ایمان کی بشارتیں
سوال: وہ کون سی بھلائیاں ہیں جن کی خوشخبری ایمان دیتا ہے؟ کیا انسان کی جانب سے ان بھلائیوں کو اپنے وجدان میں محسوس کرنے کے مختلف مراتب اور مقامات ہیں ؟
جواب: آج تک دنیا اور آخرت میں ایمان کی بشارتوں اور نجات دینے والے امور کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے جن کا منبع ایمان ہے۔ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی اپنی کتابوں میں مختلف مقامات پر اس موضوع کی تفصیل بیان کرتے ہیں ۔ اس بارے میں جو کہا اور لکھا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان انسان کو زندگی اور کائنات کے مطالعے اور اس کو صحیح طور پر پرھنے کے لئے بڑی گہری اور وسیع نظری عطا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ایک مومن انسان کائنات پر نظر ڈالتا ہے تو وہ ہر شے کو اپنا گہرا دوست اور مخلص رفیق سمجھتا ہے۔ اس لئے رستے اورساتھی دونوں کی طرف سے بے خوف ہوجاتا ہے اسی طرح وہ ایمان سے اپنی زندگی پر پڑنے والی روشنی میں مستقبل اور ماضی دونوں کو روشن دیکھتا ہے۔ اس لئے ماضی اس کی نظر میں خوفناک مقبرہ ہوتا ہے اورنہ مستقبل اندھیرا گھڑا۔
جی ہاں ، انسان کے دل میں مستقبل کے بارے میں پریشانی اور اندیشہ ایک فطری بات ہے لیکن وہ اس پر ایمان سے پھوٹنے والی روشنی اور امید کے ذریعےقابو پا لیتا ہے بلکہ جس شخص کے ایمان کی بنیاد درست ہوتی ہے وہ اس بات کو سمجھتا ہے کہ یہ اندیشے ایسے نہیں جن کا کوئی مقابلہ نہ ہو۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو ان اندیشوں سے پیدا ہونے والے خوف اور غم سے نکلنے پر قادر پاتا ہے۔ اس لئے کیا انسان برزخ اور قبر کے اندھیرے سے ڈرے گا؟ کیونکہ اس کا ایمان اس کے آگے ہوگا، یا اسے پل صراط کا خوف ہوگا؟ حالانکہ اس کا ایمان اسے عبور کرنے کے لئے اس کا ’’براق‘‘ ہے، یا اسے عاقبت کا خوف ہوگا؟ جبکہ ایمان جنت تک رسائی کا پرامن اور مضبوط ترین رستہ ہے، یا اسے سزا و جزا کا خوف ہوگا؟ تو اسے اس سے بھی نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ ایمان جہنم کے سامنے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ جی ہاں ، ایسا لگتا ہے کہ ایمان ایک ایسا رہنما ہے جو انسان کے طویل سفر میں رستے کی دونوں جانب کھڑا ہوکر اسے امن کی خوشخبری دے کر اسے مطمئن کرتا ہے۔
موت کی حقیقت
ایمان کے اندر (جیسے کہ حضرت بدیع الزمان فرماتے ہیں ) جنت کے درخت ’’طوبیٰ‘‘ کی روحانی گٹھلی ہے۔ اس لئے مومن دنیا میں ایسی زندگی گزارتا ہے جو طمانیت سے بھری ہوتی ہے کیونکہ اس کا ایمان اسے فنا کے خوف اور معدوم ہونے کے غم سے نجات دلاتا ہے۔ اس مسئلے کے بارے میں جو بھی کہا جائے یا جس طرح بھی اسے دیکھا جائے، مگر حقیقت یہ ہے کہ غیر مومن کے لئے ناممکن ہے کہ وہ فنا کے خوف کو محو کرکے اپنے عقل اور دل سے اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکے بلکہ یہ خوف اور اندیشے اسے بار بار تکلیف سے دوچار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ دنیامیں رہتے ہوئے جہنم میں جا پڑتا ہے اور ایسے انسان کے لئے عام طور پر ان مشکلات سے نکلنے کا ایک ہی رستہ ہوتا ہے کہ وہ لہو لعب اور کھیل کود میں غرق ہوجائے۔ پس وہ کبھی اپنے جسم کو نشہ آور چیزوں کے حوالے کرتا ہے اور کبھی جسم اور بدن کی خواہشات میں جا پڑتا ہے اور کبھی نشے کا عادی ہوجاتا ہے کہ شاید اس طرح عقیدۂ فنا ،عدم، تعفن اور کہنگی کی وجہ سے اپنی روح میں پیدا ہونے والی بے چینی سے نکل سکے۔ اس طرح وہ بہیمتہ کی فضول زندگی گزارتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ عاقبت کے بار ے میں سوچے اورنہ اسے محسوس کرے۔ اگر آپ چاہیں تو اس کو ’’ آدمی کی جانب سے مقناطیسی تنویم کی کوشش‘‘ کا نام دے سکتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس کیونکہ یہ ساری باتیں انسانوں کو اگر وقتی طور پر تسلی اور اطمینان دے دیں تو بھی درحقیقت ان کوششوں کا نتیجہ صفر ہے جیسے کہ شتر مرغ شکاری سے بچنے کے لئے سر ریت میں چھپا لیتا ہے مگر اسے اس سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی انسان بھی اس قسم کے لہو ولعب میں عاقبت کے اندیشوں کو ختم کرتے کے لئے گرتا ہے مگر افسوس اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر انسان کو ان تمام اندیشوں سے بچانے اور اسے ساحل سلامتی تک پہنچانے والی کوئی چیز ہے تو وہ صرف ایمان ہے جو محفوظ سفینہ، مسیحا، رہنما اور انسان کی مضبوط امید کا سرچشمہ ہے۔
اس لئے انسان جتنے بھی گناہ کرلے، اگر اس کے دل میں ایمان ہے تو عاقبت کے بارے میں اس کی امید کبھی منقطع نہیں ہوتی۔ یہ ایمان کے جوہر میں راسخ ایک حقیقت ہے کیونکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ جس شخص کے دل میں زرہ بھر ایمان ہو وہ جتنے بھی گناہ کرلے، جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا، اس لئے جس شخص کے دل میں ایمان ہوگا تو اس کا حسن و جمال بھی ہوگا کیونکہ اس کے ہاں گناہ اصل نہیں بلکہ عارض ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان سے اس طرح کی کوئی شے وجود میں نہیں آتی بلکہ گناہ ا نسان کے اس تذبذب اور اضطراب سے صادر ہوتے ہیں جہاں ایمان انسان سے ثابت قدمی کا تقاضا کرتا ہے (اور اس کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں) ۔ مطلب یہ ہے کہ گناہوں کے جراثیم انسان کے اندر اس کے ایمان میں پیدا ہونے والی درزوں سے داخل ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں کفر ایسی چیز ہے کہ گناہ اور مارصی خود اس کی ماہیت سے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ یہی کفر کی بنیاد ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کے دل میں ذرہ بھر ایمان ہوگا وہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بالاتفاق جنت میں داخل ہوگا۔ یعنی یہاں تک کہ اگر کسی نے زنا کیا یا چوری کی، کوئی اور گناہ کیا(اللہ تعالی ہمیں محفوظ فرمائے) تو بھی اگر اس کے دل میں ایمان ہوا تو وہ آخرت میں ابدی سعادت سے لطف اندوز ہوگا۔ پس اگر وہ توبہ کرے اوراللہ اس کی توبہ قبول فرمائے تو بغیر عذاب کے جنت میں داخل ہوجائے گا۔ یہ سب باتیں انسان کے لئے ایمان کی خوشخبریاں ہیں اور کوئی چیز ان کے قائم مقام یا برابر نہیں ہوسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایمان انسان کے لئے امید کا بہت بڑا سرچشمہ ہے اور اس عظیم اور سرمدی سرچشمے کی بدولت آدمی اپنی تنگ دنیا سے نکل کر ابدی زندگی کی جمالیات اور اچھائیوں میں غوطہ زن ہوسکتا ہے۔
سچی اخوت کا آخرت پر اثر
ایمان مومن کو ایسا انسان بناتا ہے جس سے اس کا ماحول بلکہ پورے عالم میں امن کی شعاعیں پھیلتی ہیں اوراس کی تنگ دنیا کو ایک عالمی دنیا میں بدل دیتا ہے،چنانچہ وہ کائنات کو اخوت کی آغوش سمجھتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ ساری مخلوق کو ایک طرح سے اپنا بھائی سمجھتا ہے کیونکہ مسلمان اس کے دینی بھائی ہیں ، غیر مسلم انسانیت میں اس کے بھائی ہیں جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔ پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ مومن کی اپنے دینی بھائیوں کی جانب نظر میں زیادہ خصوصیت ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی رائے اور شعور میں شریک ہوتے ہیں اوروہ سمجھتا ہے کہ وہ عالم برزخ، حشر، حساب کتاب اور پل صراط سے گزرتے ہوئے بھی ایک ساتھ ہوں گے۔
اس لئے جس شخص کے دل میں یہ ایمان ہوگا وہ اپنے تعلقات عارضی اور فانی منعت یا یہاں اور وہاں کی مصلحت کی بنیاد پر قائم نہیں کرے گا بلکہ اس کی عادت یہ ہوگی کہ وہ ا پنے ارد گردکے لوگوں سے سرمدی اور ا خروی تعلق قائم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس اخروی تعلق کی بڑی قدر و قیمت ہے کیونکہ یہ انسان کو حق تعالیٰ کے قریب کرتا ہے جس کے بعداسے دارین میں توفیق الہٰی مل جاتی ہے اوریہ ایمان کی ایک اور بشارت ہے۔ اس کی روشنی میں آپ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کو سمجھ سکتے ہیں کہ :’’ يَدُ اللّٰهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ‘‘ (الترمذی، الفتن:17) (اللہ تعالی کی مدد جماعت کے ساتھ ہے) اس لئے اللہ تعالیٰ ایک ساتھ چلنے والوں کو ہر دنیوی شر سے محفوظ رکھتا ہے اوران کے منصوبوں کو کامیاب فرما کر احسان فرماتا ہے اور آخرت میں بھی طرح طرح کی ابدی کامیابی سے سرفراز فرمائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ اجتماعی کام کے کئی دنیوی اور اخروی فضائل ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ﴾ (ابراہیم :48)، (جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی ) پس ذرات سے لے کر کہکشائوں تک کوئی بھی ایسی چیز نہ ہوگی جو قیامت میں تبدیل نہ ہو، اس لئے انسان کے جذبات اور افکار ایک اور ماہیت اختیار کرلیں گے اور اس نے جو بھی بھلائی آگے بھیجی ہوگی اس کے اور دنیا میں اس کے بھائی چارے کے آخرت میں کیر رخ ہوں گے۔ اس لئے معلوم نہیں کہ آدمی آخرت میں کتنی لذتوں سے لطف اندوز ہوگا اور نہ معلوم اس کے اپنی مسلمان بھائیوں سے تعلق پر کس قدر محبت چھائی ہوگی بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کے ہاں جنت کی نعمتیں اور اپنے بھائیوں سے ملاقات کے وقت ان کی چہروں کی رونق پر نظر یکساں ہوجائیں کیونکہ ایک حدیث قدسی میں آیا ہے: ’’ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ‘‘ (البخاری، بدءالحق:8) (میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ چیزیں بنائی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اورنہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کا خیال گزرا) ۔ اس لئے جنت میں تصورات سے بڑھ کر نعمتیں ہوں گی مگر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو وہ نعمتیں عطا فرمائے گا جو کسی دل میں بھی نہ آئی ہوں گی، یہ تمہاری وہ نیکیاں ہوں گی جو تم نے دنیا میں اپنے سے آگے بھیجی تھیں جو جنت میں تمہیں نعمتیں بن کر نظر آئیں گی۔
سوال کے دوسرے جواب میں درج ذیل مسائل اختصار کے ساتھ پیش خدمت ہیں :
ہر انسان ایمان کے ان محاسن کو اپنے ایمان کی وسعت اور گہرائی کے مطابق چکھتا ہے ۔ اس لئے کچھ لوگ ایسے میں جو ان کو صرف نظری طور پر محسوس کرتے ہیں اور ان کے ایمان کے حقائق کے بارے میں وہی باتیں کافی ہوتی ہیں جو انہوں نے پرائمری میں سیکھی ہوتی ہیں لیکن یہ صرف اور رستے کا آغاز ہے ۔ د وسرا آدمی اپنی مجرومعلومات کو علم اور غور وفکر کے ذریعے دلائل فراہم کرتا ہے اوران معلومات کو مضبوط قواعد کی جانب لے جاتا ہے اور عمل اور عبادت کے ذریعے ان کو سمجھ کر معرفت میں بدل دیتا ہے۔ یعنی نظری علم سے علم الیقین اور اس عین الیقین تک جاتا ہے جہاں اس پر احسان کا راز ظاہر ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسے اٹھتے بیٹھتے یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے اور وہ اپنی زندگی اس طرح بسر کرتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس حالت کو حیوانیت سے نکلنے ،جسمانیت سے بلند ہونے، بدن کے قیدخانے سے آزاد ہونے اور قلبی اور روحانی زندگی کے مرتبے تک پہنچنے کا نام دے سکتے ہیں ۔ اس مقام پر ہر شے زیادہ کشادہ ، زیادہ واضح اور اپنے اندر موجود مخصوص سحر انگیز محاسن کی وجہ سے زیادہ چمکدارنظر آتی ہے ۔ اس مرتبے پر پہنچ کر آنکھ دنیوی اور جسمانی زندگی کو حقیر سمجھنے لگتی ہے کیونکہ دنیا میں آدمی کا وجود صرف اور صرف اس لئے ہے کہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کرے جو اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے اور جب سبکدوشی کا حکم آئے گا تو اسے ایک اور خوشی نصیب ہوگی اور موت کا استقبال اس طرح کرے گا جس طرح روزہ دار ا فطار کا کرتا ہے اور ان بھلائیوں کے ہمراہ اپنے رب کی ملاقات کے لئے آخرت کی جانب کوچ کرجائے گا جن کی ضمانت اس کے ایمان نے دی تھی۔
- Created on .