عیدالاضحی کے بارے میں کچھ احساسات
عیدالاضحی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے زمانے سے قربانی، بہادری، اخلاص اور تسلیم و رضا کی علامت ہے۔ یہ ہمارے پاس ایسی گونجدار تکبیروں کے ساتھ آتی ہے جو میدان جنگ کی طرف جانے والے لشکروں سے مشابہت رکھتی ہیں اور ایک ایسے ولولے میں بدل جاتی ہے جس کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے جن میں شعری موسیقی کی آوازیں معرکوں کی آوازوں سے مل کر باونگ دہل حق کا اعلان کرتی ہیں ۔
عیدالاضحی کے دوران گھر، گلیاں ، مساجد اور پہاڑ بھی تکبیر کی آوازوں اوران کی گونج سے لرز اٹھتے ہیں ۔ جس وقت تمجید کی یہ صدائیں فلک بوس میناروں سے بلند ہوتی ہیں ، اسی وقت مزید سحر انگیزنغمات کے ساتھ ہمارے گھروں میں اترتی ہیں۔ چنانچہ شہر اور دیہات، قصبے اور آبادیاں ،نخلستان اور وادیاں بھیڑوں اور بزغالوں کی آوازوں سے گونج اٹھتی ہیں ۔ اس مبارک مدت کے دوران اکثر لوگ اور ہر شے اور ہر زمان و مکان بولنے لگتا ہے اور اپنے ضمیر کی آواز کو ظاہر کرتا ہے اور میدان عرفات لوگوں سے اس طرح بھر جاتا ہے جیسے ر وز حشر ہو اور میدان حساب کی مانند امید و بیم کی سانسیں لیتا ہے…اسی طرح منٰی اور مزدلفہ بھی اپنے دائیں بائیں چلنے والے لوگوں کی تلبیہ کے الفاظ گنگناتی ہے … جبکہ کعبہ اس طرح دھڑکنے لگتا ہے جس طرح مغفرت کے پیاسوں کے دل دھڑکتے ہیں جو شوق و حسرت سے ان کے سینوں میں چل رہے ہوتے ہیں … اور یہ ساری آہیں آسمان کے دروازوں تک اس طرح پہنچ جاتی ہیں جیسے وہ ان نیک بندوں کی چیخیں ہوں جو اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے احترام اور عظمت کی وجہ سے کھڑے ہیں ۔ چنانچہ خلود اور ابدیت کی تلقین کرنے والی ان آواز وں کی وجہ سے ہم ایسے ہوجاتے ہیں کہ گویا اپنے لامحدود احساسات اور لامتناہی خیالات کے ذریعے گنگنارہے ہیں اور ہمارے احساسات کے سارے خزانے کھل جاتے ہیں … اور ہمارے پوشیدہ احساسات ہر چڑھائی اترائی پر اس طرح بکھر جاتے ہیں جیسے دھاگہ ٹوٹنے سے تسبیح کے دانے بکھر جاتے ہیں اور جس وقت کبھی ہم اس شوق و طرب کو محسوس کرتے ہیں جو نسیم جنت کی طرح ہمارے دلوں پر چلتا ہے اور ان سحر انگیز آوازوں کوسنتے ہیں جو ہر طرف سے بلند ہوتی ہیں اور حق تعالیٰ کی دہلیز تک جا پہنچتی ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ گویا ہم شوق، عشق اور عید کے جادو سے پھوٹنے والا اکسیر حیات نوش جان کررہے ہیں ۔
اس وقت ہم ان چوٹیوں کے اوپر اپنے رستے کو دیکھتے ہیں جن تک ہمارے دل ایمان، حق تعالیٰ کی عبادت اور عبادت کے ادراک سے پہنچے ہیں اور اپنی تقدیر کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں : ’’ ہاں یہ ہے وہ کتاب!‘‘ اور اپنی قسمت پر شادمان ہوتے ہیں ۔ چنانچہ وہ کامیابی ،یہ صلاحتیں اور ان کی لذت اس قدر وسیع لطف کے ساتھ ہماری روح کو اپنے آغوش میں لے لیتی ہے کہ ہماری آنکھیں شکر کی وجہ سے کھلنے اور بند ہونے لگتی ہیں اور ہمارے جذبات بہار کی طرح کھل اٹھتے ہیں … اس کے بعد ہماری روحوں سے ملنے والا الہام ، دعائیں اور رحمت الہٰی کے پروں سے ہماری روحوں سے آسمان کی طرف بلند ہونے والی عاجزی اور مناجات ایسی لگتی ہے جیسے وہ ایسی روح، تاثیر اور آسمانی حالت کی نمائندہ ہے جو ہمارے مزاجوں سے بالاتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر گھڑی،ہرمنٹ ،ہر عمل اور ہر نیا امکان اور قدرت ایک ایسی قیمت حاصل کرلیتی ہے جو اسے زیادہ گہرائی کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے اور زیادہ گہرائی سے کام میں لانے کا اہل بناتی ہے۔ پھر اسی وقت روحانی لذتوں سے منفعل ضمیروں سے یہ دعائیہ کلمات نکلتے ہیں :’’ یا اللہ اپنے لطف اور نعمتوں میں مزید اضافہ فرما!‘‘کیونکہ وہ مزید خوشی اور وجد کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
جوں جوں عید کے ایام عبادتوں اور خوش کن دینی ماحول اور جائز عادتوں سے پھوٹنے والی لذتوں اور سرور کا لباس اوڑھتے جاتے ہیں ، تو ہمیں وضاحت کے ساتھ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ہمیں ایک نیا وجود مل گیا ہے اور خوش قسمتی سے ہمیں ابدیت مل گئی ہے اور ہمارے سینے اس طرح کھل گئے ہیں کہ مکان اور کائنات ان میں سما سکتی ہے اور ہمارے احساسات اور حواس ہمارے دل پر ہونے والی خدائی واردات کی بدولت روشن ہوچکے ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ہمارا مادی رخ بالکل پگھل گیا ہے اور ہم ایک روحانی چیز بن گئے ہیں ۔ اس لئے ہم ان ازلی دعوؤں کی طرف دیکھنے لگتے ہیں جو ایمان ہمیشہ ہمارے دلوں میں بکھیرتا رہتا ہے۔
عید کے دنوں میں بہت سی دفعہ ایسا لگتا ہے کہ ہم بھر پور جذبات کی وجہ سے ہوا میں اڑ رہے ہیں یا ایک خوبصورت، مرتب اور ہموار پر روح کی مملکت کی جانب پھلد رہے ہیں ۔ ہمارے اندر نرمی اور ظرافت پیدا ہوجاتی ہے اور اس طرح باہمدیگر مل جاتے ہیں جس طرح آسمان کی بلندیوں پر پرندے بغیر پروں کو حرکت دیئے دائیں بائیں اڑتے ہیں یا درختوں کی اوپر والی شاخیں بڑی نرمی کے ساتھ ہلتی ہیں یا ان پھولوں کی طرح ہوجاتے ہیں جن سے ہوائیں اٹھکیلیاں کرتی ہیں جس سے ان کی خوشبو بکھر جاتی ہے اور جب بھی ہوائیں ان کو چھیڑتی ہیں تو وہ کبھی جھک جاتے ہیں یا اپنے تنوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں ۔
بعض اوقات ہمارے اوپر بالکل رقت طاری ہوجاتی ہے اور ہم ہر تکبیر و تہلیل اور اخروی آواز کو سن کر شدت انفعال سے رونے لگتے ہیں اور ہمارے آنسو ہمیں سر کی چوٹی سے پاؤں تک بھگو دیتے ہیں ۔ کبھی ہمارے اوپر ایسا سرور چھا جاتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو آتشی سواریوں پر سوار آسمانوں میں گھومتا گمان کرتے ہیں جبکہ ہمارے چاروں طرف روشنی ہی روشنی ہوتی ہے… کبھی ہم جادوئی غالیچے پر بیٹھ کر ستار وں کے درمیان گھومنے والے کی کی طرح ہوجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات ہم بھیڑو ں اور بزغالوں کی میں میں کی وجہ سے نرم ہوجاتے ہیں ، ان سے متاثر ہو تے ہیں اور عجیب و غریب احساسات کے عکس کی وجہ سے اندرونی طور پر شمع کی طرح پگھلتے ہیں … کبھی ہم ان تمام امور کو ایک ایسی فطری اور حکمت بھری ترتیب میں دیکھتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے یہاں تک ہم کہتے ہیں :’’ اس سے خوب تر اور زیادہ کامل کوئی شے ہو ہی نہیں سکتی!‘‘ اور قدرت کی سحر انگیز بوقلمونیوں کے سامنے انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں ۔
میناروں سے بلند ہونے والی اذان اور تمجید ،مساجد سے ہر طرف بکھرنے والی تلاوت اور تکبیر اور اس سے ضمیروں میں پیدا ہونے والی گونج… شعر میں تبدیل ہوسکتی ہے اور لوگوں کے دل میں اتر کر ان کو مسحور کرسکتی ہے کیونکہ ہمارے دل کی دنیا کے لئے ایسی کوئی چیز نہیں جو اپنے اندر پوشیدہ لطف میں اس کے برابر ہوسکے اور پھر خصوصاً اس وقت جب ان خوشبوؤں کے ساتھ نسیم صبح بھی مل جائے اور ایک تصویری موسیقی وجود میں آجائے ۔ چنانچہ اس سے ہمارا سرور اس رتبے تک جا پہنچتا ہے جس کو بیان کرنا ناممکن ہے اور ہمارے جذبات ایک طوفان کی طرح بہنے لگتے ہیں ۔
خصوصی طور پر حج کے دوران ہم ہر شے کی زبان اور لہجہ بن جانے والی تکبیرات اورتہلیلات کے ذریعے اپنے پوشیدہ ترین خیالات اور عظیم ترین افکار کا اعلان ببانگ دہل کرتے ہیں اور اپنے باریک ترین احساسات کو نہایت جلے ہوئے نغمات سے اس طرح ظاہر کرتے ہیں جیسے ہم یوم حشر کی مشق کر رہے ہیں اور غمخوار اور ہلا دینے والی تصویروں کے سامنے ان گہرے فطری کلمات کے ذریعے مختلف مقامات پر جاتے ہیں اور متعدد مناسک ادا کرتے ہیں ۔ یہ کام کرتے ہوئے ہم نے اپنی پیٹھ جہنم کی طرف کی ہوتی ہے جبکہ ہماری آنکھیں جنتوں کے سحر میں کھوئی ہوتی ہیں اور ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی رضا مانگ رہے ہوتے ہیں …
ان جذبات کے ذریعے ہم اپنی حدود سے بالکل باہر نکل جاتے ہیں اور اپنی انانیت سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ہم دل اور روح کے اوپر اپنے تخت بچھا لیتے ہیں اور بدن کی راکھ اور جسمانی خصوصیات اور دنیاوی رخوں کو دائیں بائیں بکھیر دیتے ہیں اور اس طرح اس چنگاریوں کو دوبارہ روشن کرلیتے ہیں جو جنت سے ہمارے پاس آئی ہیں اور ہمارے وجدان کے کسی کونے میں اب تک محفوظ ہیں … اور اس شعلے، حرارت اور نور کے نیچے ہم اس کے وجود کو سلام کرتے ہیں اور اسے ایسا سلام پیش کرتے ہیں جو ہمارے دلوں کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلتا ہے اور اپنی قسمت پر مسکرا دیتے ہیں ۔
- Created on .