ایسی دعا جس پر عادت اور غفلت غالب نہیں آتی
سوال: دعا میں ہم عادت اور غفلت کے پردوں کو کس طرح چاک کرسکتے ہیں؟
جواب: دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہونے والے انسان کے لیے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اس کو اس بات کا مکمل شعور ہو کہ جس وقت وہ دست دعا بلند کررہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہے۔ چنانچہ جس وقت اس کے منہ سے الفاظ نکل رہے ہیں، وہ ان کو اچھی طرح سمجھے اور لہو و لعب سے بچے کیونکہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ’’وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَسْتَجِيبُ (وفي رواية: لَا يَقْبَلُ) دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاهٍ“’’ جان لو کہ اللہ تعالیٰ غفلت اور لاپرواہ دل کی دعاء نیہں سنتا (ایک اور روایت میں ھے: قبول نہیں کرتا)۔‘‘(1)
اس مقام پر آپ علیہ السلام ہمیں خبردار فرما رہے ہیں کہ غفلت اور لاپرواہی دعا کی قبولیت کے رستے میں حقیقی رکاوٹ ہیں۔ اس سے ہمیں دین میں دعا کی اہمیت کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ کہیں عادت اور روز مرہ دعا کی حلاوت اور تازگی کو ختم اور ہمارے کلام کی قیمت اور چمک کو ضائع نہ کردے۔
دعا عبادت کا مغز
رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ’’الدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ“ ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘(2) پس جس طرح انسان کے لیے دماغ کی ایک حیاتیاتی اہمیت ہے اور دماغ میں کوئی خلل یا خرابی آنے سے انسان شل ہوسکتا ہے، مر سکتا ہے یا ہمیشہ کے لیے بستر پر پڑ سکتا ہے، اسی طرح دعا بندوں اور ان کے رب کے درمیان تعلق کو قائم رکھتی ہے اور یہی بات اس کے لیے کافی ہے جس سے یہ حقیقی عبادت دوسری عبادات سے ممتاز ہوجاتی ہے۔
اسی وقت دعا کا مطلب ہے: اسباب سے اوپر کی چیزوں کو طلب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب توجہ اور اس بات کی حقیقی توحید کا شعور پیدا کرنے میں بڑی اہمیت ہے کیونکہ جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دست دعا بلند کرتا ہے اور اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو اس کے اور اس کے رب کے درمیان تمام پردے اور اسباب ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ اسباب حق تعالیٰ شانہ کی عزت اور عظمت کے پردے ہیں مگر جو انسان دعا کرتا ہے وہ ان سارے پردوں سے آگے نکل جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے دروازے کے کنڈے کو براہ راست محسوس کرتا ہے اور (صرف اسی سے) جو چاہتا ہے مانگتا ہے اور یوں توحید خالص کے مدار میں پہنچ جاتا ہے۔
اس وجہ سے اس کے لئے لازمی ہے کہ جب وہ اسباب سے دستبردار ہوکر مسبب الاسباب کے حضور کھڑا ہونے کو محسوس کرے تو وہ اپنے دل کو بھی ایسا بنائے کہ وہ اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ کا اقرار کرے اور دل، زبان سے نکنے والے ہر لفظ کو بیان کرے۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ دل اور زبان میں تناقض نہیں ہونا چاہیے بلکہ دل ان معانی پر غور کرے جو زبان سے ظاہر ہورہے ہیں۔ مثلاً اگر انسان زبان سے کہتا ہے کہ: ‘‘ اے اللہ مجھے اپنی خوشنودی نصیب فرما اور مجھے اپنی رضا عطا فرما!‘‘ تو اس کو چاہیے کہ وہ دل کی لے کو ان الفاظ کی سیڑھی سے ملائے تاکہ دل اس سے دھڑکے۔ آپ کو اس وقت دل اور زبان کے دوغلے پن سے بچنا چاہیے جب آپ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں۔ پھر یہ بات صرف دعا کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام عبادات سمجھ اور فہم کے ساتھ کرے۔ مثلاً نماز کے لیے ضروری ہے کہ نماز کے آغاز میں نیت کا خیال رکھے جبکہ نیت ’’دل کے ارادے‘‘ کا نام ہے اور جس قدر ہوسکے اس عبادت کو قلبی عبادت بنائے کیونکہ بندہ جو بھی اعمال انجام دیتا ہے اللہ کے ہاں ان کی قیمت اور معانی کا دارومدار دل کے اس یقین اور وفاداری پر ہے جو انسان اس کے ہمراہ پیش کرتا ہے۔
ایمان اور دع
شعور میں اس طرح گہرائی (دعا وغیرہ میں) ابتداء میں اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پختگی سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ جس قدر انسان کا اللہ پر ایمان مضبوط ہوگا، اس کی دعا کی ماہیت اور قیمت بھی ایسی ہی ہو گی لیکن جس شخص کے ایمان میں مشکلات اور یقین میں کمزوری اور خوف ہوگا،وہ قلب اور زبان کے درمیان مطابقت کبھی حاصل نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اگر کسی انسان کی دعا میں اخلاص نہیں اور اس نے دعا کے دوران اپنے دل میں کوئی جوش اور جذبہ نہیں دیکھا تو اس کا مطلب اول یہ ہے کہ اس کے ایمان میں کوئی مسئلہ ہے اور دوم اس کے یقین اور معرفت میں۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ انسان اگر کفر کی الہڑ موجوں کی پروا کرے اور نہ لوگوں کی گمراہی اور سرکشی پر ملول ہو اور لوگوں کے ایمان کی اتنی بھی فکر نہ کرے جتنی اپنا گھر اور خاندان بنانے کے لیے کرتا ہے اور یہ دعا کرنے کے لیے بھی ہاتھ بلند نہ کرے کہ : ’’اے اللہ کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسانوں کے سینوں کو اسلام کے لیے کھول دے اور اگر ضرورت ہو تو ان کے دل میں ایمان داخل کرنے کے لیے میری روح بھی قبض کر لے‘‘ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شخص کو کوئی حقیقی ایمانی مشکل درپیش ہے اور ایسے شخص کو سب سے پہلے اور ضروری طورپر ایمان کے ارکان کے بارے میں دوبارہ آباد کاری کی ضرورت ہے۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ ہم سب کو ارکان ایمان کے بارے میں آباد کاری کی ضرورت ہے جیسے کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس زمانے میں مسلمانوں کے لیے سب سے خطرناک چیز فلسفہ اور سائنس سے پھیلنے والی گمراہی کی وجہ سے دلوں کی خرابی اور ایمان کا متزلزل ہونا ہے۔‘‘(3) ’’ اور ہمارے ہاتھ جو بھی گناہ کرتے ہیں اور ہمارے ذہنوں میں جو بھی شبہہ داخل ہوتا ہے، وہ ہمارے دلوں میں گہرے زخم لگاتا ہے اور ہماری روحوں میں خونی پھوڑوں کو پھاڑتا ہے۔‘‘(4)
جی ہاں، جس طرح ہمارے زمانے میں ایمان کے بارے میں تحقیق بالکل ختم ہوگئی ہے کیونکہ یہ منافقت، جہالت اور انانیت کا زمانہ ہے، اسی طرح تقلید اور اتباع کے تعلقات بھی ختم ہوگئے ہیں۔ مثلاً پہلے زمانے میں لوگ اپنے شیخ اور مرشد کو دیکھتے تھے اور ان کے افعال اور اعمال میں ان کی تقلید کرتے تھے اور اس طرح ایمان کے دائرے میں داخل ہوجاتے تھے اگرچہ وہ تقلید ہی کیوں نہ ہو اور اس طرح اس مقولے کے مطابق اپنے آپ کو محفوظ کرلیتے تھے کہ :’’جس نے کسی عالم کی تقلید کی وہ درست حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا۔‘‘ لیکن (افسوس کہ) ہمارے زمانے میں اکثر لوگ اس سے محروم ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان اپنے آپ کو سنے، اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات پر غور اور تدبر کرے تو وہ ہر شے میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو محسوس کرے گا جیسے کہ ترکی شاعر ’’جناب شہاب الدین‘‘ کہتے ہیں: ’’اے میرے رب تو موجود ہے، تو ہمیشہ موجود ہے، میری عقل میں، میرے خیال میں اورمیرے شعور میں۔‘‘ اس لیے اگر انسان سب آئینوں میں اللہ تعالیٰ کے جمال کا مشاہدہ کرنے لگے تو کبھی وہ درخت کی طرف بھاگے گا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تجلیوں میں سے ایک تجلی ہے اور اسے چومے گا کبھی گھاس پھونس کو گلے لگائے گا اور اپنی آنکھوں میں مٹی کا سرمہ ڈالے گا۔ کبھی وہ سورج کی طرف متوجہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے اسم ’’النور‘‘ کا کثیف سایہ ہے اور ایک رخ سے ایک مجنون کی طرح زندگی گزارے گا۔ ایسا انسان اللہ کے سامنے ’’احسان‘‘ کو اپناتا ہے اور ایسا برتاؤ کرتا ہے جیسے کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور اس یقین کے ساتھ کام کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ صرف اس طریقے سے آدمی یقین کی منزل تک پہنچ سکتا ہے کہ اگر وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو عادت اور غفلت پر غالب آئے اور اسباب کے پردوں کو چیرتا ہوا آگے نکل جائے اور اس یقین اور شعور کے ساتھ اللہ کے سامنے گڑگڑائے کہ اس کا رب اسے دیکھ رہا ہے۔
وجدانی اور ہیجانی زلزلوں کی آوازیں
جی ہاں، دعا میں احساس کے شعور کے ساتھ ساتھ اطمینان اور خشوع و خضوع بھی اس درجے کا ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ حضور عاجزی کرتے ہوئے پوری طرح اس جانب متوجہ ہو اور ہوش کھودے ۔ میں نے حضرت بدیع الزمان کے شاگردوں میں سے بردران گرامی ’’طاہر موتلو ‘‘ اور ’’احمد فیضی آفندی‘‘ میں سے ہر ایک کو دیکھا کہ (دونوں دعا کرتے ہوئے) اپنے وجدانی جذبات کا اظہار کرتے تھے اور بالکل ہوش و حواس سے نکل جاتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس برتاؤ کا مظاہرہ کرتے تھے جو انہوں نے اپنے استاد سے سیکھا تھا۔
یہاں میں ایک اوربات کی طرف بھی آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو آپ کے لیے عذز پیش کرنے کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ (افسوس کی بات ہے) ہمیں خانقاہوں میں، اسلامی مدارس میں اور نہ مساجد میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو نماز کا حق ادا کرتے ہوں، اخلاص کے ساتھ دعا کرتے ہوں اور اللہ کی جانب دل کی اتھاہ گہرائیوں سے متوجہ ہوتے ہوں۔ اس بارے میں ایسا کوئی نہیں جو ہمارے لیے نمونہ بنے، ہمارے لیے راستہ بنائے اور ہماری اس طرح رہنمائی کرے کے تضرع اور خشوع کا دروازہ کھول کر حقیقت کا روشن چہرہ ہمیں دکھائے۔ اس وجہ سے ہم میں سے ہر ایک اپنی جگہ ان پڑھ رہ گیا۔ سید قطب جب اس طرح کے حالات اور افکار کا ذکر کرتے تھے تو اس بدحالی کو بیان کرنے کے لیے یہ سوال کرتے تھے کہ ’’کیا ہم سچ مچ مسلمان ہیں؟‘‘
لیکن اس سب کے باوجود حقیقی ایمان کے حصول کو مشکل نہ سمجھو، اسے ناممکن نہ خیال کرو۔ کتنی اچھی بات ہوتی کہ آپ خود غمگین ہوتے اور پھر اضطراب اور بے چینی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوتے، اس وقت آپ کو اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں پوشیدہ جمال کا اندازہ ہوگا اور خود مشاہدہ کریں گے کہ وہ کیسے کیسے پرمسرت عجائبات کے دروازے آپ کے لیے وا کرتا ہے۔
اگر بات یہی ہے تو پھر آئیے رات کو اٹھیں اور صلاۃ حاجت پڑھیں تاکہ ہمارے اندر کے پردے ہٹ جائیں اور عبودیت کی وجہ سے ہمارے نفس کے اندر کشادگی پیدا ہو اور ہم ایمان کی گہرائیوں میں اتر سکیں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ کہتے ہوئے گڑگڑائیں: ’’اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس رات کو مجھے احسان کے مرتبے تک پہنچا دے۔ اس کے سوا میرا کوئی سوال نہیں، نہ کرامت، نہ اکرام، نہ یہ اور نہ وہ۔ میری سب سے بڑی درخواست اور امید یہ ہے کہ میں تجھ سے اپنے تعلق کو مضبوط کروں، تیری معرفت سے سیر ہوکر زندگی گزاروں، میری دعا کا مقصد تیری جستجو کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ جب ہم یہ دعا کریں تو اس طرف بھی توجہ کریں کہ ہماری زبان سے ادا ہونے والے ہر لفظ میں یہ خصوصیت، یہ شعور اور یہ صفت ہونی چاہیے ۔ ہم ہر رات بار بار یہ دعا مانگیں اور کوشش کریں کہ ایک رات، دو راتیں یا زیادہ جاگیں اور شوق اور کڑھن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائیں۔ یہاں میں آپ سے یہ نہیں پوچھنا چاہتا کہ: ’’کیا آپ میں کوئی ایسا آدمی ہے جو ا پنی زندگی میں پورا ایک ہفتہ اللہ تعالیٰ سے معرفت، محبت، عشق اور شوق مانگنے کے لیے جاگا ہو اور صلوٰۃ حاجت پڑھ کر اس طرح کی درخواست کرتا رہا ہو؟‘‘ میں آپ سے یہ بات ایسے انداز سے نہیں پوچھنا چاہتا جس سے یہ لگے کہ میں آپ پر الزام تراشی کررہا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ مثبت جواب دینے والوں کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوگی۔ اسی سے اس مسئلے کے بارے میں ہمارے اہتمام کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’جس نے طلب اور کوشش کی وہ پائے گا۔‘‘
بعض اوقات میں کعبے کے گرد طواف کرنے والوں، عرفات کے میدان میں کھڑے ہونے والوں اورمزدلفہ اور منیٰ میں حج کے لیے آئے ہوئے لوگوں کے حالات کو بہت قریب سے دیکھتا ہوں اور ان کے اندر اس شعور کو تلاش کرتا ہوں اور ان پر غور کرتا ہوں کہ کہ کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو شوق اور درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور روئے، گڑگڑائے یا نہیں؟! کیونکہ اگر وہاں سے ایک ہزار انسان بھی سچائی اور اخلاص کے ساتھ اللہ کے حضور ہاتھ بلند کریں اور ان کے منہ سے اسی اخلاص کے بقدر دعائیں اور التجائیں حق تعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو حاشا للہ ایسی دعا کبھی رد نہیں ہوسکتی جس میں اس قدر اجتماعیت اورکلیت آگئی ہو بلکہ اس بارے میں میرا یقین یہ ہے کہ اگر اس مقام پر موجود تیس لاکھ مسلمان ہاتھ بلند کرکے یہ دعا کریں کہ یا اللہ اس زمین کو بدل دے! تو ان کے پاؤں کے نیچے زمین فوراً بدل جائے گی اور ایک نیا عالم بن جائے گی لیکن افسوس ایسا کہاں ہوگا! کیونکہ اسلامی دنیا کا شیرازہ جس طرح اس وقت بکھرا ہوا ہے اسلام کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج لوگ اپنے اوپر آنے والی ذلت اور مصائب کا احساس بھی نہیں کرسکتے حالانکہ یہ بہت بڑی ہیں اور اگر ان کواس کا احساس ہوجائے تو کم از کم ہم اپنی اس حالت سے چھٹکارے کے لیے دعا تو کرتے ۔ پھر جس طرح لوگوں کو اس مصیبت کا احساس نہیں، اسی طرح ان کو کفر کی ان موجوں سے بھی کوئی اضطراب نہیں جنہوں نے ان کو ہر طرف سے گھیر لیا ہے۔ اس وجہ سے ان کو اجتماعی اور کلی دعا کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
آخر میں، میں کہتا ہوں کہ جب تک جلدی سے قلق اور اضطراب کے اس مرتبے تک مطلوبہ طریقے سے رسائی نہیں ہوجاتی تو انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر مجبور کرے اور اس کے لیے سعی اور حقیقی جدوجہد کرے جبکہ ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کرنا کہ: ’’اگر دے دے تو دے دے، نہیں دیتا تو نہ دے۔‘‘ یہ بات بے شرمی اور اللہ تعالیٰ کی بے ادبی پر دلالت کرتی ہے جبکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک بھکاری کی طرح دعا کرے اور اپنی زبان حال اور قال سے یوں کہے: ’’یا اللہ میری تجھ سے التجا ہے، میں تیرے در پر کھڑا ہوں، میں تجھ سے دخواست کرتا ہوں، میں تجھ سے امید رکھتا ہوں! اے اللہ مجھ پر احسان فرما، مجھ پر رحم فرما، یا اللہ مجھے موت دے دے لیکن میری دعا قبول فرما!‘‘ جی ہاں، مسلمان کو چاہیے کہ وہ بلند چوٹیوں کی امید رکھے اور ہمیشہ ان تک پہنچنے کی کوشش کرے اور پورے اخلاص کے ساتھ اس خواہش کا اظہار کرے۔ اس طرح شاید اس پر اللہ کا کرم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ مہربانی فرما کر اس کی دعا سن لے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جس قدر اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ ہوتا اسی قدر اس کے کرم کا مستحق ہوتا ہے اورجس قدر وہ اللہ تعالیٰ کا خیال رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی ویسا ہی معاملہ فرماتا ہے۔
1۔ سنن الترمذی، الدعوات:67، الحاکم، المستدرک:670/1
2۔ سنن الترمذی، الدعوات: 2
3۔ بدیع الزمان سعید نورسی، اللمعات، سولہواں لمعہ، دوسرا دلچسپ سوال، ص: 142
4۔ بدیع الزمان نورسی، اللمعات، دوسرا لمعہ، پہلا نکتہ، ص:11
- Created on .