکتوب ، پہلام مقام، ص:278
7۔ صحیح البخاری، الرقاق:51، التوحید:38، صحیح مسلم، الجنۃ وصفۃ نعیمہاواہلہا:9
- Created on .