عصر حاضر اور اللہ تعالیٰ تک رسائی کے راستے
سوال: اتحاد اور تعاون کے رخ سے ہمارے اس زمانے میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور دلوں کو حق تعالیٰ سے جوڑنے کی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش بھی جاری رہتی ہے ؟
جواب: عصر حاضر تک ایسے بہت سے طریقے اور مناہج ظاہر ہو چکے ہیں جن کا مقصد روح اور دین مبین اسلا م کی حقیقت اور جوہر کو ظاہر کیا جائے مثلاً نقشبندی طریقہ کا خلاصہ درج ذیل باتوں میں بیان کیا جا سکتا ہے :
طریقہ ٔ نقشبندیہ کا کہنا ہے کہ چار چیزوں کو ترک کرنا لازم ہے :’’دنیا،عقبی ٰاور وجود کو ترک کرنا اور خود ترک کو بھی ترک کرنا‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ نقشبندی طریقہ میں چار چیزوں کو چھوڑنا لازم ہے ۔پہلی چیز دنیا اور عقبیٰ کو چھوڑ دینا ،یعنی جس طرح انسان پر لازم ہے کہ وہ دنیا کی دلچسپ خوبصورتیوں کو چھوڑ دے ،اسی طرح اس پر لازم ہے کہ بندگی کے دوران جنت میں داخل ہونا بھی اس کا بنیادی مقصد نہیں ہونا چاہیے ،کیونکہ عبودیت کا اصل سبب اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ،جبکہ اس کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے ۔اس اعتبار سے بندے پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی خوشنودی کے پیچھے حرکت کرے اور اس بنیاد پر اپنی زندگی کا تانا بانا تیار کرے اور ایسا نقش بنائے جس سے فرشتوں کو بھی حیرت اور تعجب ہو۔
علاوہ ازیں اس رستے کے سالک پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی چھوڑ دے اور اپنی ان خواہشات اور اہواء کے مقابلے میں فیصلہ کن موقف اختیار کرے جو کبھی سیر نہیں ہوتیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسے خلق خدا سے بھی بالکل بے نیاز ہونا چاہیے اور آخر میں اسے ترک کی ان تمام انواع کو بھی ترک کر کےخود ترک کی سوچ کو بھی اپنے دماغ سے محو کر دینا چاہیے ۔مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں یہ خیال بھی نہ آئے کہ ’’اس نے اس چیز کو چھوڑا اور اُس چیز کو چھوڑا‘‘اسے ترک کے نام سے دی جانے والی قربانیوں کے سبب اپنے اوپر مغرور نہیں ہونا چاہیے ۔اگر کبھی کبھا ر اس کے خیال میں یہ بات آجائے کہ میں تو ترک کی فلاں فلاں قسم کا سپوت ہوں ،تو اس پر لازم ہے کہ فوراً توبہ واستغفار کرے ۔
زمانۂ انانیت کی خصوصیات
ہمارے اس زمانے میں انانیت کا بڑا چرچا ہے اور لوگ تمام حالات میں اس کے زیر اثر ہیں ۔اس لئے دور حاضر میں اس طرح کا ’’ترک‘‘ ممکن نہیں ۔اس لئے حضرت بدیع الزمان نورسی ’’مکتوبات‘‘میں اس مسٔلے کو ایک اور شکل میں لیتے ہیں :
’’اے عزیز !عجز کے رستے میں چار چیزیں لازم ہیں :
فقر مطلق، عجز مطلق،شکر مطلق اور شوق مطلق ‘‘
آپ یہ کہنے کے بعد دور حاضر میں ان چار اصولوں کو اپنانے کی شدید ضرورت کو بیان فرماتے ہیں کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اول اس بات کا ادراک کرے کہ وہ عاجز مطلق ہے اور اس کا اعتراف بھی کرے اور یہ سمجھے کہ وہ اس وقت تک مطلقاً کوئی کام کر ہی نہیں سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اس کی اجازت نہ دے۔اس طرح وہ اپنے نفس کےفقر کا بھی اعتراف کرے اور ہمیشہ یہ سمجھے کہ اس کے بس میں جو کچھ بھی ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں اور وسائل پر جو اللہ تعالیٰ نے اس کی عاجزی اور فقر کے باوجود عنایت فرمائی ہیں شکر اور شوق سے گڑگڑائے اور اپنی تمام حرکات وسکنات کے ذریعے اللہ کا شکر ادا کرے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہیجان اور عشق اور نہ سیر ہونے والے شوق اور رغبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے نام کو دلوں تک پہنچانے کےلئے بغیر رکے،سعی اور کوشش کرتا رہے ۔حضرت بدیع الزمان چھبیسویں کلمہ کے ذیل میں اپنے اس طریقے کی چار بنیادیں ذکر کرتے ہیں جو یہ ہیں :عاجزی ، فقر،شفقت اور تفکر جبکہ یہ بات اس طریقے کی شش جہات کو واضح کرتی ہے ۔
میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت بدیع الزمان کی باتیں عصر حاضر کے انسان کی عقل اور اس کے دل کو مطمئن کرتی ہیں جبکہ یہ باتیں انتہائی اہم ہیں جن کو جاننا اور ان پر غور کرنا چاہیے ۔حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے ان کے آثار سے استفادہ کیا ہے ان میں سے بہت سے ان کے ممنون اور احسان مند ہیں کیونکہ آپ نے کفر وزندقہ کے طوفانوں کے مقابلے میں دلوں کو حقیقت الہٰیہ کی تلقین کی اور بار دگرآنحضرتﷺ کے نام نامی کے پرچم کو دلوں کے اوپر لہرایا اور عقلوں کے سامنے حشر اور نشر کے منظر کو یوں پیش فرمایا کہ گویا وہ آنکھوں کے سامنے ہے ۔درحقیقت شکر کے ان جذبات کا اظہار جو مختلف بیانات اور تقریروں سے ہوتا ہے ،ایک فريضہ ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ :’’جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ‘‘۔(الترمذی،البر،۳۵،ابوداؤد الدوب،۱۱)اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو سب سے پہلے اس نعمت کا احساس اور شکر کرنا چاہئے جو اس کے پاس ہے ۔اس لئے یہ بات فطر ی ہے کہ یہ لوگ دوسروں کے مقابلے میں (حضرت بدیع الزمان کا)زیادہ شکر یہ ادا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ، رسول اکرمﷺ اور حشر نشر کو جاننے کی نعمت ان کو اس شخصیت کے ہاتھ سے ملی ہے ،لیکن اس کے باوجود اس طرح کا احترام جماعتی انانیت کا سبب نہیں ہونا چاہئےاور مبالغہ آمیز آراء کے رستہ نہیں کھولنا چاہیے کیونکہ اسلام کی عظیم شاہراہ کے اندر بہت سی مختلف پگڈنڈیاں ہیں جن پر بہت سے لوگ چلتے ہیں اوران کے ذریعے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے ساحل سلامتی تک پہنچ کر اس کی خوشنودی سے سرفراز ہو چکے ہیں ۔اس لیے اس رخ سے یہ مسئلہ شکر اور احسانمندی کے جذبات کے اعتبار سےآگے بڑھ کر فخر ،پروپیگنڈے اور اشتہار بازی تک کبھی نہ جانا چاہئے اور نہ نفس کی محبت سے پیدا ہونے والی فکری تنگی میں داخل ہونا چاہئے ۔جی ہاں،وسائل اور مقاصد کو آپس میں گڈ مڈ نہیں کرنا چاہئے اور یہ بات کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئےکہ اصل مقصد اللہ کی رضا کا حصول خواہ ہے اس کا راستہ کچھ بھی ہو ۔
ہجرت کے ذریعے اللہ تک پہنچنے والی روحیں
حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر عالم کے گوشے گوشے میں اللہ تعالیٰ کے اسم جلیل کو پہنچانے کے لئے اپنے گھروں کو خیرباد کہا ، اپنے وطن کو چھوڑ دئے اور اس مقصد کےلئے عازم سفر ہوئے ،وہ اعلاء کلمۃ اللہ کے ذریعے ایک مختلف رستے پر چل رہے ہیں ،میں ایک ایسی چیز بیان کرنا چاہتا ہوں جو اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ صراط مستقیم پر ہیں وہ یہ کہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بار آنحضرت نبی کریم ﷺ کی کبھی خواب میں اورکبھی واقع میں زیارت ہوئی اور آپ علیہ السلام نے بشارت دی ۔مثلاً ایک صاحب کہتے ہیں کہ’’ایک مبارک رات ہم لوگ بیٹھے اور صبح تک نبی کریم ﷺ پر ہزاروں بار درود وسلام پڑھا ۔ اس کے بعد سید الانام ﷺ کی روح مبارک ظاہر ہوئی اور فرمایا: ’’میں اس خدمت میں تمہاری تائید کرتی ہوں ‘‘۔ ایک اور دوست ایک اور واقعے کا تذکرہ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کا مشاہدہ کیا ،’’بہت سے سانپ احباب پر حملہ آور ہو رہے تھے اور وہ ان پر غلبہ پانے میں ناکام ہو رہے تھے کہ اچانک دروازہ کھلا اور کچھ نورانی مخلوقات آئیں جن میں آنحضرت سرفہرست تھے اور آپ ﷺ کے دست مبارک میں آپ ﷺ کا عصا مبارک بھی تھا ۔چنانچہ آپ علیہ السلام نے ان سانپوں کے سروں پر ایک ضر ب لگانے کے بعد فرمایا :’’ڈرنے کی ضرورت نہیں ہم تمہارے مددگار ہیں ‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ میں اس قسم کی غیر موضوعی چیزیں بیان کرنے سے شرماتا ہوں اور میرا دل تنگ ہو جاتا ہے لیکن اس نوع کے مشاہدات کو بیان کرنے میں بھی بعض اوقات میں ایک فائدہ سمجھتا ہوں کیونکہ اس مسئلے کا تعلق میرے ساتھ نہیں ۔دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ میں نے خدمت کے اس دائرے کے رخ سے جس میں ہم مصروف کار ہیں ،اپنے نفس کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بس میں ہی دیکھا ہے کہ:’’اگر میں اپنے اس مرتبے کو اس کا حق دے سکتا اور اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے وسائل اور مواقع کو اچھی طرح استعمال میں لاتا ،تو یہ خدمت زیادہ تیز شکل میں آگے بڑھ سکتی تھی اور اگر یہ زیادہ اخلاص کے حامل لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ، تو زیادہ اہمیت کے درجے کام ہو سکتے تھے‘‘۔علاوہ ازیں ان جیسے مشاہدات کو ان مٹھائیوں کی طرح سمجھنا چاہئے جو بچوں کو حوصلہ افزائی اور ان میں امید پیدا کرنے کے لئے دی جاتی ہیں ورنہ حقیقت کے طلبگار سچے انسان کے لئے لازم ہے کہ وہ ایسی کوئی چیز قطعاً طلب نہ کرے ۔یہاں تک کہ میں جو تم میں سب سے زیادہ گناہگار ہوں یہ کہاکرتا ہوں:’’ یا اللہ! ہمیں ایسا نہ بنا کہ ہم اس دنیا میں وہ نعمتیں ختم کر لیں جو تو ہمیں آخرت میں دے گا !یا اللہ ! میں اس آیت کریمہ کے تھپڑسے محفوظ فرما کہ:} أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا{ [الاحقاف20]( تم اپنی لذت کی چیزیں اپنی دنیوی زندگی میں حاصل کر چکے)۔لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اس قسم کے واقعات کو مشکل اور سخت حالات میں روح کی تقویت کےلئے ااہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں اور وہ انہیں تائید نبوی سمجھتے ہیں تو ان کو بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔
دوسری جانب اس مثالی فکر کے حامل مہاجرین کو جہاں جاتے ہیں قبول کر لیا جاتا ہے حالانکہ وہاں بہت سے ایسے اسلام دشمن حلقے موجود ہیں جو دلوں تک دین اسلام کی تبلیغ کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایسے میں ان واقعات کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی تائید سمجھنا چاہئے ۔
ان لوگوں کی مختلف جغرافیائی علاقوں میں کامیابی ،اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کی تائید ایک اور نشانی سمجھنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں نے عالمگیریت کے اس زمانے میں مختلف تہذیبوں اور مختلف ثقافتوں کے حامل لوگوں کے بیچ رہنے کےلئے کوئی تربیت حاصل نہیں کی ۔اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ جو خدمات انجام دی جا چکی ہیں وہ مراد الٰہی کے موافق ہیں کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے کے بعد کسی بھی زمانے میں اس طرح کی آسانیاں پیدا نہیں ہوئیں ۔
جی ہاں ، دنیا کے گوشے گوشے میں حق اور حقیقت کی تبلیغ کےلئے ان لوگوں کا ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کوشش کرنا ،حق کی جانب سفر کی ایک بندرگاہ اور خوشی کا ایک ذریعہ ہے ۔یہ وہی لوگ ہیں جو ایک بلند اور مثالی سوچ کی خاطر تواضع ،ندامت ،ذات کے انکار اور ان اصولوں :عاجزی ، فکر،شکر،شوق ،تفکراور شفقت کی بنیاد پر چلے ہیں ۔
حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام ایمان والے دلوں کی منزل ہے ،انسان اس منزل کی طرف رواں دواں ہیں اور رستے ،سانسوں کی تعداد کے برابر ہیں ۔اس بنا پر ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر اس شخص کی کوشش کا احترام کریں جو اعلاء کلمۃ اللہ کےلئے ہے اور اللہ کے حضورگڑگڑائیں اور سب کےلئے توفیق کی دعا کریں ۔
- Created on .