خلوص نیت اور خود احتسابی کا حساس محمد فتح اللہ گولن
سوال: اپنے ارادوں میں خلوص نیت برقرار رکھنے کے سلسلے میں ہمیں کن باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے؟
جواب: رضائے الہیٰ کے حصول کے لیےبہت ضروری ہے کہ انسان جو بھی عمل کرے خلوصِ نیت کے ساتھ کرے کیونکہ اگر اعمال ایک جسم کی مانند ہیں تو خلوص اس کی روح کی طرح ہے۔ اگر عمل پرندے کے ایک پرکی مانند ہےتو خلوص اس کا دوسرا پر ۔ نہ تو جسم ایک روح کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے اورنہ ہی ایک پر دوسرے کے بغیر کام کرسکتاہے۔ خلوص نیت سے کہاگیاایک لفظ یا ایک عمل اللہ تعالی کی نگاہ میں اس قدر قیمتی ہوتا ہےکہ فرشتے اس لفظ کو اپنے منہ میں بھر لیتے اور اپنی روزمرہ دعاوں میں شامل کرلیتے ہیں۔ پاکیزہ روحیں اس کا ذکر یوں کرتی رہتی ہیں کہ گویا یہ اس خدائےبزرگ و برتر کے الفاظ ہوں۔ اگر ایک شخص کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اس کے دل کی سچی آواز ہوں تو یہ ایک زبان سے دوسری زبان سے چلتے ہوئے اس مقدس دائرے (حظیرۃ القدس )تک پہنچ جاتے ہیں۔مزید یہ جاننا بھی ضروری ہےکہ اگر یہ الفاظ خلوص نیت کے ساتھ ادا کیے گئے ہوں ۔ لوگوں کی یاداشت میں رہیں تو اس شخص کے نامہ اعمال میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہتاہے۔ چنانچہ ادا کیے جانے والا ہر لفظ بار بار ادا کیے جانے کی وجہ سے لامتناہی بن جاتا ہے۔
ریاکار: ریا کاری کے باعث اچھے اور نیک اعمال کو برباد کرنا ۔
تاہم اگر کوئی شخص اپنی آواز کے اتار چڑھاو ،چہرے کے تاثرات اور دیگر ریا کارانہ رویوں کے ذریعے اپنی ذات کو اہمیت دیتا ہے تو ایسا شخص فتح کے میدان میں شکست خوردہ بن جاتا ہے نتیجتاََ عظیم تر ثواب سےمحروم رہ جاتا ہے۔ مثا ل کے طور پر پنجگانہ نمازیں عظیم تر عبادت کی قسم ہیں کہ جو ایک شخص کے سفر کو لامتناہی بلندیوں پر لے جاتی ہے رکوع اور سجود کرتے ہوئے اور رکوع سے بلند ہوتے وقت اللہ تعالی کی عظمت بیان کرنا ایک شاندار عمل ہے۔ نماز اچھے اور نیک اعمال کی ایک شاندار صورت ہے ۔ تاہم اگر ایک ایسی سوچ دل میں آجائے ’’ چلودوسرے بھی سن لیں کہ میں رکوع اور سجدے کی حالت کس طرح سے اللہ کی عظمت بیان کرتا ہوں‘‘۔ اس صورت میں تو خدا کی عظمت بیان کرنے کاعمل برباد ہوجائے گا۔ لفظ مردہ ہوجایں گے اور عبادت کا خوبصورت عمل ایک ایسے جسم میں تبدیل ہوجائے گاکہ جس کی کوئی روح نہ ہو۔ ایک ایسا عنوان بن جائے گا جو مفہوم سے عاری ہو۔ اگر کسی شخص کے دل میں دکھاوے کا ذرہ برابربھی عنصرموجود ہو تو وہ شخص الفاظ کی روح کو کھو بیٹھتا ہے ۔ آپ عبادت کے تمام اراکین ،مثال کے طور پر پہلی اور دوسری اذان دیتے وقت نماز کے دوران تلاوت کرنے اور نماز کے فورا ً بعد تلاوت اور دعاوں کو اس پس منظر میں پرکھ سکتے ہیں ۔تاہم اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اپنی باطنی آواز، قرآن کی موسیقیت کو ہم آہنگ کرنا اور نماز کے دوران خود کو اس دھارے میں فطری طور پر چھوڑ دینا اور اپنی آواز کی صلاحتیوں سے دکھاوے کا مظاہر ہ کرتے ہوئے دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایسا شخص جو اپنے اعمال میں اپنی ذات کو شامل کرتا ہے،ایک طرح سے اللہ تعالی کی ملکیت کی چیزوں میں سے ایک حصہ اپنے لیے مختص کرلیتا ہے۔جس کا تناسب اسکی ریا کاری پر منحصر ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایک پرندے کے پر کاٹ دینے کی سی ہے جس کے باعث وہ اعمال صالح کی لامتناہی بلندیوں پر پہنچنے کے قابل نہیں رہتا۔
چنانچہ ہر شخص کو اپنے اعمال میں اخلاص کا جائزہ لینا چاہے ۔ ایک منفی مثا ل نہ لینے کی شرط کے ساتھ ہرشخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ظاہری طور پر سادہ نظر آئے ۔اس کا مطلب ہے کہ ایک شخص کو دکھاوے سے عاری اور سادہ سی جھونپڑی کے مانند ہونا چاہیے لیکن اسےاپنے اندر کی دنیا کے لحاظ سے عظیم تر محلات سے زیادہ شاندار ہوناچاہیے۔
خود احتسابی بطور ڈھال
مومنین کو اپنے آپ کو کمتر خیال کرتے ہوئے کہنا چاہیے :’’کتنی حیرت کی بات ہے۔جب میں اپنی اندرونی دنیا پر نظر ڈالتا ہوں تو خود کو ایک ایسا شخص سمجھتا ہوں جو انسانیت کے درجے سے گر کر جانوروں کی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن اللہ اپنی رحمت کے صدقے میں مجھے ابھی تک انسانی صورت میں زندگی گزارنے دے رہا ہے۔‘‘
اللہ کی راہ میں کی جانے والی خدمات میں اپنے حصے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسے کہنا چاہیے:’’ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے ملنے والے مواقع کو بہترین انداز میں استعمال کر سکتا تھا ۔اس طرح میں ایمان کی سچائیوں کو دوسرے لوگوں تک بیان کر سکتا تھا مگر میں اپنے رب کی خاطر ان مواقع کو صحیح انداز میں استعمال نہ کر پایا۔ میں نے انہیں ضائع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں وہ قابلِ مذمت انسان ہوں جو اسلام اور قران سے کماحقہ مخلص نہ رہا۔ مجھے حیرت ہے کہ میں پتھر کی صورت میں کیونکر تبدیل نہ کر دیا گیا۔‘‘
مومنین کو اپنے نفس کو قابو میں رکھنا چاہیے اوراس کا گلادباتے رہنا چاہیے۔ خود کو اس قدر کمتر حال میں دیکھنا روحانی بلندی کی خواہش کو بڑھاتا ہے۔ اگر کاملیت کے خواہش مند اعلیٰ درجات حاصل کرنا چاہیں تو انہیں خود کو اپنی موجودہ حالت سے کمتر حالت میں سمجھنا چاہیے۔ مزید برآں اس لا محدود ہستی کی جانب سفر بھی لا متناہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کاملیت کے افق ظاہر کر دئیے ہیں۔
’’ آج کے دن میں نے تم پر دین مکمل کر دیا اور اپنی رحمت تمام کر دی۔‘‘ (المائدہ ۳: ۵)
ہمیں اس لا متناہی سفر پر ایسے راہی بننا چا ہیےجن کی پیاس کبھی نہیں بجھتی ۔ہمارا انداز ایسا ہونا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت معجزاتی انداز میں ایک پیالے میں رکھ کر کھلے عام عطا بھی کر دے اور وہ بھی یوں کہ اس کا کوئی پیمانہ اور حد نہ ہو تو بھی ہم ہل من مزید کا تقاضا کرتے چلے جائیں ۔ایسی پختگی اور کاملیت کا حصول خود احتسابی پرمنحصر ہے۔ بصورتِ دیگر ایسے لوگ جو خودکو پہلے سے مکمل شخصیت خیال کرتے ہیں اور جو اس طرح کا رویہ رکھتے ہیں کہ گویامزید بہتری کی گنجائش ہی نہ ہو۔ ایسے لوگ اس مقام پر رہ جاتے ہیں کہ جہاں وہ ہیں ایسے لوگوں کے لیے کاملیت کا ذائقہ چکھنا نا ممکن ہوتا ہے۔ مزید برآں خود احتسابی نہ کرنے کا ایک اور منفی پہلو بھی ہے۔ ایسا شخص جو خود احتسابی سے کام نہیں لیتا وہ دوسروں کے متعلق سوچنے کی لاحاصل سعی شروع کر دیتا ہے۔ لوگوں کی کوتاہیوں پر نظر رکھتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ وہ خود بھی ایسے ہی اعمال میں مبتلا ہے۔ اگر اس شخص کی ذاتی انا میں اس کی کسی خاص گروہ یا جماعت سے وابستگی کا غرور بھی شامل ہو جائے تو ایسا شخص شکست خوردہ کھائیوں کی پستیوں میں گرنے کا شکار ہوجاتاہے۔ جیسا کہ بدیع الزمان سعید نورسی زور دیتے ہیں کہ گروہی غرور ذاتی انا کو ہوا دیتا ہے۔ چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ گروہی غرور اور انا انتہائی خطرناک ، مہلک اور تباہ کن آفتیں ہیں۔ اس قسم کے خطرات سے بچنے کا ایک مستقل نسخہ خود پر نظر رکھنا اور خود احتسابی سے کام لینا ہے۔
مثال کے طور پر اگر اللہ تعالیٰ ایک شخص کو دنیا کے مختلف حصوں میں خدمات سر انجام دینے کا موقع فراہم کر یں جس کے نتیجے میں اگر وہ شخص تمام لوگوں کے دلوں کو فتح کر لے،علم اور روحانیت میں اعلیٰ مقام بھی حاصل کر لے توایسی کامیابیوں کے دوران بھی اس کی سوچ یہی ہونی چاہیے:’’کیونکہ میں اس سب کا منتظم تھا لہٰذا بہت سے کام باقی رہ گئے اگر میری جگہ کوئی اور روشن خیال اور روشن دماغ شخص ہوتا تومعلوم نہیں کہ یہاں خدمات کس قدر بہتر ہوتیں۔ میری خواہش ہے کہ کاش میری وجہ سے یہ خدمات کم تر نہ ہوں اور نہ ہی ان میں کوئی رکاوٹ آئے۔ یہ خود اعتمادی کی وہ روح ہے کہ جواللہ کی راہ کے مسافروں کو اختیار کرنی چاہیے۔
درحقیقت تعریفوں اور خوشامد کے دوران لڑکھڑانے اور گر پڑنے سے بچنے کے لئے خود احتسابی کو برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ یعنی یہ کہ ایک شخص کو دن میں کئی مرتبہ خود پر تنقید کرنی چائیے۔ خود پر نگرانی کا انتظام کرنا چائیےاور اسی کے مطابق اپنے رب کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرنا چائیے۔ لہٰذا اگر دوسرے لوگ اس کی تعریفیں کریں اور اس کی نیکیوں کا ذکر بھی کریں تو اسے پھر بھی کہنا چائیے، ’’میں اپنے آپ کو جانتا ہوں۔ یہ یقیناَ َََشیطان کی جانب سے مداخلت ہے۔‘‘ اس طرح اسے خود کو غرور اور تکبر سے محفوظ کرنا چاہیے۔
اللہ کرے کہ ہمارے دل خود احتسابی کے جذبے سے معمور ہوجائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان فرائض کو سر انجام دینے کی توفیق دے جو اس نے ہمیں بطورِ رحمت عطا فرمائے ہیں۔ (آمین)
- Created on .