مقدسات کا احترام
سوال : ’’دین اور مقدس اقدار ‘‘کی توہین اور ان کے خلاف ہونے والی کوششوں کے مقابلے میں ہمیں کیا رویہ اور ایمانی موقف اختیار کرنا چاہیے ؟
جواب: اسلام جن اہم اخلاق کی تعلیم دیتا ہے ،ان میں ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان اپنی ذات کی توہین اور اس کو نشانہ بنانے کی کوششوں کا مقابلہ صبر اور ثابت قدمی سے کرے اور جہاں تک ممکن ہو سکے برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے اور اپنے اوپر گرنے والے ان پتھروں کو اپنے اچھے اخلاق سے اسی طرح کرچی کرچی کر دے اور مٹا دے جس طرح فضا کے غلاف سے ٹکرانے والے شہابیوی کا حال ہوتا ہے ، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کا ایک حق ہے نبی کریم ﷺ کا ایک حق ہے اور قرآن کریم کا بھی ایک حق ہے اور اگر ان حقوق میں سے کوئی توہیں اور استہزاکا نشانہ بن جائے تو اس وقت آدمی کو اس اہانت کو معاف کرنے ، اس سے در گزر کرنے اور اس توہین سے چشم پوشی کرکے خاموش رہنے کی اجازت نہیں، بلکہ اس وقت یہ مسئلہ ذاتی نہیں، لیکن( اس کے باوجود) اس پر لازم ہے کہ وہ اس بارے میں ایسا موقف اختیار کرے جو اس کی شخصیت کے مناسب ہو جیسے کہ دیگر امور میں ہوتا ہے اور وہ اس دائرے میں آگے بڑھے جو اس کی اسلامی شخصیت اس پر لازم کر تی ہے اور ایمانی اسلوب کے ساتھ اپنے رد عمل کا اظہار کرے اور اس روئے سے قطعاً پیچھے نہ ہٹے ،کیونکہ انسان کا رویہ اس کی عزت اور ناموس ہے۔
احترام کے طالب پر دوسروں کا احترام لازم ہے
آج (افسوس کی بات ہے کہ) ہم برائی کی بہت ساری انواع کا مشاہدہ کرتے ہیں، کیونکہ روزانہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں جن کا منبع کینہ، حسد اور بغض ہوتا ہے اور یہ جگہ جگہ پیش آتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے نامناسب الفاظ اور رویوں کا بھی سامنا ہوتا ہے ۔ مثلاً کسی جگہ کوئی ہولناک واقعہ پیش آتا ہے ، تو اس کو کرنے والے کو جاننے سے قبل ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص بغض اور اپنے سینے میں حسد کی وجہ سے یہ کہنے لگتا ہے کہ:’’تمام مسلمانوں کا قلع قمع کرنا ضروری ہے ۔‘‘ اس کے بعد ایک اور آدمی مسلمانوں کی کوئی اور توہین کر دیتا ہے جبکہ کسی جگہ ایسے بورڈ لگا دیے جاتے ہیں جس سے لوگوں میں شکوک پیدا ہو جاتے ہیں، لیکن اس انار کی اور افرا تفری میں یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی اعلیٰ صفات اور انبیائے کرام اور فرشتوں کی توہین سے ہر اس شخص کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جو اس ان مقدس امور پر ایمان رکھتا ہے ، بلکہ موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور آخرت سے متعلق بعض امور کی توہین سے دیگرمذاہب کے پیر و کاروں کے جذبات کو بھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے ، کیونکہ بعض دیگر مذاہب بھی اپنی اصل کے اعتبار سےان امور پر ایمان رکھتے ہیں ۔
اگر ہم آخرت پر ایمان لانے والے دیگر لوگوں کوبھی ان معاملات میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ شامل کر لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کل تعداد چار پانچ ارب تک جا پہنچے گی ۔ اس لیے اگر کوئی شخص بےشرمی پر اتر آئے اور کسی ایسے معاملے کے بارے میں زبان درازی کرنے کی کوشش کرے جس کا ان کے دلوں میں خاص مقام ہے، تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس نے بڑی بے شرمی کے ساتھ پانچ ارب انسانوں کی توہین کی۔
اس لیے جو انسان اس طرح کا سخت اور شرمناک رویہ اختیار کرتا ہے، اسے دوسروں کی جانب سے اپنی توہین برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ جی ہاں اس شخص کو ان لوگوں کی جانب سے ماری جانے والی سوئی کی چبھن سے تکلیف نہیں ہونی چاہیے ، کیونکہ اس نے تقریباً چار یا پانچ ارب انسانوں کے سینے ان کے مقدسات کی توہین کے نیزے سے پہلے ہی چھلنی کر دئے ہیں ۔یاد رکھیں کہ جس طرح آپ کی جانب سے توہین کی وجہ سےدوسروں کے اندر آپ کی توہین کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ، اسی طرح آپ کی جانب سے دوسروں کے احترام سے ان کے دل میں آپ کے لیے بھی احترام اور توقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
دوسری جانب یہ بات قطعاً درست نہیں کہ کوئی آدمی ایسے معاملات کے بارے میں بات کرے جو اس کا میدان نہیں، مثلاً آ پ لوگوں کوکوئی ایسا آدمی مل سکتا ہے جس نے فلسفے کے بارے میں پڑھا تو نہیں مگر کسی فلسفیانہ مذہب پر تنقید کر رہا ہے ، جس کی وجہ سے وہ دوسروں کے سامنے مذاق بن جاتا ہے ، اسی طرح وہ اپنے اسی روئے سے علم اور علم کے طریقوں کی توہین کا مرتکب ہو جاتا ہے ۔
ہمارے خیال میں فلسفے کی اکثر معلومات جو قرآن کے مضبوط قواعد کے مطابق درست نہیں، وہ سوچ کو خراب کرتی ہیں، مگر اس کے باوجود کسی خاص فلسفیانہ مذہب پر توہین آمیز تنقید ، متکلم کو دوسروں کے سامنے مذاق بنا دیتی ہے ، اسی طرح علم موسیقی سے لا تعلق کوئی شخص کسی بڑے موسیقار کے انداز میں موسیقی کے مقامات کے بارے میں بے سرو پا باتیں کرے گا تو وہ بھی مذاق بن جائے گا۔علاوہ ازیں جن امور کا ہم نے تذکرہ کیا ہے ، بہت سے لوگ معمولی کوشش کرکے ان میں تخصص اور کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسا انسان دین اسلام کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کا پیروکاروں کی توہین کرتا ہے اور جو کچھ کہتا ہے اسے آزادی رائےکا نام دیتا ہے ۔ جسے قرآن و سنت کی کوئی معلومات ہیں اور نہ ان عظیم انقلابات کا کوئی علم ہے جو اسلام نے برپا کئے اور اس کے ہاتھوں ایک ایسی ہو شربا ترقی وجود پذیر ہوئی جو پانچویں صدی ہجری تک زمین کے ایک بڑے حصے کو اپنے آغوش میں لے چکی تھی ۔ حالانکہ کسی بھی انسان کی جانب سے کسی ایسے موضوع پر کلا م کرنا جس کا وہ ماہر نہیں اور وہ بھی خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جب ہر طرف تخصص کا غلہلش ہے، اس موضوع اور اس شخص اور اس کے بعد درست عقل ، درست منقع ، درست محاکمہ اور درست ضمیر کی توہین سمجھا جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے جو شخص اس بے شرمی کا مرتکب ہو چکا ہو اسے بے سروپا باتیں کرنے کا حق ہے اور نہ اسے لوگوں کے جذباتی رد عمل سے تکلیف ہونی چاہیے کورنکہ نامناسب بات کا غلط انداز سےآغازخود اس کے کیا ہے دوسری جانب جو لوگ اس کی بات کا شکار ہوئے ، ان کی تعداد چار سے پانچ ارب کے درمیان ہےاور اس بات کا ہمیشہ احتمال رہتا ہے کہ جم غفیر میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو اپنے منہ زور انتقامی جذبات کے تحت کام کرتے ہیں۔
اگر تمہارا گھر کانچ کا ہو تو......
دوسری جانب ہم ( ایمان والوں ) کے لیےضروری ہے کہ ہم اپنے احوال، افعال اور رویوں کے بارے میں ہمیشہ زیادہ حساسیت کا مظاہرہ کر یں اور کوئی بھی لفظ منہ سے نکالنے سے قبل اس کے انجام پر غور کر لیں اور اپنے دلوں سے متعلق امور کو ظاہر کرنے میں جلدی نہ کریں۔ جی ہاں، ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں ، اس کو غلط سوچ کے حامل لوگ دوسرے معانی پر محمول کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں بولتے وقت مخالفیں کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاہئے ، کیونکہ اگر تمہارا اپناگھر کانچ کا ہے تو دوسروں کو پتھر نہ مارو، ورنہ تم اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں سے بربا دکر دو گے۔
قرآن کریم نے اس رہنمائی کی جانب ہماری توجہ اس آیت کریمہ کے ذریعہ مبذول کرائی ہے :﴿ وَلاَ تَسُبُّواْ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللّہِ فَیَسُبُّواْ اللّہَ عَدْواً بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾] الانعام :108 [(اور جن لوگوں کو یہ مشرک اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو بُرا نہ کہنا کہ یہ بھی کہیں اللہ کو بے ادبی سے بے سمجھے بُرا (نہ) کہہ بیٹھیں)جی ہاں، اگر تم دوسروں کے معبودوں کو گالیاں دو گے ان کے لات کو، ان کے منات کو ، ان کے عزیٰ کو اور ان کے نائلہ اور اساف کو... تو وہ بھی ان کو گالیاں دیں گے جن کو تم مقدس مانتے ہو۔ اسی وجہ سے قرآنی آیات ،سنت اور سلف صالحین کے اجتہادات میں اس بات کا کوئی حکم، کوئی تجویز اور کوئی نصیحت نہیں ملتی کہ ان بتوں پر سب وشتم کیا جائے جن کی بت پرست، اللہ کے علاوہ عبات کرتے ہیں۔ اس بنا پر تم پر لازم ہے کہ درست بات کا ہر وقت اظہار کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ توحید کی بات کرو اور اس کی شان بلند کرو۔ یہ ایک اور مسئلہ ہے ، لیکن مومن کی ذمہ داری اور کام یہ نہیں کہ وہ ان اشیاء کی تحقیر کرے یا ان کو کھوٹا ثابت کرے ، جن کی اس کی نظر میں کوئی قیمت نہیں ہوتی۔
کاش ، جو کچھ ہم کہتے ہیں اور جو کچھ ہم لکھتے ہیں، وہ سب ہم ان معیاروں کے مطابق کریں ،جو قرآن و سنت نے مقرر کر رکھے ہیں ، کیونکہ حسی فراغ سے پیدا ہونے والے بعض رویوں کے نتائج (اکثراوقات)ہمارے اقدار کے لیے زہرقاتل ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا امور کے باوجود ، حال ہی میں ایک جگہ ہماری کتاب یعنی قرآن کریم کی توہیں کی گئی، تو اس واقعے پر اور کسی دوسرے مقام پر گرجوں کی توہیں کرکے ان کی عمارتیں تباہ کردی گئیں۔ جی ہاں، قرآن کریم پر حملہ شرم ناک اور توازن کا فقدان ہے ، لیکن اس کے رد عمل میں گرجوں کی توہیں بھی ایک طرح کی بے شرمی اور ناموزونیت ہے۔
اس وجہ سے انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کو تکلیف دینے والے کسی بھی عمل اور روئے سے قبل ( خواہ دوسرا کوئی بھی ہو) اچھی طرح یہ بات سوچ لے کہ اس کام کا رد عمل کیا ہو گا۔ اس کے بعدوہ بات کہے یا وہ کام کر ے ۔اسی طرح جو لوگ توہین کا شکار ہو تے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے رد عمل کو ہمیشہ ایک مثبت خط پر رکھیں اور برائیوں کو علمی اور قانونی طریقوں سے ختم کرنے کی کوشش کریں اور اپنے مرتبے اور شخصیت سے کبھی دستبردار نہ ہوں اورنہ غلط اسلوب کو استعمال میں لائیں ۔ جی ہاں، اس طرح کے حملوں اور اہانت آمیز رویوں کا مقابلہ ایسے اسلوب سے کرنا چاہیے جو ایک مہذب انسان کے لائق ہے ، ورنہ بدو میں ندامت اور گریہ و زاری کا کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
میری شدید خواہش ہے کہ مقدسات کا احترام پردنیا میں اتفاق ہو جائے اور میں نے اس سلسلے میں اپنی آواز بعض اداروں تک پچایہنے کی بھی کوشش کی ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ شاید میں (اس بارے میں ) اپنی مراد کو مکمل اور واضح انداز سے بیان کر نے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
سوچنے اور بولنے کی آزادی جیسے افکار کا ہمارے اس زمانے میں بہت خیال رکھا جاتا ہے ، لیکن ( افسوس ) جس وقت بعض حلقوں میں ادیان و عقائد اور مقدسات کے خلاف بکواس کو فکرکی آزادی سمجھا جاتا ہے، اسی وقت بعض دیگر موجوعات کو آزادی رائے نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کے برعکس ان کو بغض اور کینے کا نام دے کر جرم قرار دیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی مومن روئے زمین پر امن سلامتی کا نمائندہ ہے کیونکہ وہ کسی کے بھی خلاف ناحق کوئی بات کرتا ہے ، نہ کسی وقت تحقیر اور توہین کا ارادہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے ایسا کرنا چاہیے۔ البتہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ بعض موضوعات کے بارے میں رائے کی مکمل آزادی اور اسی بات کو دیگر موضوعات کے بارے میں ممنوع قرار دینا، دوغلا معیار اور انتہائی خطرناک ناکامی ہے جو ایمان والے دلوں کو شدید تکلیف دیتی ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ساری انسانیت مقدسات کے احترام کی سوچ کو قبول کر لے اور انسانیت کی خاطر سب کے ہاں اس احساس کو اجاگر کیا جائے ۔ اس لیے وہ بین الاقوامی تنظیمیں جن میں ساری قومیں شریک ہیں، اس مسئلے کی قدروقیمت ایسی بنیاد پر قائم کریں جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہ ہو اور ضروری ہے کہ اس بارے میں فیصلہ کن اصول واضع کئے جائیں ۔ کاش اس بات پر ساری انسانیت کا ایکا ہو جائے! کاش ہر انسان اپنی حدود سے آگاہ ہو جائے ! کیونکہ ہماری موجودہ دنیا میں جو دن بدن سکڑتی جا رہی ہے،مقدسات کے احترام کے اصول کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے بکواسات اور زیادتیاں زیادہ بڑی اور خوفناک مشکلات کی صورت میں سامنے آئیں گی ، جبکہ مقدسات کے احترام کا اصول امن کے ساتھ زندگی گزارنے کا اہم ترین عنصر ہے ۔
- Created on .