رہنمائی کی ذمہ داری اور عفت کی چاردیواری
سوال: اس عفت کا کیا مفہوم ہے جس سے نہج نبوت کے نمائندوں کو آراستہ ہونا چاہیے؟
جواب: تمام انبیائے کرام نے اپنی زندگی انسانیت تک آسمانی پیغام پہنچانے میں خرچ کردی مگر کسی سے کسی بھی قسم کی اجرت کی خواہش نہیں رکھی بلکہ ساری زندگی انکساری اور عاجزی سے گزاری دی۔ فضول خرچی سے بچتے رہے، قناعت کو لازم سمجھا سادگی اور زہد کی زندگی بسر کی۔ اگرچہ ان میں سے بعض (جیسے حضرت سلیمان اور ان کے والد داؤد علیہما السلام) کو حکومت اور سلطنت بھی عطا فرمائی لیکن انہوں نے بھی کبھی تواضع کی زندگی ترک نہیں کی بلکہ اپنی ساری طاقت اور توانائیوں کو دین حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے وقف کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو سلطنت عطا فرمائی تھی وہ اس کے جادو میں گرفتار ہوئے اور نہ اس نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کیا۔ جی ہاں، کوئی بھی شخص ان کی عصمت اور عفت پر النگلی نہیں اٹھا سکا۔ اس وجہ سے لوگوں نے ان پر اعتماد کیا اور آپ علیہ السلام ساری زندگی نبوت کی خصلتوں سے مخلص رہے۔ اس لیے جو لوگ نبوت کے رستے پر چل رہے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس رستے کا حق ادا کریں اور یہ بات اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک آدمی انبیائے کرام علیہم السلام کی ان صفات سے آراستہ نہ ہوجائے (اور جو شخص ان صفات کو نہ اپنا سکے ) تو پھر تبلیغ اور رہنمائی کے فریضے کی ادائیگی تو دور کی بات ہے) احتمال ہے کہ وہ شیطان کے رستے پر ہی نہ چل پڑے اگرچہ وہ مسلمان کیوں نہ ہو۔
بدنامی صرف خطاکار تک محدود نہیں رہتی
اس کے باوجود ایسا ہوسکتا ہے کہ جو لوگ تبلیغ و ارشاد کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ سچائی اور عفت کو داغدار کرنے والے گناہوں اور معمولی غلطیوں کا ارتکاب کرکے اس ادارے کی بدنامی اور رسوائی کا سبب بن سکتے ہیں جس سے ان کا تعلق ہوتا ہے خصوصاً اس وقت جب وہ ادارہ اونچے مرتبے کا مالک ہو کیونکہ ایسا ادارہ ایک جسد و احد کی طرح ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو کو نجاست لگ گئی تو اس کے سارے اعضاء اس سے متاثر اور تنگ ہوں گے ۔ اس لیے جس شخص کے لباس کی طرف نجاست کے چھینٹے اڑیں اس کو کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ:’’کوئی بات نہیں کیونکہ یہ نجاست میرے چہرے، ہاتھوں اور آنکھوں تک نہیں پہنچی۔‘‘ بالکل اسی طرح یہ بات درست نہیں کہ کوئی شخص کسی جماعت سے تعلق جوڑے اور اس کے بعد اپنی آنکھ، ہاتھ اور زبان پر قابو نہ رکھے اور جائز دائرے کے اندر لذتوں پر اکتفا نہ کرے اور ناجائز دائرے کے گرد گھومتا رہے اور پھر کہے: ’’میں تو اس جسم کا فقط ٹخنہ، پاؤں یا کہنی ہوں۔۔۔۔۔۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ جو نجاست مجھے لگی ہے وہ ان لوگوں کو نہیں لگے گی جو میرے ہی رستے پر گامزن ہیں۔‘‘
اس بنیاد پر حق کی خدمت کے لیے کوشش کرنے والوں کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ اپنے اوپر گندگی کے چھینٹے پڑنے سے بچیں، اپنی صفائی پاکیزگی کا ہمیشہ خیال رکھیں اور اپنے تمام معاملات یعنی قیام و قعود اور کھانے پینے میں عفت کے دائرے سے باہر نہ نکلیں اور ہاتھ، پاؤں، زبان اور آنکھ وغیرہ تمام اعضاء کو استعمال کریں۔ ایسے ہی حق اور حقیقت کے مبلغ اور حقیقی مرشد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اعلیٰ ہدف کے ساتھ مخلص رہے، ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے، اس کے پاس ایسی جرأت و بہادری ہو کہ ہاتھ بلند کرکے کہہ سکے: ’’ یا اللہ اگر میں نے کسی ایسی چیز کو دیکھا یا سنا ہو جس کو تو پسند نہیں کرتا، تو میری روح قبض کرلے‘‘۔ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی اسلام کے چہرے کو آلودہ اور گندہ کرنے کی اجازت نہ دے کیونکہ تبلیغ و ارشاد کے حقیقی نمائندوں یعنی انبیائے کرام نے کبھی بھی مٹی کے ایک ذرے کو بھی اجازت نہیں دی کہ وہ ان کے دامن کو چھو لے اگرچہ وہ عموم بلویٰ ہی کیوں نہ ہو اور کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ ان کی عزت و شرافت پر حرف گیری کرسکے۔
’’اے اللہ میری وجہ سے میرے دستوں اور ان کی وجہ سے مجھے رسوا نہ فرمانا!‘‘
جو بھی شخص اس ضروری حساسیت کا اس قدر خیال نہیں رکھتا، وہ دوسروں کے حق پر ظلم کا مرتکب ہوگا اور بالکل شیطان کی طرح ان کو نقصان پہنچائے گا۔ اس وجہ سے اگر اس جماعت کے تمام افراد اس شخص کو معاف نہیں کریں گے تواس کا جنت میں جانے کا مسئلہ مشکوک ہوجائے گا۔ یہ بات ہمیں دعوت دیتی ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں: ’’اے اللہ میرے دوستوں کو میری وجہ سے رسوا نہ کر اور میری وجہ سے میرے دوستوں کو رسوا نہ کر۔‘‘
افسوس کی بات ہے کہ آج ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ایسے ایسے گناہوں کے مرتکب ہوچکے ہوتے ہیں جو ہمیں حیران کردیتے ہیں اور ہم درد سے بلبلا اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’کاش انہوں نے اپنی خواہشات کی پیروی نہ کی ہوتی اور یہ گناہ نہ کیے ہوتے! کاش وہ بار بار مرتے اور زندہ ہوتے مگر اپنی عفت اور سچائی سے دستبردار نہ ہوتے اور ان گندگیوں میں نہ پڑے ہوتے!‘‘
زبان کی عفت
دوسری طرف جو لوگ کسی معین مقام پر پہنچ جاتے ہیں (اگرچہ یہ بات ہم جیسے عام لوگوں پر جاری نہیں ہوتی) ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ زبان سے کوئی ایسا لفظ نکالنے سے قبل غور کریں جس سے ان لوگوں کی توہین ہوتی ہو جو آنکھوں کے تارے ہیں کیونکہ ان کے مرتبے کا تقاضا ہے کہ وہ کوئی بھی لفظ منہ سے نکالنے سے قبل اس پر خوب اچھی طرح غور کریں اس کے بعد اسے اپنے مخاطبین کے سامنے شعر کے مصرعوں کی طرح ترتیب کے ساتھ پیش کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کلام جو مخاطبین کی سمجھ کا خیال رکھے بغیر یا اس پر ہونے والے امکانی رد عمل پر غور کیے بغیر کہا جاتا ہے، اس سے گہرے زخم لگتے یں کہ گویا وہ مخاطبین کے سینوں میں نیزے کی طرح لگتا ہے جبکہ اس گھاؤ کا علاج اور دوا اکثر اوقات بہت مشکل ہوتی ہے، بلکہ وہ کلام جو سوچے سمجھے بغیر کہا جائے، اختلاف اور افتراق کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ایک لفظ دو دشمنوں کو آپس میں لڑا دے اور ممکن ہے کہ ایک جملہ پوری قوم کو غرق کردے اور ہوسکتا ہے کہ ایک لفظ کی وجہ سے جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں۔
ہمارے گمشدہ اقدار جنت کی کنجی ہیں
عفت و عصمت اورسچائی اور وفاداری، ہمارے وہ اقدار ہیں جو (افسوس کی بات ہے) ہم کھو چکے ہیں اور یہ گمشدہ اقدار وہ بنیادی عناصر ہیں جن پر جنت کھڑی ہے۔ اس لیے اگر آپ دوبارہ جنت بنانا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ اس جنت کی ان بنیادی ضروریات دوبارہ تیار کریں۔ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام اس تہذیبی عمارت کا نقشہ ہمیں بنا کر دے گئے ہیں، پھر ان کے بعد آنے والے مجتہدین، مجددین اور اولیاء و اصفیاء تشریف لائے اور تجدید کے تقاضوں اور زمانے کی ضرورت کے مطابق اس تعمیری نقشے کی مختلف شکلیں بنائیں گویا کہ وہ مخاطبین کو یہ پیغام پہنچا ریہ ہیں کہ: ’’اپنے برتاؤ اور اعمال میں اور ان شکلوں اور طریقوں میں مطابقت پیدا کر جو ہم نے تمہارے لیے بنائے ہیں کیونکہ عبودیت کا حقیقی مفہوم اس طریقے پر چلے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔‘‘
اس بارے میں اسلامی شاعر ’’محمد عاکف‘‘ نے کیا خوب کہا ہے:
’’اسلام کہاں ہے؟ بلکہ انسانیت کہاں ہے؟ ہم نے سب کچھ کھودی
اگر دنیا کو دھوکا دینا ہی مقصد ہے تو پھر آج دھوکا کھانے والا کوئی نہیں
میں نے کتنے ہی حقیقی مسلمان دیکھے! مگر وہ قبروں میں منوں مٹی تلے دبے ہیں
مجھے معلوم نہیں کہ مجھے اسلام کہاں ملے گا؟ لگتا ہے کہ وہ بادلوں سے اوپر آسمانوں میں ہے!‘‘
میں یہ کہہ کر کسی کو مایوسی کا شکار نہیں کرنا چاہتا کیونکہ انسان کے لیے ضروری ے کہ وہ ناامیدی کے دروازوں کوہمیشہ کے لیے بند کردے اور کبھی مایوس نہ ہو لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کی نگرانی اور محاسبے سے ایک لمحے کے لیے بھی غفلت نہ برتے کیونکہ جو شخص دنیا میں اپنا محاسبہ کرے گا وہ قیامت کے دن محفوظ رہے گا۔ ذرا اس عظیم انسان کو دیکھیں جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’
لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ‘‘
(اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتا)۔(1) یہ عمر بن خطاب اپنی ساری زندگی اس حدیث:
”حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا“
(محاسبہ کیے جانے سے قبل اپنا محاسبہ کرو)(2) پر عمل کرتے ہوئے اپنا محاسبہ اور اپنے نفس سے سوال کرتے ہوئے گزار دیتے ہیں۔
اس واسطے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو سنجیدہ ریاضیاتی اسلوب کے مطابق مرتب کرے کیونکہ جس وقت نیکیوں کواس طرح بڑھانا ممکن ہے کہ اکائیاں دہائیوں میں، دہائیاں سینکڑروں میں اور سینکڑے ہزار وں میں تبدیل ہوں اس وقت ہوسکتا ہے کہ کوئی معمولی سی غلطی ہر شے کو راکھ کی طرح ہوا میں اڑا دے۔
بالفاظ دیگر اگر انسان محاسبے اور حقیقی نگرانی کی زندگی گزار سکے تو وہ کم کو زیادہ کرسکتا ہے ورنہ اس کی بہت چھوٹی چھوٹی غلطیاں بھی اس کی ساری زندگی کو تباہ کرسکتی ہیں۔ اسی لیے حضرت بدیع الزمان نورسی اپنی حکیمانہ باتوں سے ہماری روحوں کو روشن کرتے ہوئے خبردار کرتے ہیں:’’خبردار! قدم آہستہ رکھو اور غرق ہونے سے ڈرو اور اپنے آپ کو ایک لقمے یا ایک لفظ ، ایک اشارے یا ایک دانے یا ایک بوسے سے ہلاک نہ کرو جس کی وجہ سے تمہارے سارے عظیم لطائف تم سے الگ ہوجائیں گے۔‘‘(3)
فخر انسانیت آنحضرت محمد ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
’’ إِنَّ النَّظْرَةَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِيسَ مَسْمُومٌ، مَنْ تَرَكَهَا مَخَافَتِي أَبْدَلْتُهُ إِيمَانًا يَجِدُ حَلَاوَتَهُ فِي قَلْبِهِ“
(نظر شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جس نے اسے میرے (اللہ تعالیٰ) خوف سے چھوڑا تو اسے اس کے بدلے ایسا ایمان عطا کروں گا جس کی حلاوت اسے دل میں محسوس ہوگی)(4) کیونکہ بعض اوقات آنکھ کسی چیز کو دیکھتی ہے اور فوراً قدم اس کی طرف بڑھ جاتے ہیں، پھر ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے اور آخر میں اکثر اوقات نہایت شنیع اور برے افعال کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ پس اگر اس فعل کا مرتکب شخص کسی خاص جماعت سے منسوب ہو تو اس کا وہ جرم اور گناہ پوری جماعت کی طرف منسوب کیا جائے گا۔ اگر ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ دوسرے لوگ اس طرح کی غلطی کے مرتب ہوں تاکہ وہ ایک جماعت پراس فعل کاالزام لگا سکیں، اگر یہ بات ہمارے ذہن میں ہو تو ہمیں اس بارے میں شدید احتیاط اور چوکس رہنے کی ضرورت کا یقین آجائے گا۔
امانت کی حفاظت
اس لیے بخدا آئیے! آئیے تاکہ ہم ایک فصیل کے پیچھے دوسری فصیل اور ایک قلعے کے پیچھے دوسرا قلعہ تعمیر کریں تاکہ اس قسم کی بیوقوفانہ اور بے شرمانہ حرکات نہ کی جائیں جو ایک پوری جماعت کو شرما دیتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اسی پر بس نہ کریں، بلکہ دروازوں کے پیچھے دروازے بند کرتے چلے جائیں اور جب شیطان کے دوست آئیں تو ان سے کہیں: ’’اپنے آپ کو فضول مت تھکاؤ کیونکہ تمہارے سامنے سارے دروازے بند ہیں‘‘ اور اس طرح (اللہ کے حکم سے) اطمینان اور سلامتی کے ساتھ جہاں کہیں بھی ہوں گے ارشاد و تبلیغ کا فریضہ ادا کرسکیں گے۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی خواہشات کی پیروی نہ کریں کیونکہ اس طرح ہم اس دنیا کو تباہ کردیں گے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر جمال اور خیر کے مختلف طریقوں سے احسان فرمایا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان ایمان والے دلوں کو (جو شاید ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں)، وہ وسائل اور صلاحیتیں اور تجلیات عطا فرمائی ہیں جو بڑی بڑی طاقتوں کو نصیب نہیں ہوتیں بلکہ سلطنت عثمانیہ کو بھی۔ اس لیے اگر ہم اپنے اوپر ہونے والی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر صرف اس کا شکر ادا کرنے بیٹھ جائیں اور ہر وقت صرف ’’الحمد للہ‘‘ کہتے رہیں اور کوئی اور کام نہ کریں تو بھی ہم اس نعمت کا حق ادا نہیں کرسکیں گے۔ خصوصاً ’’سعدی شیرازی‘‘(5) فرماتے ہیں کہ: ’’ہر سانس لیتے ہوئے دو بار شکر کرنا ضروری ہے۔‘‘ جبکہ ہم جس فضیلت کے متلاشی ہیں وہ ہر سانس اور ہر عزت سے بلند تر ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ بوجھ نہات ثقیل اور امانت بڑی مقدس ہے جبکہ آپ سخت حفاظتی انتظامات میں بھی اٹھانے کے باوجود اس کا حق ادا نہیں کرسکتے کیونکہ یہ اللہ کی امانت ہے، اللہ کے رسول کی امانت اور مجددین اور سلف صالحین کی امانت ہے۔ اس لیے خدا کے واسطے آئیے ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلیں اور اس بارے میں اپنے جیسے لوگوں کو رسوا نہ کریں! آئیے عفت کی زندگی گزاریں ۔ خواہشات کو دفن کردیں اوران کو دفن کرنے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ ان پرچٹانیں رکھ دیں اوراس طرح اپنے ایمان کی حفاظت کریں اوراپنی آخرت کو ضائع نہ کریں۔ ہمیں ان لوگوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے جو موقع ملتے ہی اپنی جیبیں، تھیلے اور بستے بھر لیتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں ان لوگوں کی طرح دھوکا بھی نہیں کھانا چاہیے جو صرف دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور ہمیں ان لوگوں کے نقش قدم پربھی نہیں چلنا چاہیے جو قارون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ہم فرعون بننے کی کوشش کرنے والوں کی طرح فرعون بننے کی کوشش نہ کریں بلکہ اس کے برعکس ہمیں چاہیے کہ ہم سید الانام حضرت محمد ﷺ ، آپ کے خلفائے راشدین یعنی ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اجمعین کے نقش قدم پر چلیں اوران کی سنتوں کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔
1۔ سنن الترمذی، المناقب:17
2۔ سنن الترمذی، القیامۃ:25
3۔ بدیع الزمان سعید نورسی، اللمعات، سترہواں لمعہ، چودہواں مذکرہ، ص:187
4۔ الطبرانی، المعجم الکبیر:173/10
5۔سعدی شیرازی: شیخ مصلح الدین بڑے صوفی شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ شیراز میں پیدا ہوئے اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کے مریدین میں سے تھے۔ اپنی عمر کے تیس سال سیر و سیاحت میں گزارے ۔ شعر کہتے تھے۔ ’’گلستان ‘‘ ان کی سب سے مشہور کتاب ہے۔
- Created on .