الحاد پر اصرار کے اسباب
سوال: بعض لوگ الحاد پر کیوں اصرار کرتے ہیں حالانکہ ان کے دل ہمیشہ تنگی اور گہرا خلاء محسوس کرتے ہیں ؟
جواب: الحاد زندگی کی تصویر یوں پیش کرتا ہے کہ گویا وہ انارکی اور کشمکش کی جگہ ہے اور اس میں کوئی بھی شے کسی بھی وقت وقوع پذیر ہو سکتی ہے جبکہ موت ان کے ہاں مطلق فنا اور ہلاکت ہے۔ اس لئے الحاد کا کوئی بھی ایسا مثبت پہلو نہیں ہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچ سکے یا اسے اس پر قائم رہنے پر مجبور کر سکے۔ در حقیقت الحاد انسان کے لئے بے چینی اور دائمی خطرہ کا باعث اور خلا اور گہری کھائی ہے لیکن انسان کی کچھ کمزور یاں ہیں جو اسے اندھا اور بہرہ بنا دیتی ہیں اور جب وہ ان میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پھر دوپہر کو روشن سورج کی طرح نظر آنے والے حقائق کے بھی خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس طرح ایمان اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور وہ انتشار کی جانب چل پڑتا ہے۔ درج ذیل نقاط میں ہم ان کمزوریوں کی جانب اشارہ کریں گے جو انسان کے الحاد میں پڑنے کا سبب بنتی ہیں :
1۔ تکبر
کبھی تکبر انسان کو اللہ کا بندہ بننے سے روکتا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک حدیث قدسی میں فرماتے ہیں : اَلْكِبْرِيَاءُ رِدَائِي، وَالْعَظَمَةُ إِزَارِي، فَمَنْ نَازَعَنِي وَاحِدًا مِنْهُمَا قَذَفْتُهُ فِي النَّارِ (مسلم،البر: 136، ابو داؤد،اللباس:26،یہ الفاظ ابو داؤد کے ہیں ) (بڑائی میری چادر اور عظمت میرلنگی ہے۔ اس لئے جو شخص ان میں سے کسی پر جھگڑے گا، میں اسےآگ میں پھینک دوں گا) ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کبریائی صرف اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے اور انسان پر لازم ہے کہ وہ صرف اور صرف اللہ کا بندہ بن جائے۔
جی ہاں ، جب اللہ تعالیٰ یکتا ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ، تو اس کے علاوہ ہر ایک پر لازم ہے کہ وہ یہ جان لے کہ وہ صفر ہے اور اس کے سامنے ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ۔
اس بارے میں حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہ اللہ کی دو اصطلاحات ہیں جن سے یہ مسئلہ زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور وہ دو اصطلاحیں یہ ہیں : ’’ اسمی معنی‘‘ اور’’ حرفی معنی‘‘ [1] اس لئے ہمیں انسان کو حرفی معنی سے دیکھنا چاہئے جبکہ صرف بذات خود وہ کسی معنی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ اسے کسی اور کلمے کے ساتھ جو ڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کوئی معنی دے سکے۔ اس طرح انسان کی بھی کوئی حقیقی قیمت اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب نہ ہو۔اس کے مقابلے میں اگر انسان اپنےآپ کو اسمی معنی کے لحاظ سے دیکھے اور اپنےآپ کو ایک مستقل شے سمجھے اور یہ گمان کرے کہ وہ فی نفسہ کسی معنی پر دلالت کرتا ہے تو اس وقت اس سے بڑا گمراہ اور فریب خوردہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج کل ’’ خود اعتمادی‘‘ جیسے جو مفاہیم عام ہوگئے ہیں ، اس وقت تک ان کی کوئی قیمت نہیں جب تک وہ اللہ پر اعتماد کے ذریعے مضبوط نہ کئے گئے ہوں ۔
دوسری جانب انسان کا ارادہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان کے لئے ایک تحفہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی مشیئت اور ارادے کے سائے کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔ اس لئے جب انسان اپنے جزوی ارادے سے کوئی کام کرنے کا عزم کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مشیئت اس کی مدد کرتی ہے۔پس جب انسان اپنےآپ کو اس آئینے میں دیکھتا ہے تو بہت سے عقدے حل ہوجاتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں دوسرے اقوال جیسے کہ فرعون نے کہا : ﴿ أَنَا رَبُّكُمُ الأَعْلَى ﴾ (النازعات:79) (میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں) یہ تکبر کےآئنیے کے سوا کچھ نہیں اور فرعون کا قول کھلم کھلا شرک اور کفر ہے اور انسان کے دل میں آنے والے یہ خیالات کہ ’’میں نے یہ کام کیا، میں نے یہ منصوبہ بندی کی ، میں نے امت کو اس مصیبت سے بچایا‘‘ ، یہ شرک خفی ہے اگر چہ ضمناً ہی کیوں نہ ہو اور یہ الوہیت کا دعوی ہوسکتا ہے جبکہ ’’انا‘‘ حقیقی معنی میں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے جبکہ انسان کے اندر یہ پیمائش کی ایک اکائی ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو اس لئے مرحمت فرما رکھی ہے کہ وہ اس کے ذریعے اللہ تعالی کے وجود اور اس کی صفات کا ادراک کرے اور ان کو سمجھے، مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے جزوی رویوں اور مشیئت سے اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیئت کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اپنے معمولی علم کے ذریعے اللہ تعالی کے علم محیط اور اپنی کوتاہ نظر سے اللہ تعالیٰ کی نظر مطلق کا ادراک کرسکے۔
دوسری جانب انسان کے خواص اور اس کی صفات، ناقص، محدود اور مقید ہیں جبکہ یہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے،محسوس کرنے اور ان کا ادراک کرنے کا ذریعہ ہیں۔ چنانچہ یہ فرمان الہٰی : ﴿وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلاَّ بِمَا شَاءَ﴾ (البقرۃ:255) (اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کر سکتے)انسان کی اسی محدودیت کی جانب اشارہ کررہا ہے کیونکہ کسی شے کا بیک وقت محیط اور محاط (احاطہ کرنے والا اور احاطہ کیا ہوا) ہونا ناممکن ہے۔ پس محیط اللہ تعالیٰ ہے جبکہ ہم ا ور ساری کائنات محاط ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے علم، ارادے، مشیئت اور قدرت سے ہر شے کو گھیر رکھا ہے۔ اس لئے جو شخص اس بارے میں اپنےآپ کو اس مقام پر کھڑا نہ کرسکے جہاں اس کو ہونا چاہئے ، تو وہ ایمان سے محروم ہوجائے گا اور اکثر اوقات لوگوں کے الحاد کے پیچھے ان کے فرعونی نظرئے کے علاوہ کوئی شے نہیں ہوتی جس کی بنیاد تکبر پر ہے۔
2۔ ظلم
ایمان سے روکنے والا دوسرا سبب سرکشی اور حد سے تجاوز ہے اور ان تمام سرکشوں اور ظالموں کے پیچھے کارفرما ہے جن کو خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا کیونکہ انہوں نے ہر کام کو اپنی طاقت اور قدرت کی جانب منسوب کیا ۔ قرآن کریم میں مذکور قارون اس کی واضح اور کھلی دلیل ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے قرآن کریم کہتا ہے : ﴿قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللهَ قَدْ أَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا﴾القصص:78)(بولا کہ یہ (مال) مجھے میتی دانش (کے زور) سے ملا ہے۔ کیا اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں ، ہلاک کر ڈالی ہیں) پس کتنے ہی ایسے طاقتور لوگ تھے کہ اگر وہ پہاڑوں کو اکھاڑنا چاہتے تو ایسا کرسکتے تھےمگر جب انہوں نے زیادتی کی اور سرکشی پر اترآئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا اور ان کو اسفل سافلین میں پھینک دیا ۔
3۔ نظر کے انحراف
انسان کے ا لحاد کا ایک سبب نظر کا انحراف ہے۔ اس لئے حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے نیت اورنظر کانہایت اہتمام کیا ہے۔ یہاں تک کہ آپ فرماتے ہیں کہ :’’ زندگی کے سفر کے چالیس سالوں اور طلب علم کے تیس سالوں کے دوران میں نے چار کلمات اور چار جملے حاصل کئے‘‘، [2] اور کلمات میں نیت اور نظر کو ذکر فرمایا کیونکہ واقعات کو سمجھنے اور ان کی تشریح کرنے میں نظر نہایت اہمیت کی حامل عامل ہے۔ اس لئے جو شخص اپنی نظر کا رخ نہیں بدل سکے گا اور اس پر قابو نہیں رکھ سکے گا وہ اس شے کو باریک بینی سے نہ دیکھ سکے گا جس کو دیکھنا چاہئے بلکہ ہوسکتا ہے کہ وہ بالکل دیکھ ہی نہ سکے اور اگر چہ اس کی تعلیم اور تحقیق کسی معین نقطے تک پہنچ بھی جائے تو بھی وہ گر پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی معرفت تک نہ پہنچ سکے گا کیونکہ نظر کی اصل یہ ہے کہ وہ نظرآنے والی چیز کو اسی طرح دیکھے جس طرح وہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اصل یہ ہے کہ کسی بھی چیز کو اس کی اصلیت کے مطابق دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ صحیح طرح سے دیکھا جائے اور اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ نظر کا مقصددیکھنا ہو ، مثلاً جو شخص بغیر کسی ہدف کے کتابوں سے بھرے کسی کتب خانے کو دیکھے گا تو وہ کتابوں کے رنگ اور ان کے نام بھی نہ دیکھ سکے گا ۔ اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ نظر ایک چیز ہے اور رویت ایک اور۔اس لئے ان دونوں چیزوں کوآپس میں خلط ملط نہ کیا جائے۔
قرآن کریم نے فرعون کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے جس سے اس کی نظر کا انحراف ظاہرہوتا ہے : ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الأَسْبَابَ * أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى﴾ (المومن:36-37)(اور فرعون نے کہا کہ ہامان میرے لئے ایک محل بناؤ تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) رستوں پر پہنچ جاؤں (یعنی) آسمانوں کے رستوں پر، پھر موسی کے اللہ کو دیکھ لوں ) اور ہمارے زمانے میں ایک منحرف نظر والے شخص نے بھی ایسا ہی کہاکہ :’’ میں سارے کرہ ارضی میں گھوم آیا مگر کہیں بھی خدا سے ملاقات نہ ہوئی‘‘ تو حضرت نجیب فاضل [3] نے اپنی گرجدارآواز میں یہ کہہ کر اسے خاموش کردیا کہ :’’ ارے احمق تمہیں یہ کس نے کہا کہ (نعوذ باللہ ) اللہ تعالیٰ فضا میں ایک بلبلہ ہے‘‘، اس لئے زمان ومکان اور مادہ سے پاک خالق عظیم کو اس طرح تلاش کرنا کہ گویا (نعوذ باللہ) وہ کوئی مادی چیز ہے،نظر کا انحراف ہے، اس لئے جو شخص اپنےآپ کو اس طرح تنور میں ڈالے گا وہ جتنا بھی گڑگڑائے ایمان تک نہ پہنچ سکے گا۔
4۔آباؤاجداد کی اندھی تقلید
آباؤاجداد کی اندھی تقلید بھی الحاد کا سبب ہے۔ قرآن کریم کی آیات نے مشرکین اور کفار کے اس موقف کے بارے میں کتنی زیادہ توجہ مبذول کرائی ہے ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا﴾ (البقرۃ:170)(اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہےکہ جو (کتاب) اللہ نے نازل فرمائی ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا) ساری تاریخ میں جتنے لوگوں نے بھی کفر کیا اور ایمان سے منہ موڑا، ا نہوں نے اپنےآباؤاجداد (کو رہنما) اور معبودان باطل بنائے اوران کی اندھی تقلید کرتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلے۔
ان پیروکاروں کا خیال ہے کہ ان کےآباواجداد سے پوچھ گچھ اور ان کا مواخذہ نہ ہوگا اگرچہ وہ کسی پتھر یا مٹھائی کے بت یا کسی درخت کی عبادت کیوں نہ کریں اور ان کا کسی بھی قولی اور فعلی غلطی پر مواخذہ ناممکن ہے جبکہ اس سوچ کا انجام خسارہ ہے اور انسان کی ایمان سے محرومی ہے۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا…
جو شخص گذشتہ باتوں پر غور کرے گا اسے الحاد اور انکار کی بنیاد کے لئے کوئی عقلی منطقی اور فکری ’’ٹیک‘‘ نہ مل سکے گی جبکہ الحاد کے مذکورہ عوامل کو ’’ٹیک ‘‘ کہنا بھی غلط ہے کیونکہ ٹیک کا مطلب کوئی گڑی ہوئی حقیقی چیز ہے حالانکہ ایمان نہ لانے والوں ک اعتماد ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جن کے بارے میں ان کو وہم ہوتا ہے کہ وہ ٹیک ہیں ۔ چنانچہ وہ ایسے کفر و الحاد میں آگے بڑھتے رہتے ہیں جس میں کسی بھی رخ سے کوئی بھی چیز نہیں ہوتی جس کا ان سے وعدہ کیا جائے۔ ایسے لوگ کسی عارضی شے کے ذریعے اپنےآپ کو تسلی دینے کو پسند کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان کے میدان میں نہ داخل ہونا عیش و عشرت اور ذمہ داری سے بھاگنے کا رستہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب بھی دین یا ایمان کا تذکرہ کیا جاتا ہے تو اس کے بعد ان کی تنفیذ یعنی ذمہ داریوں اور ایمان اور دین کے لوازم کی باری آتی ہے کیونکہ ایمان صرف زبان سے قول کا نام نہیں بلکہ اس کے ساتھ واجبات کو ادا کرنا اور منکرات سے بچنا اس کی ضروریات میں سے ہے۔ بالفاظ دیگر بات صرف ’’ آمنت‘‘(میں ایمان لایا) پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ اس کے بعد بہت سے اوامر کو ادا کرنا بھی لازمی ہوتا ہے جن کو ’’صالحات‘‘ (نیکیاں ) کہا جاتا ہے اور بہت سی برائیوں کو ترک کرنا پڑتا ہے جو ’’فحشاء،منکر اور بغی‘‘(بے حیائی، برائی اور حد سے تجاوز) میں شامل ہیں ۔ لہذا جس شخص کو یہ وہم ہوتا ہے کہ یہ امور زندگی سے لطف اندوز ہونے میں مانع ہوتے ہیں وہ ایمان کے میدان میں داخلے سے انکار کردیتا ہے۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی فرماتے ہیں : ’’ اس بدبخت کو معلوم نہیں کہ (اسی انکار کے ذریعے) اس نے اپنےآپ کو ایسی روحانی تنگی کا ہدف بنا دیا ہے جو اس جزوی تنگی سے کروڑوں درجے خوفناک اور سخت ہے جو اسے عبادت میں سستی کے وقت محسوس ہوتی تھی، بالکل اس شخص کی طرح جو مچھر کے کاٹنے سے بھاگے اور سانپ کے ڈسنے کا شکار ہوجائے‘‘۔ [4] (آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا)۔ یہ امور جو دنیا میں تسلی اور اطمینان کی مانند نظرآتے ہیں وہ آخرت میں انسان کو کوئی فائدہ اور نفع نہ دے سکیں گے۔
اگرچہ ایمان والے انکار تک پہنچانے والی ان ساری گھاٹیوں سے گزر کر ایمان کے باغ میں داخل ہوجائیں تو بھی ان میں سے ہر ایک ان کے لئے ہر وقت ایک خطرہ ہے کیونکہ جس طرح مذکورہ عوامل میدان عمل میں داخلے سے روکتے ہیں ، اسی طرح یہ ایمان سے کفر کی جانب پھر جانے کا سبب بھی بن سکتے ہیں (اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ امراض و علل آدمی کو ایمان کے میدان سے اس طرح نکال سکتے ہیں کہ اسے معلوم بھی نہیں ہوسکتا۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ امراض اس کے احساسات اور سوچ پر چھا جاتے ہیں اور وجدان کو اپنا تابع کرتے ہیں تو اس میں دراڑیں اور سوراخ بنادیتے ہیں ۔ مثلاً رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ (مسلم، الایمان:147) (جس شخص کے دل میں ذرہ بھر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا)۔ یہ حدیث ان مہلک جراثیم میں سے ایک کی طرف توجہ مبذول کروا رہی ہے۔ اسی وجہ سے انسان کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے،اپنی آنکھیں کھولے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی کما حقہ قدر کرے،اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اوریہ بات کبھی بھی نہ بھولے کہ ان نعمتوں میں سے کچھ ’’استدراج ‘‘ کا سبب بھی ہوسکتی ہے۔
[1] ۔نحو میں اسم اور صرف کی تعریف درج ذیل ہیں:
اسم: وہ کلمہ ہے جو اپنے اندر کسی معنی پر دلالت کرے اور حرف : وہ کلمہ ہے جو اپنے علاوہ دیگر کلمات میں کسی معنی پر دلالت کرے یعنی اس کا معنی اس وقت تک مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوتا جب تک وہ کسی اور کلمے سے نہ ملے۔
حضرت نورسی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کو لازمی طور پر حرفی معنی اور حق سبحانہ تعالیٰ کے حساب سے دیکھنا چاہئے اور کائنات کو اسمی معنی یعنی اسباب کے حساب سے دیکھنا غلط ہے کیونکہ ہر شے کے دو رخ ہیں: ایک رخ اللہ تعالیٰ کی جانب اور دوسرا کائنات کی طرف۔ پس کائنات کی جانب حرفی معنی اور اس اسمی معنی کے عنوان کے طور پر دیکھنا چاہئے جس کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہے(المثنوی العربی النوری: قطرۃ بن بحرالتوحید)
[2] ۔ المثنوی العربی النوری: قطرۃ من بحرالتوحید
[3] ۔ نجیف فاضل ایک ترکفی مفکر، شاعر اور لکھاری ہیں(1983-1904)
[4] اللمعات، دوسرا المعہ،پہلا نکتہ
- Created on .