توازن اور اعتدال
سوال: دور حاضر میں افراط و تفریط سے بچنے کے لیے کن امور کا خیال رکھنا ضروری ہے ، کیونکہ آج زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں خطرناک فکری انحراف پایا جاتا ہے اور ہر طرح کے غلو کی اجازت ہے اس بارے میں کچھ بیان فرمائیں گے؟
جواب: توازن اور اعتدال کی پابندی نہایت ضروری بات ہے تاکہ ہم دین کو اپنی زندگی کی روح بنا سکیں اور دین پر اس طرح عمل کر سکیں جو اللہ تعالیٰ کی مراد کے مناسب ہو ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراط و تفریط اس وقت آتی ہے جب تو ازن مفصود ہوتا ہے اور اس وقت ایک غلط دائرہ قائم ہو جاتا ہے ، کیونکہ افراط سے تفریط اور تفریط سے افراط پیدا ہوتا ہے ،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ افراط و تفریط سے بچنے کا رستہ صراط مستقیم کی جانب رہنمائی کرنے والے فخر انسانیت حضرت محمد ﷺ کی اتباع ہے اور آپ ﷺ نے اپنی امت کو ہمیشہ اعتدال کی دعوت دی ہے ۔
صراط مستقیم
اسلامی طرز فکر میں صراط مستقیم کی تعریف یہ ہے کہ یہ ‘‘قوت شہویہ’’،‘‘قوت غضبیہ’’ اور قوت عقلیہ ’’ کے درمیان اعتدال کا نام ہے اور ان سب چیزوں میں اعتدال کو‘‘صراط مستقیم’’ سے تعبیر کیا جاتا ہے، جبکہ مقابلہ ، تنافس، نیت اورنظر اور اس طرح کے دیگر کئی امور کو اس دائرے میں دیکھنا ممکن ہے ، بلکہ صحیح ترالفاظ میں نظر ان تمام اچھی اور بری طبیعتوں کے بارے میں ایک صراط مستقیم کی بات کی جا سکتی ہے ۔جن پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے ۔
مثلاً اگر ہم نظر کو لے لیں جس کا مطلب چیزوں اور واقعات کو پڑھنا اور ان کا اندازہ لگانا ہے تو ہمیں معلوم ہو گاکہ نیک شگون آدمی افراط کا نمائندہ ہے اور بد شکون تفریط کا جبکہ معاملات کی حقیقت کو دیکھنے والا ان دونوں کے درمیان ہے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ نیک شگون وہ شخص ہوتا ہے جو شر اور بری چیزوں سے آنکھیں پھیر لیتا ہے اور ہر شے کے اچھے اور خوبصورت رخ کو لیتا ہے ، جبکہ بد شگون ہر شے کے صرف انتہائی سیاہ رخ کو دیکھتا ہے اور ان دونوں کے مقابلے میں حقیقت کو دیکھنے والایا ہدایت کی نظر سے دیکھنے والایہ کوشش کرتا ہے کہ وہ ہر شے کو اس کی حقیقت کے مطابق دیکھے ۔ حقیقت یہ ہے جیسے کہ حضرت بدیع الزمان ‘‘نویٰ الحقیقۃ‘‘ ( حقیقت کی گٹھلیاں) میں فرماتے ہیں کہ:’’جس شخص کی رویت اچھی ہوتی ہے، اس کا رویّہ اچھا ہو جائے گا اور اس کی فکر خوبصورت ہو جائے گی اور جس کی سوچ خوبصورت ہو گی وہ زندگی سے لطف اندوز ہو گا اور اس کی زندگی خوب گزرے گی‘‘۔
علاوہ ازیں (بری چیزوں میں بھی) جب تک تاویل کا امکان ہو اچھے افکار اور خوبصورت اندازوں کی جانب ہی توجہ دینی چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ حقیقت کو نظریں چرا کر خواب اور خیالوں میں زندگی گزاری جا ئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حقائق سے بھاگے اور نظریں چرائے اور بد شگونی اور مایوسی میں پڑے بغیر ہر شے کو اس کی اپنی حالت پر دیکھنا چاہیے۔ اسی کا نام نظر میں توازن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وہ نفس جو انسان کی ماہیت میں رکھا گیا ہے ، اگرچہ بظاہر وہ شر نظر آتا ہے ، لیکن اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو اس کے لیے خیر بن جائے گا، یہاں تک کہ وہ شیطان جو لوگوں کو اپنے حیلوں بہانوں سے گمراہ کرتا ہے ،ا گر اس کی تخلیق کی حکمت کو سمجھا جائے تو وہ بھی اس بات کا سبب بن سکتا ہے کہ انسان ہمیشہ حق تعالیٰ کی جانب توجہ کرے اور اس کی پناہ میں آ ئے ، لیکن اگر شیطان کو (حاشا وکلّا ) ایک مستقل قوت کے طور پر دیکھا جائے تو اس کا مطلب ہو گا کہ اس کی جانب ایک خیالی طاقت منسوب کر لی گئی ہے جبکہ بعض لوگ نوراور ظلمت میں ایک طاقت سمجھتے ہیں۔
یہ بات گمراہی ہے اور جیسے کہ آپ جانتے ہیں کہ جو شخص یہ دعویٰ کر تا ہے کہ نور اور ظلمت ایک دوسرے سے الگ تھلگ مستقل قوت کا منبع ہیں اور نور کوئی بھی ضرر نہیں لاتا اور یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ ظلمت کی نمائندگی کرنے والی طاقتوں کو راضی رکھنا ضروری ہے۔ تو وہ اپنی اس کج فہمی کی پیروی میں ایسی ایسی برائیوں کا ارتکاب کرتے ہیں جو کسی کی عقل میں نہیں آ سکتیں ۔ شیطان کی پرستش کر نے والے لوگ اس فلسفے کے مطابق چلتے ہوئے اپنے خیال کے مطابق اس کے شر سے بچنے کے لیے ،اسے راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس جس طرح انسان کا یہ عقیدہ رکھنا افراط ہے کہ ایک عاجز مخلوق ، خالق کے ساتھ مخصوص بعض صلاحیتوں اور قوتوں کی مالک ہے ( حالانکہ وہ ایسی مخلوق ہے جس کے پاس انسان کے مقابلے میں فقط بہلانے پھسلانے کے اور کوئی ہتھیار نہیں) ، اسی طرح سے شیطان کے وسوسوں اور دھوکوں سے آنکھیں پھیر لینا اور اس کے دھوکوں اور حیلوں کو معمولی سمجھنا تفریط ہے ، کیونکہ اس کا مطلب قرآن و سنت کے بیانات سے صرف نظر اور منہ موڑنا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ، انسان کا کھلا دشمن ہے اور ہوسکتا ہے کہ انسان اگر غفلت میں پڑا رہے اور اپنے ارادے کا حق ادا نہ کرے، تو اس غدار اور مکار مخلوق کے ہاتھوں اپنی ابدی سعادت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔
کامیابی کے شکار
جس طرح ہلاکت کی طرف لے جانے والے منفی امور کے بارے میں توازن انتہائی ضروری ہے ، اسی طرح وہ انسان کو عطا ہونے والے خیر کے بارے میں بھی ضروری ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح انسان کو شر کی طرف مائل جذبات کو خیر کے رستے میں کام میں لانے کے لیے توازن کا اظہار کرنا چاہیے، اسی طرح اس پر لازم ہے کہ ایمان، عبادت اور اخلاق سے متعلق بدنی اور روحانی اعمال میں بھی افراط و تفریط سے اجتناب کرے اور صراط مستقیم سے نہ بھٹکے ۔ مثلاً آدمی کے لیے لازمی ہے کہ وہ نماز، روزہ ، زکاۃ ، دعا بلکہ ذکر و فکر اور تدبر میں بھی باریک بینی اور کمال کا خیال رکھے، کیونکہ اللہ نے اپنی کتاب حکیم میں فرمایا ہے :﴿ وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَیَرَی اللّہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَیُنَبِّءُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُون﴾[التوبہ :105](اور ان سے کہہ دو کہ عمل کیے جاؤ۔ اللہ اور اس کا رسول اور مومن(سب) تمہارے عملوں کو دیکھ لیں گے۔ اور تم غائب و حاضر کے جاننے والے ( اللہ واحد) کی طرف لوٹا ئے جاؤ گے ۔ پھر جو کچھ تم کرتے رہے ہو وہ سب تم کو بتا دے گا۔)پس اس قرآنی بیان میں حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے اعمال کو بالکل مکمل انداز میں ادا کر نے کا حکم ہے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ،اللہ کے رسول اور اصحاب بصیرت مومنوں کے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو تمام عبادات کے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ :‘‘کیا میں نے اس عبادت کو اسی طرح ادا کیا جس طرح کرنا چاہیے تھا؟’’ اور ہمیشہ کمال حاصل کرنے کی سعی کرتا رہے۔
آدمی کو چاہیئے کہ وہ کبھی نتیجے کو کسی بھی طرح اپنی طرف منسوب نہ کرے، اگرچہ اس نے عبادت کو اکمل ترین انداز سے ادا کیوں نہ کیا ہو اور کامیابی اور کامرانی کو اپنی طرف منسوب کر کے اپنے رب کے ساتھ بے ادبی اور بے شرمی کا معاملہ نہ کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نتیجے کا خالق ہے۔
اس طرح اگر عبادات اور اعمال کی ادائیگی میں تقصیر اور ان کو بغیر اہتمام کے غفلت اور سستی کے ساتھ ادا کرنا تفریط ہے تو آدمی کا اپنے اعمال میں صرف ہونے والی جدو جہد پر اترانا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق کو بھول کر نتیجے کو اپنی طرف منسوب کرنا ، افراط ہے کیونکہ اس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بے ادبی کا مرتکب ہوتا ہے جس سے انسان کا ایمان ہل جاتا ہے اور وہ شرک اور نفاق کی وادیوں میں ہلاک ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے تو اس نے عمل میں خوب محنت کی اور اس میں کمال اور باریک بینی کا خیال کیا، لیکن آخر کار جو کامیابیاں حاصل کیں ان کو نام و نمود اور شہرت کے لیے استعمال کر لیا۔
اس بنا پر اس انسان پر لازم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے لیے انجام دئے جانے والے اعمال میں کوئی کامیابی اور تفوق حاصل کیا ہو، وہ تواضع ، انکساری اور شرمندگی کو اپنا وتیرہ بنا لے اور ہمیشہ یہ کہے کہ :‘‘یہ کامیابیاں میرے لیے مناسب نہیں، لیکن اس فضل اور احسان کا سبب کیا ہے؟!‘‘
جی ہاں، انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو کبھی نہ بھولے کہ اس کی کامیابی اور کامرانی ، اس کے لیے آزمائش اور استدراج بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ہمیشہ گمراہی اور ہلاکت سے ڈرتار ہے۔
ذرا غور کیجئے کے اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب جیسے نبوت کے دعویدار اس زمانے میں ظاہر ہوئے جب حقیقی نور نے ہر جگہ کو روشن کر رکھا تھا اور اس کے سامنے سارے سورج اور چاند غروب ہو چکے تھے۔ پس یہ بد بخت ان بعض صلاحیتوں اور مہارتوں کا شکار ہو گئے جن کا انہوں نے اپنے اندرادراک کیا اور اس کی وجہ سے تکبر اور خود ستائی کے چنگل میں پھنس کر ہلا ک ہو گئے اورمٹ گئے ۔
انانیت کے زمانے میں ’’مہدیوں‘‘(!)کی کثرت
یہ بات یا د رہے کہ اس طرح کی گمراہی اور انحراف کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہوتی کیونکہ ہر زمانے اور ہر جگہ اس طرح کے بہت سے واقعات پیش آ چکے ہیں۔ آپ اس زمانے میں کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی درجے تک خوبصورتی سے کلام کرنا جانتے ہیں یاکو ئی دو چار سطریں لکھ لیتے ہیں ، یا روحانی منازل میں تھوڑی سی مسافت طے کر لیتے ہیں.... تو اس کے بعد توازن کھو بیٹھتے ہیں اور اپنے آپ کو قبلہ گاہ اور قطب نما بنانے کی کوشش کرتے ہوئے’’انا‘‘اور ’’حب ذات‘‘ کو اپنا اوڑہنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی کم علمی کے باوجود جب سادہ لوح لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا ہوتے دیکھتے ہیں تو اپنے آپ کو لکین کے لیے چاند سمجھنے لگتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے زمانے میں مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کی تعداد میں
کا سبب یہی ہے ، حتی کہ اپنے اس معاشرے میں سے پاچن یا چھ مہدیوں (!)سے میرا تعارف ہوا ہےبلکہ ان میں سے تین نے خود مجھ سے ملنا چاہا۔
مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان میرے پاس آیا اور بتایا کہ اس کی عمر بائیس سال ہے اور کہنے لگا کہ:‘‘حضرت پہلے میں اپنے آپ کو صرف حسینی سمجھتا تھا، لیکن کچھ عرصہ قبل گہری تحقیق اور تمحیص کے بعد معلوم ہوا کہ میں ’’حسنی‘‘ بھی ہوں۔ چنانچہ میں نے اس اس سے تواضع اور انکساری سے متعلق بعض امور کے بارے میں بات کی اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ چھوٹوں کے ہاں تکبر اور اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے ظاہر کرنے کے لیے اونچاہونے کی کوشش ، ان کے چھوٹا ہونے کی علامت ہے ، جبکہ بڑوں کی عظمت کی علامت یہ ہے کہ وہ چھڑی کی طرح تواضع کی وجہ سے جھکتے ہیں ۔
پھر جب میں اس سے یہ بات کر چکا تو واپسی کے لیے اٹھا جبکہ میرا خیال تھا کہ اس نے بات مان لی ہے ، مگر دروازے سے نکلتے ہوئے کہنے لگا:‘‘ٹھیک ہے حضرت،لیکن اس بارے میں اگر آپ کوکوئی اختیار نہ دیا گیا ہو ، تو آپ کیا کر سکتے ہیں’’۔
نبوت کے سوا کوئی ایسا مقام نہیں جس کا اعلان اور اظہار انسان پر لازم ہو، یہاں تک کہ اگر وہ شخص ابو حنیفہ یا شافعی بھی ہو تو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے ابو حنیفہ یا شافعی ہونے کا بتلائے اور یہی معاملہ مہدیت کا بھی ہے ، لیکن یہ بات ان لوگوں کو سمجھانا نہایت مشکل ہے جو اس سوچ کے آگے اپنے دل کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اے اللہ ان متکبر ان پرست لوگوں کو صراط مستقیم کی طرف رہنمائی فرما جو مہدی ہونے کے دعویدار ہیں!
آخر میں ،میں اس جانب بات کی ضرورت کی جانب بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ایسے معاملات کا دعویٰ کرنے والے اشخاص کے وجود کے احتمال سے صرف نظر نہیں کر سکتے اگرچہ وہ ایک ایسے دائرے کے اندر کام کر رہے ہوں جس کی بنیاد تواضع ، اخلاص اور ذات کے انکار پر ہو بلکہ ان کو منوانا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی ذاتی انانیت کو جماعتی انانیت کی جانب منسوب کر دیتے ہیں۔
مثلاًان میں سے کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ :’’میں ابھی تک طالب علم تھا جبکہ فلاں شخص کو ہزار فرشتوں اور روحانی مخلوق کا شرف حاصل تھا ، مگر ان میں سے نو سو اسے چھوڑ کر میرے پاس آ گئے۔‘‘
ہر زمانے میں ایسے لوگوں کی بہت سی اور مختلف مثالیں ہیں جو دھوکے اور فریب کا شکار ہو کر نفس اور شیطان کے قیدی بن جاتے ہیں۔
اس وجہ سے انسان کو چاہیئے کہ وہ اس زمانے میں کانٹوں کے پھیلنے کے احتمال کو یاد رکھے جس میں بیج اگتے اور پھول اور باغ کھلتے ہیں۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے رستے پر ہو شیاری، بیدار مغزی اور بصیرت کے ساتھ چلے۔
جی ہاں ، گمراہ کرنے والوں کا ظہور ہر وقت ممکن ہے اور یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے پیچھے سادہ لوح لوگ چل پڑتے ہیں ۔ پس جس طرح پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی اگتے ہیں اور بلبلوں کے ہمراہ ہڑ ہڑ بھی بولتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں نے بلبل کے نغمے نہ سنے ہوں اور ان کے کان اس کی خوبصورت آواز سے آشنا نہ ہوں ان کو ہڑ ہڑ کی آواز بھی بھاجائے۔
اس وجہ سے ، ان لوگوں کے دعوؤں کے فریب سے بچنے کے لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم ہمشہ بیدا ر مغزی اور احتیاط سے آگے بڑھیں اور واقعات کو سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی بصیرت سے دیکھیں ، اللہ تعالیٰ ان سے لاکھوں بار راضی ہو جائے۔
- Created on .