عہد صحابہ کے واقعات کو درست انداز میں دیکھنے کے بارے میں ایک نقطہ نظر
سوال: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خلفائے ثلاثہ سے تعلق کیسا تھا؟ خصوصاً اس لئے بھی کہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ آپ اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے درمیان شدید اختلافات تھے۔ اس معاملے کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: اس حالت کو صحیح انداز میں پرکھنے سے پہلے یہ اچھی طرح جاننا ضروری ہے کہ حضرت علی اور خلفائے ثلاثہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) تھے کون، کیونکہ جب تک ان عظیم ہستیوں کو ان کی عظمت اور باریک بینی سے نہ جانا جائے تو بعض اقوال اور کلمات کی مختلف تشریح ہوسکتی ہے اور ان کی وجہ سے غلط نتائج بھی نکل سکتے ہیں ۔ اس لئے ہم کوشش کریں گے کہ عمومی طور پر خلفائے راشدین کی عظیم زندگی کے کچھ خدوخال پیش کریں تاکہ ہم ان کو قریب سے جان سکیں ۔
سنہری سلسلے کے تاج کا موتی
حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی تربیت میں سب سے زیادہ وقت گزارا خواہ وہ بعثت سے قبل ہو یا بعد میں۔ آپ کی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما سے شادی ہوئی جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’ فاطمہ میرا ایک ٹکڑاہے ،جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ (الاخ ری ،فضائل الصحابہ:12) ۔ اس شادی کے بعد آپ کے اور نبی کریم ﷺ درمیان ایک اور رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ آپ علیہ السلام بار بار حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور رات کو بھی چلے جاتے تھے یہاں تک کہ آپ علیہ السلام حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے درمیان ان کے بستر پر تشریف فرما ہوئے، اپنے نواسوں کو سینے سے لگایا اور ان سے ہنسی مذاق کیا۔ اس سب کا مطلب یہ نکلا کہ حضرت علی کو ہمیشہ یہ موقع ملتا رہا کہ آپ حضور اکرم ﷺ جذبات اور احساسات کے درمیان سانس لیں ۔
علاوہ ازیں حضور اکرمﷺ کے نواسوں کی ولادت اس خوش قسمت گھر میں ہو ئی اور انہی دونوں سے آنحضرت ﷺ کی نسل آگے چلی اور حضرت حسین اشراف اور سادات کے دادا بنے۔ اس لئے بہت سے بڑے بڑے اقطاب جیسے ابوالحسن شاذلی،عبدالقادر جیلانی اور محمد بہاؤالدین نقشبندی جیسے اقطاب کا دادا ہونے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک منفرد مقام ہے۔
’’اگر ابوبکر نہ ہوتے تو اسلام مٹ جاتا‘‘
اس کے باوجود دیگر خلفائے راشدین کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں ۔مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی جانب سے آنحضرت ﷺ کی حفاظت اور بعض معین مقامات پر آپ علیہ السلام کا دفاع ایک نہایت ضروری امر ہے۔ چنانچہ حضرت صدیق کا آپ علیہ السلام پر سب سے پہلے ایمان لانا ،ہجرت کے دوران سخت اور مشکل رستے پر خطرات سے دوچار ہونے کے باوجود آنحضرت کی رفاقت، کئی بار رسول اللہ ﷺ پر حملے کے وقت لوگوں سے فرعون کی قوم کے مومن کی طرح یہ کہنا: ((أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ)) (المومن:28) ( کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ھے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) یہ سب حادثات اور واقعات نہایت اہم ہیں جبکہ مثال ہے کہ ’’ قدر زرگر زرگر بداند یاکہ داند جوہری۔‘‘ اس لئے حضرت علی حضرت ابو بکر کی قدر پہچاننے میں سب سے آگے تھے کیونکہ آپ کا قول ہے:’’ اگر ابو بکر نہ ہوتے تو اسلام مٹ جاتا‘‘ (الدیلمی، الفردوس بماثورالخطاب:358/3)۔ اسی طرح ایک اور موقع پر ان کی عظمت کا اظہار ان الفاظ سے فرمایا:’’ اس امت کے نبی کے بعد سب سے بہترین لوگ ابو بکر اور عمر ہیں ۔‘‘ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابہ:76/1)
فاروق: حق و باطل کو جدا کرنے والی سیسہ پلائی دیوار
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آ پ کو دیگر حضرات پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ آپ نفاق اور اختلاف کی ان تمام تحریکوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار تھے جن سے آپ کی خلافت کے دوران اسلامی وحدت کو خطرہ تھا، علاوہ ازیں آپ ہی نے اس زمانے کی دو بین الااقوامی قوتوں روم اور فارس کو خاک میں ملایا اور یہ بات بہت سے لوگوں کا ا سلام لانے کا سبب بنی۔ جب ایران معرکہ قادسہ’ میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد جھک گیا تو اس کے دل میں حضرت عمر کے خلاف بغض اور کینہ پیدا ہوگیا۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے ان کے مسلک کے ارادے کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ حضرت علی کی محبت کی وجہ سے نہیں بلکہ حضرت عمر کے بغض کی وجہ سے ۔‘‘
چونکہ حضرت علی ان دونوں عظیم خلفاء کے فضائل جانتے تھے اس لئے ان کی خلافت کے دوران وہ اہم ذمہ داری سنبھالی جس کوبعد میں ’’شیخ الاسلام‘‘ کا نام دیا گیا۔ یعنی یہ دونوں خلفا ضرورت کے وقت فقہی مسائل میں آپ سے بہت زیادہ مشورے کیا کرتے تھے اور خاص طور پر بہت سے مسائل ایسے ہیں جو حضرت عمر نے آپ سے پوچھ کر ان کا حکم معلوم کیا۔ احادیث کی کتابوں میں مذکور وہ واقعہ قابل ذکر ہے کیونکہ یہ حضرت علی اور حضرت عمر (رضی اللہ عنہما ) کے درمیان تعلقات کو واضح کرتا ہے کہ جب حضرت عمر نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ: ’’ میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے ، تو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے نہ چومتا۔‘‘ (الاخنری، الحج:50، مسلم، الحج :250) تو حضرت علی نے نہایت سادگی سے فرمایا: ’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا: قیامت کے دن حجر اسود میں اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی تیز زبان ہو گی اور وہ اس شخص کی توحید کی گواہی دے گا جس نے اس کا استلام کیا ہوگا‘‘ اس لئے اے امیر المومنین وہ نفع اور نقصان دیتا ہے‘‘۔ اس پر حضرت عمر نے فرمایا:’’ ابو الحسن میں ایسے لوگوں میں زندہ رہنے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جن میں آپ موجود نہ ہوں ‘‘۔ (الحاکم، المستدرک:628/1) یہ ایسے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی خوب قدر کرتا ہے جیسے کہ اس واقعے سے ظاہر ہے۔
’’اگر میرے پاس تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا نکاح اس سے کردیتا‘‘
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک اور منفرد رخ اور نرمی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے اپنی ایک دختر نیک اختر کا آپ سے نکاح کرایا۔ جب ان کا انتقال ہوگیا تو دوسری بیٹی بیاہ دی اور ارشاد فرمایا: ’’اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کا نکاح بھی اس سے کردیتا جبکہ میں نے اس کا نکاح اللہ کی وحی کے سبب کیا ہے۔‘‘ (الطرﷺانی، العجم الکبیر:184/17) اسی طرح حضرت عثمان کا امن و امان کے ساتھ حکمرانی کرنا ا ور امور مملکت کو چلانا بھی آپ کی عظمت کو سمجھنے کے لئے بہت اہم ہے اور خصوصاً اس وقت جب عالم اسلام میں خارجی نظرئے نے جنم لیا۔
منفرد رخ، منفرد فضائل
ہم کہہ سکتے ہیں کہ : ان میں سے ہر ایک کے ایسے رخ ہیں جن کی وجہ سے دوسروں پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ (جیسے کہ سب جانتے ہیں ) بعض اوقات کچھ چیزوں میں مرجوح، راجح پر فضیلت حاصل کرلیتا ہے۔ اس لئے صحیح بات یہ ہے کہ ان حضرات میں سے ہر ایک کو اپنی شخصیت اور ذاتی اہمیت اور اللہ کے ہاں مرتبے کے لحاظ سے دیکھای چاہئے اور یہ عقیدہ ہو کہ ان میں سے ہر ایک نبی کریم ﷺ کی مختلف خصوصیات کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابو بکرکو صدیق ،حضرت عمر کو فاروق، حضرت عثمان کو’’ذوالنورین‘‘ اور حضرت علی کو ’’ الاسد الغالب‘‘ باب مدینۃ العلم اور سلطان الاولیاء جیسے کئی القاب دئے گئے۔ ان حضرات میں سے ہر ایک منفرد حیثیت کا مالک ہے اور اس کی مخصوص خصوصیات کی وجہ سے اس کے مرتبے تک پہنچنا ناممکن ہے ۔ اگر چہ ’’متاال‘‘ (بلند) کے لفظ کا انسانوں پر اطلاق درست نہیں ،مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے ان رخوں سے جن کو حاصل کیا جاسکتا ہے نہ ان سے سبقت لی جا سکتی ہے ، مختلف صلاحیتوں کے مالک ہیں ۔ مثلاً یہ حضرات اپنی خلافت راشدہ میں منفرد ہیں ۔ کوئی دوسرا ان کا ہم پلہ نہیں ، ان میں سے ہر ایک اپنی قیمت میں پورے عالم کے برابر ہے جبکہ ان کی یہ قدروقیمت ان کی ان بے شمار خصوصیات کی وجہ سے ہے جن کا ہم یہاں ذکر نہیں کرسکے ۔ ہمارے لئے بس یہی کافی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ان چاروں کو عشرہ مبشرہ میں سرفہرست ذکر فرمایا ہے۔
متضاد دعوے اور بے سروپا جھوٹ
جب ہم ان تمام امور کو کلی اور شمولی نظر سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی کو خصوصاً حضرت ابو بکر و عمر کے ایک مخالف کے طور پر پیش کرنا اور یہ دعویٰ کرنا کہ آپ حق اور دیگر باطل کے نمائندے تھے۔ دراصل کسی اور سے قبل خود حضرت علی کی توہین ہے کیونکہ حضرت علی جیسا بطل شجاعت و جرأت جو کسی خطرے کو کام میں نہیں لاتا ، وہ حضرت ابوبکر و عمر (رضی اللہ عنہما ) کے سامنے کسی ایسے معاملے میں نہیں جھک سکتا جسے وہ حق نہ سمجھتا ہو کیونکہ آپ ایسے مہم جو ہیں جو کھلے دل اور اطمینان قلب کے ساتھ موت کی جانب بڑھتے ہیں جیسے کہ واقعہ خیبر میں ہوا۔ یہ روایت آنحضرت ﷺ کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ جبریل نے آگر آپ سے فرمایا :’’ ذوالفقار جیسی کوئی تلوار اور علی جیسا کوئی جوان نہیں ‘‘ (ابن عسا کر، تاریخ دمشق: 201/39، 71/42)۔ اس لئے ایسے شخص کے بارے میں یہ دعوی کرنا کہ اس نے حضرت ابوبکر و عمر سے مجاملہ اور مدارات سے کام لیا، خود حضرت علی (رضی اللہ عنہ ) کی روح کی توہین اور تحقیر ہے۔ اس لئے ان دعوؤں کے تضاد کو واضح کرنا چاہیے۔
دوسری جانب اس مسئلے کو اس رخ سے دیکھا جائے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر ،عمر،اور عثمان (رضی اللہ عنہم) کو شرف قربت بخشا، تو ان حضرات کے بارے میں منفی آراء خود آنحضرت ﷺ کی توہین ہیں کیونکہ اس دعوے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کبھی بھی ان حضرات کو نہیں آزمایا اور کبھی بھی آپ علیہ السلام کو ان سازشوں کا علم ہی نہیں ہوا جو (نعوذ باللہ) ان حضرات نے کیں اور یہ بات آپ علیہ السلام کی ڈہانت اور فطانت کی توہین ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کا اپنے ساتھیوں کو خوب اچھی طرح پہچاننا اور اسی بنیاد پر آپ ان کو مختلف جگہوں پر لگانا ، آپ علیہ السلام کی عظیم فطانت کا ایک نہایت اہم رخ ہے کیونکہ آپ علیہ السلام جب کسی انسان کے چہرے پر ایک نظر ڈالتے تھے تو اپنی انتہائی ذہانت سے معلوم کرلیتے تھے کہ یہ شخص کس مقام پر کس کام کے لائق ہے اور اس کے مطابق اس کی ذمہ داری لگاتے تھے۔
جی ہاں ، نبی کریم ﷺ کے پاس وحی آنے کے باوجود یہ دعویٰ کرنا کہ آپ علیہ اسلام آغاز سے لے کر اس دنیا سے کوچ کرنے تک ان لوگوں کوپہچان ہی نہ پائے جن کے ساتھ رہے اور ان کے حالات اور برتاؤ سے صحیح مطلب کا استنباط ہی نہ کرسکے، یقینا یہ ایک نہایت زبردست منطقی غلطی کا نتیجہ ہے جبکہ عقل و منطق اور درست سوچ اور فکر کا تقاضایہ ہے کہ جن لوگوں کو آنحضرت ﷺ نے پسند فرمایا ان کو قبول کیا جائے اور ان کا احترام کیا جائے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل کے بارے میں آنحضرت ﷺ سے بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ حدیث کی کتابوں میں اس بارے میں خصوصی ابواب ہیں ، چنانچہ نبی کریمﷺ نے صحابہ کرام کے اس مرتبے کی جانب یوں اشارہ فرمایا ہے جس کو کسی بھی طرح حاصل نہیں کیا جاسکتا : ’’ میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی طرح ہیں ۔ اس لئے تم جس کے پیچھے بھی چلو گے رستہ پالو گے۔‘‘(البہقین، المدخل: 162/1 ، الدیلمی،الفردوس بما ثور الخطاب:160/4)
خصوصی طور پر ان دو حضرات کے بارے میں منفی رائے رکھنا جن کے ہاتھ پکڑ کر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ’’ ہمیں قیامت میں اس طرح اٹھایا جائے گا ۔‘‘ (الترمذی، النا قب:38) اور ایک اور موقع پر فرمایا: ’’ کوئی بھی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے اور دو زمین والوں میں سے نہ ہوں ۔ اس لئے آسمان والوں میں سے میرے وزیر جبرائیل اور میکائیل ہیں اور زمین والوں میں سے ابو بکر اور عمر۔‘‘(الترمذی، المناقب:47) یہ بات معرھض کی ان حضرات سے اور آنحضرت ﷺ سے ناواقفی کا نتیجہ ہے ۔ علاوہ ازیں آپ علیہ السلام نے ان حضرات کو جنت کی بشارت دی۔ اسی طرح آپ نے حضرت ابو بکر اور عمر کی بیٹی کواپنے عقد میں لیا اور اپنی دو بیٹیاں حضرت عثمان اور ایک بیٹی حضرت علی کے نکاح میں دی۔ اس طرح آپ علیہ السلام نے اپنے اور ان حضرات کے درمیان ایک اور منفرد رشتہ بھی قائم فرمایا۔ اگر اس مسئلے کو محی الدین ابن عربی کی کتاب ’’ فصوص الحکم‘‘ کے رخ سے دیکھا جائے تو حدیث کی تاودیل کے رخ سے شادی کرنے اور نکاح میں دینے کا ایک اور مطلب بھی ہے ، مگر میں یہاں ان معاملات میں نہیں پڑنا چاہتا، میری کوشش ہوگی کہ میں سادگی سے اس مسئلے کو بیان کروں کیونکہ ہم معمولی لوگ ہیں اس لئے روحانیت کو زیادہ نہیں سمجھتے۔
دائرے کے مرکز میں معمولی انحراف کا دائرے کے محیط پر اثر
اس سب کے باوجود ایک خاص زمانے میں بعض لوگ خلفائے راشدین کی قدر جاننے میں جادۂ حق سے بھٹک گئے۔ چونکہ دائرے کے مرکز میں ایسے امور کا زیادہ پتہ نہیں چلتا اس لئے آغاز میں اس کا اندازہ نہیں ہوا لیکن مرکز کا یہ معمولی انحراف خط محیط میں بہت زیادہ ہوگیا یہاں تک کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مرحلہ ایسا بھی آگیا جب بعض لوگوں نے حضرت علی رضی ا للہ عنہ کی مخالفت کی اور (نعوذ باللہ) ان پر کفر کی تہمت لگا دی جبکہ بعض دیگر لوگوں نے حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا دعوی کرتے ہوئے اپنی زندگیاں حضرت ابوبکر و عمر رضی ا للہ عنہما کی دشمنی میں کھپا دیں اور اپنی دشمنی کو ایک بنیاد فراہم کرنے کے لئے حضرت علی کا نام استعمال کیا ، بلکہ اس بارے میں حد سے گزر گئے اور آپ کو ایسی ایسی صفات سے مصفے قرار دیا جن کو آپ کبھی قبول نہ کرتے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے باطنی مذاہب وجود میں آئے جنہوں نے اس مسئلے کو حلول اور اتحاد پہچام دیا۔ حضرت علی کے بارے میں اس قسم کے باطل اور خود ساختہ دعوے ’’ مہدیت‘‘ کے ان دعوؤں کی بنیاد بنے جو دنیا کے مختلف مقامات پر ظاہر ہوئے ا ور یہ بات شروع سے حسن بن صباح، قرامطہ ، اسماعیلیہ اور نصرہیوں جیسے باطل مذاہب کے وجود میں آنے کا باعث بنی۔
اس موضوع سے متعلق ایک حدیث شریف بھی ہے۔ [1] ( اگرچہ احادیث کے معیار کے مطابق اس پر کلام ہے) جس میں آپ علیہ السلام بتا رہے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں دو فرقے ہلاک ہو جائیں گے ایک (نعوذ باللہ ) ان کو خدا کے درجے تک پہنچا دے گا اور دوسرا (نعوذ باللہ) ایک معمولی سے مسئلے کی وجہ سے کافر قرار دے کر ان سے دشمنی کرے گا اور ان کو قتل کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ دن آگیا جب فارسیوں نے اسلام میں فتنہ برپا کرنے کے لئے حضرت ابو بکر و عمرکی توہین کی،بلکہ عداوت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ دونوں کو ’’جبت اور طاغوت‘‘ (بت اور شیطان) قرار دیا اور ہماری ماں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بھی بہتان تراشی کی۔
حسد اور بعض کو ہوا دینے والی علمی قیادت
دور حاضر میں اس انحراف کے شکار لوگ ان باتوں کے بارے میں ہر جگہ اور سب کے سامنے تذکرہ نہیں کرتے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ موجودہ حالات اور ملکوں کے درمیان تعلقات بلکہ ہوسکتا ہے کہ اسلامی دنیا کی عمومی حالت کے رخ سے اس مسئلے کے قریب ہورہے ہیں ، لیکن اس کے باوجود جب ان کے ان بغض وعداوت والے الفاظ کو دیکھا جائے جن کو وہ نہیں چھپا سکے اور بعض واقعات کی وجہ سے وہ ان کی زبانوں پر آگئے ، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ اپنے دلوں سے ان گندگیوں کو دور نہیں کرسکے اور جس ثقافتی ماحول میں وہ پلے بڑھے ہیں اور جن مصادر سے انہوں نے علم حاصل کیا ہے ان کی وجہ سے ان کے لئے ایسا کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے کچھ طریقے وضع کئے اور اس موضوع پر کتابیں لکھیں جن کی وجہ سے ان کے عقائد اور عمومی سوچ نے یہی رخ اختیار کرلیا۔ اگر ان کی کتابوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے امامت کو ایمان کے پانچ ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے۔ پھر اس بنیاد پر امام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہونا چاہیے اور کوئی دوسرا شخص امام بن ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اس قسم کے فروعی مسائل کو ارکان ایمان سے جوڑ دیا جس کی وجہ سے نہایت خوفناک اختلافات نے جنم لیا۔
اگر علویوں کی حقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور اہل بیت سے تعلق ہے تو پھر ہم سب علوی ہیں اور تصوف کی کتابیں اور ہمارا بین الاقوامی ادب اس کا گواہ کیونکہ جب اس کو پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اول سے آخر تک اہل بیت کی محبت سے بھرا ہے۔ یہ بات قطعاً درست نہیں کہ اصول سے متعلق مسائل سے اغماض برتا جائے اور ان کو فروعی رخ سے پیش کیا جائے۔
میں نے کئی بار یہ تذکرہ کیا ہے کہ میرے خاندانی ماحول کے لحاظ سے میری پرورش ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پر ہوئی ہے۔ اس لئے جب بھی ’’بہادر‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے تو میرے ذہن میں آپ ایک ا یسے بہادر کی شکل میں مجسم ہو کر آجاتے ہیں جو میدان جنگ میں تلوار بے نیام کرنے کے بعد ایک ہی بار پچاس پچاس سروں کی فصل کاٹتا تھا۔ اگر یہی بات میرے جذبات پر حکمرانی کرے تو پھر یہ بات بالکل فطری ہے کہ میں حضرت علی کی محبت میں دیوانہ ہوجاؤں کیونکہ حضرت علی کی محبت میری روح اور عقل کے خلیوں میں اس درجے تک سرایت کر گئی ہے کہ مجھے اس بات کی کوشش کرنا پڑی کہ حضرت علی کو بھی خلفائے ثلاثہ کی صف میں شامل کرکے اس بارے میں توازن پیدا کروں ۔
محبت کی کنجیاں زنگ آلود تالوں کو بھی کھول دیتی ہیں
ماضی میں جو کچھ ہوا ، اس سب کے باوجود آج ہم پر جو بات لازم ہے وہ یہ کہ ہم علوی، نسطوری ا ور سریانی میں فرق کئے بغیر سب کی جانب ہاتھ بڑھائیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔ اس طرح ہم ان منفی امور کی تاثیر کو ختم کرسکتے ہیں جن سے اندرونی اور بیرونی سازشی عناصر فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ مشرقی ترکی کے مسئلے کے بارے میں میں نے ماضی میں کہا تھا: وہ وسائل مہیا کرنا لازمی ہیں جن کے ذریعے ہماری قوم کی روح اور فطرت میں پوشیدہ مروت دوبارہ ظاہر ہوجائے ا ور یہ سرگرمیاں ہمیشہ ایک تبدیلی کے ساتھ روبہ عمل لائی جائیں ۔ مثلا مبارک راتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان علاقوں میں پروگرام کئے جاسکتے ہیں ۔ اس لئے اگر تم کسی ایک جامع مسجد میں ایک رات جاگ کر ان کی رات اور ظلمت کو روشن کرتے ہو ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دلوں کو کھولنے کے لئے ایک مشترک نقطے کی تلاش میں بڑا اہم کام کررہے ہو اور اگر اس علاقے میں بصیرت والے انتظامی افسران، پولیس افسر، ڈاکٹر ،داعی اور علماء تعینات کئے جائیں اور وہ معاشرے کے زخموں پر پھاہے رکھنے کی کوشش کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ساری سازشیں ختم ہوجائیں گی کیونکہ مشکلات کو محبت کی کنجیوں سے حل کرنے کی ضرورت ہے جن سے ہر دروازہ کھل جاتا ہے ۔ اس کام کے لئے مولانا جلال الدین رومی کا اسلوب، یونس امرہ کی ترتیب اور عالمی ضمیر کی کشادگی سے کام لینا چاہیے۔ جی ہاں ، اگر کوئی چیز ان مشکلات کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ سب کو ساتھ ملایا جائے اور اپنے دل ان کے لئے کھول دیں ۔ اس طرح ہم سارے دلوں کو کھول سکتے ہیں ۔
اگر آپ مشکلات کو طاقت کے بل پر حل کرنا چاہیں تو ان کو کچھ وقت کے لئے دبا دیں گے لیکن ایسا کوئی انسانی مسئلہ نہیں جس کو طاقت کے زور سے مکمل طور پر حل کر لیا گیا ہو۔ اس لئے یہ ہوسکتا ہے کہ آپ طاقت کے ذریعے مسئلے کو دبا دیں مگر وہ کسی اور جگہ ایک نئی شکل میں سر اٹھائے گا۔ سو یہ کہا جاسکتا ہے کہ فتنوں کے اندر ایک طرح کا ’’ تناسخ‘‘ پایا جاتا ہے ۔ اس لئے انسانیت نت نئی شکلوں میں ان سے دوچار ہوتی رہے گی یہاں تک کہ ان کو مکمل طور پر حل کرلیا جائے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ طاقت (ایک رخ سے) عقل اور منطق کو مکمل طور پر کام میں لانے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب آپ دوسروں پر ظلم و جبر کرکے ان کو دبا کر کسی مسئلے کو حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ اپنی عقل اور منطق کو مکمل طور پر استعمال نہیں کرسکتے۔ جی ہاں ، طاقت کے وجود کی ایک حکمت ہے مگر یہ ضروری ہے کہ طاقت ہمیشہ عقل، منطق،حکمت اور فراست کی رہنمائی میں کام کرے اور ضمیر اور انصاف کے آگے سر تسلیم خم کرے ۔ میں سمجھتاہوں کہ تمہاری طرف آنے والی کسی مشکل کو حل کرنے کے لئے اس سوچ اور فہم کے ساتھ آگے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس مسئلے کے حل کے ایک ایسے رستے پر چل پڑے ہیں جس پر امید کے چراغ روشن ہیں ۔
[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’ تم حضرت عیسی ابن مریم کے مثل ہو کہ یہودیوں نے ان سے بغض کیا یہاں تک کہ ان کی ماں پر بہتان تراشی کی اور نصرانیوں نے ان سے محبت کی تو اس درجے تک پہنچا دیا جس پر وہ فائز نہ تھے۔‘‘ حضرت علی نے فرمایا: میرے بارے میں دو شخص ہلاک ہوجائیں گے ، ایک وہ اندھی محبت کرنے والا جو محبت میں آ کر مجھ میں ایسی صفات بیان کرے جو مجھ میں نہیں اور ایک وہ مجھ سے بغض رکھنے والا جھوٹا آدمی جس کو میرا بغض مجھ پر بہتان تراشی تک لے آئے۔(مسند ابی یعلی:406/1)
- Created on .