خود احتسابی اور استغفار
سوال: مصائب کا سامنا کرتے ہوئے کون سے امور پیش نظر رہنے چاہئیں تاکہ انسان بحیثیت مومن اس دنیا کی آزمائشوں پر پورا اترے؟
جواب: قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ میں ہے: ﴿مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ﴾[النساء:79] ((اے آدم زاد)تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہےاور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی شامت اعمال کی وجہ سے ہے) جو لوگ اس حکم حداوندی پر ایمان رکھتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اوپر آنے والی ہر مصیبت اور پریشانی کو سب سے پہلے ا پنے گناہوں اور غلطیوں کا نتیجہ سمجھیں۔ مثال کے طورپر اگر ان کے ہاتھ سے کوئی گلاس یا پلیٹ گر کر ٹوٹ جائے تو انہیں سوچنا چاہیے کہ ان سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے،جس کی وجہ سے یہ نقصان ہوا ہے، کیونکہ کائنات میں کوئی بھی واقعہ محض اتفاق سے وقوع پذیر نہیں ہوتا۔ اگرزندگی کی روانی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ معمولی معمولی نقصانات بھی تنبیہ ہوتے ہیں اور وقوع پذیر ہونے والا ہرواقعہ کسی حقیقت کی علامت ہوتا ہے۔ اگر لوگ اس نشانی کی طرف توجہ کریں، ندامت کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور بعد میں آنے والی بڑی مصیبتوں سے حفاظت کے لیے کوئی نیک کام کریں تو خدا کے فضل سے انہیں نجات نصیب ہوگی۔ چھوٹے نقصانات مثلاً گلاس وغیرہ کا ٹوٹنا بڑے نقصانات سے بچا سکتا ہے اور گناہوں کا کفارہ بن سکتا ہے۔ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ مومن کو پیش آنے والی ہر مصیبت، بیماری اور پریشانی حتی کہ اس کے پاؤں میں چبھنے والا کانٹا بھی اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔[1] جو لوگ اپنے اوپر نازل ہونے والے مصائب کے حقیقی اسباب نہیں جان سکتے وہ عام طورپر حق تعالیٰ سے گلہ شکوہ کرنے لگتے ہیں۔
اصل قصوروار کی تلاش
ہمیں رونما ہونے والے واقعات کے اصل اسباب کا ہمیشہ واضح علم نہیں ہوتا، تاہم اہل ایمان کو اپنے گناہوں کے بارے میں سوچتے رہنا چاہیے حتی کہ ان مصائب کے دوران بھی جن کا ان کے ساتھ بظاہر کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ کسی کو قصور وار ٹھہرانے کے سلسلے میں خود احتسابی بہت ہی اہم اقدام ہے۔بصورت دیگر جو لوگ اپنے سوا کسی اورکو قصور و ار ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں عمر بھر کی کوشش کے باوجود کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ اس بارے میں بدیع الزمان سعید نورسی اپنے ایک لیکچر میں کہتے ہیں: ’’آج مجھے اپنے مصائب اور غلط کاموں کے حقیقی سبب کا علم ہوگیا ہے۔ میں انتہائی ندامت سے کہتا ہوں کہ میری غلطی یہ ہے کہ میں نے قرآن کریم کی خدمت کو روحانی ترقی کا ذریعہ بنایا ہے۔‘‘یہ الفاظ اس عظیم ہستی کی خود احتسابی کی گہرائی پر دلالت کرتے ہیں ،نیز ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایمانی خدمات کو روحانی ترقی یا خدائی الہامات اور نعمتوں حتی کہ جنت کے حصول اور جہنم سے نجات جیسے عظیم مقاصد کا ذریعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ جنت کے شوق یا جہنم کے خوف کو حقیقی عبادت پر ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ خلوص کے ساتھ کیے گئے اعمال پر بہت زیادہ نوازتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لامحدود ہیں جبکہ ہماری عبادت اور بندگی محدود ہوتی ہے ،حتیٰ کہ اگر آپ کروڑ پتی یا ساری دنیا کے حکمران بھی بن جائیں تب بھی آپ کو خرچ کرتے ہوئے ہچکچاہٹ ہوگی، کیونکہ جس قدر آپ خرچ کریں گے اسی قدر آپ کی دولت میں کمی آئے گی، لیکن حق تعالیٰ کی نعمتیں بے شمار ہیں، اس لیے آپ جو کچھ بھی مانگیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی عطاؤں کے مقابلے میں کم ہی رہے گا۔
ہر قسم کے گلے شکوے سے اجتناب
جیسا کہ ہم نے ابھی کہا ہے کہ جو لوگ اپنے اوپر نازل ہونے والے مصائب و مشکلات کے اسباب کا ادراک نہیں کرپاتے وہ بعض اوقات ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں،جو حق تعالیٰ سے شکوے کے زمرے میں آتی ہیں۔ اپنے ذاتی حقوق کی حفاظت کے لیے حکام سے مجرموں کی شکایت لگانا درست ہے۔ دوسرے لفظوں میں جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی ہورہی ہے وہ فطری طورپر حق تعالیٰ کے حضور دعا یا اصحاب اقتدار سے درخواست کرکے انصاف مانگتے ہیں، تاہم کسی بھی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے سامنے حق تعالیٰ کی شکایت کرے۔ کھلم کھلا ایسا کرنا تو درکنار مصائب و آفات کا سامنا کرتے ہوئے آہ بھرنا یا اشارہ و کنایہ سے افسوس کا اظہار کرنا بھی حق تعالیٰ سے شکوے کے زمرے میں آتاہے، لہٰذا ہر ایسے رویے اور بات سے بچنا چاہیے، جس سے واضح طورپر یا اشارتاً حق تعالیٰ سے شکایت کا اظہار ہوتا ہو۔
دراصل اپنے آپ کومصائب و آفات کے نزول کا ذمہ دار ٹھہرانا سنجیدہ خود احتسابی کے احساس پر موقوف ہوتاہے جبکہ خود احتسابی کا شعور اللہ اور آخرت پر مضبوط ایمان پر موقوف ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ’’اپنا محاسبہ خود کرلو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔‘‘ اس سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ خود احتسابی کا آخرت میں حساب و کتاب کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ اولیائے کرام کی دعاؤں اور مناجات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے آخرت میں اپنے اعمال کے محاسبے کے اندیشے سے وجود میں آنے والی خوداحتسابی کے گہرے شعور کے ساتھ زندگی گزاری۔ مثال کے طورپر شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے اپنی ایک مناجات میں اپنے آپ کو اتنا ملامت کیا کہ شاید ہم نے اپنی پوری زندگی میں اپنے نفس کو اتنی ملامت نہیں کی ہوگی۔ اسی طرح شیخ ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ نے اپنی ایک مناجات میں اپنے آپ کو متعدد سلبی صفات کے ساتھ ملامت کرنے کے بعد حق تعالیٰ سے پُر امید ہوکر مغفرت طلب کرتے ہوئے کہا: ’’میرے جیسے بہت سے لوگوں نے آپ کی رحمت کے دروازے پر دستک دی اور انہیں خالی نہیں لوٹایا گیا۔‘‘ حضرت حسن بصری کی ہفت روزہ مناجات جو’’ قلوب ضارعہ ‘‘[2] میں شامل ہے، بھی اس موضوع کی اہم مثال ہے۔ ہفتے کے ہر دن میں مخصوص دعاؤں کا مجموعہ پڑھنے والی یہ یادگار شخصیت اپنے آپ کو معمولی معمولی باتوں پر بھی بہت زیادہ ملامت کرتی تھی۔ایمان کا یہ ہیرو جو نبی کریم ﷺکے بعد والی نسل کے اہم ترین ا فراد میں سے تھا، جس نے صحابہ کرام سے براہ راست استفادہ کیا، جو بصرہ کے علاقےمیں گمراہ فرقوں کے سامنے سداسکندری بن کر کھڑا رہا اور جس سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بھر پور استفادہ کیا، خوابوں میں بھی گناہوں سے کوسوں دور ر ہا۔ یہ عظیم انسان ہر روز اپنا محاسبہ کرتا ہے، اپنے بُرے اعمال کو ایسےبیان کرتاہےجیسے وہ واقعتاًاپنے آپ کو سب سے زیادہ گناہ گارسمجھتاہو اور خدا کی طرف ایسے رجوع کرتا ہے جیسے وہ روحانی اعتبار سے یقیناًنقصان اٹھانے والا اور مسلسل گناہوں کا ارتکاب کرنے ہو۔
استغفار کا باعث بننے والی خود احتسابی
جن لوگوں کو خود احتسابی کے شعور کے تحت اپنے گناہوں کا احساس ہوتا ہے وہ نتیجتاً نادم ہوکر مغفرت طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مختلف گناہوں کا ذکر کرنے اور یہ بتانے کے بعد کہ جوان گناہوں کا ارتکاب کرے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا، صدقِ دل سے نادم ہونے والوں کو درج ذیل الفاظ میں خوشخبری سناتے ہیں: ﴿إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا﴾ [الفرقان : 70] (مگرجس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیےتو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تو بخشنے والا ہے اور مہربان ہے)
اس آیت مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ اگر گناہوں اور برے کاموں کی وجہ سے روحانی بگاڑ کے شکار کے لوگ نادم ہو کر فوراً حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور استغفار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کی سیئات کو حسنات میں بدل دیں گے۔ بدیع الزمان اس آیت مبارکہ کو ایک اور زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گناہوں کے ارتکاب کی لامحدود انسانی صلاحیت نیکیوں کی صلاحیت میں تبدیل ہو جاتی ہے،جس کے نتیجے میں حقیقی ندامت کے ساتھ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا ان میں اتنی بڑی تبدیلی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
استغفار: شخصیت کے احیاء کا چشمہ حیات
اللہ کےرسول اکمل الصلوات و التسلیمات علیہ نے مغفرت طلب کرنے کی اہمیت کو درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ’’جو شخص (قیامت کے دن) اپنے اعمال نامے کو دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس میں استغفار کی مقدار کو بڑھائے۔[3] استغفار کے ہیرو ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں ایک دن میں سو سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ ہم اس کی توجیہ روحانیت کے سفر میں آپ ﷺ کی مسلسل ترقی کی علامت سے کرسکتے ہیں اور اسے دیگر تمام انسانیت کے لیے مثالی نمونہ قرار دے سکتے ہیں۔ معاشرے میں قائدانہ منصب پر فائز شخص اپنے رویوں اورطرز ہائے عمل کے ذریعے پورے معاشرے کے لیے نمونہ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طورپرکسی ادارے کا بدعنوان سربراہ اپنے ماتحتوں کے بدعنوان بننے کا باعث بن سکتاہے۔ اسی طرح ہمیشہ نیکی کے لیے کوشاں رہنےوالااچھا رہنما لوگوں کی نیکی کی طرف رہنمائی کے سلسلے میں ایک اہم محرک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو رسول اللہ ﷺجو ایک مثالی نمونہ تھے اور جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو قدسیوں کے مقام تک بلند کردیا ، نے ایک دن میں سو سو دفعہ استغفار کیا۔ درحقیقت کسی بھی درجے کے اہل ایمان اگراپنی گزشتہ زندگی کا جائزہ لیں تو انہیں ایسے بہت سے کام نظر آئیں گے جن پر انہیں حق تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ کہیں جاتے ہوئے انہوں نے کسی حرام کردہ چیز پر شہوت سے نگاہ ڈالی ہو یا کسی اور موقع پر کسی کی غیبت کی ہو بغیر اس کے کہ انہیں اس گناہ کی سنگینی کا احساس ہوا ہو۔ لوگوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ایسا ایک گناہ بھی ان کی بربادی کے لیے کافی ہے، لہٰذا انہیں استغفار کے ذریعے فوراً پناہ مانگنی چاہیے۔ بدیع الزمان "لمعات"[4] میں اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ معمولی سی چیزیں بھی انسان کی ہلاکت کا باعث بن سکتی ہیں: "لہٰذا چوکنے اور محتاط رہو۔ ہمیشہ احتیاط سے اور نقصان کے اندیشے سے کام کرو۔ کسی معمولی سی چیز ، بات ، دانے، نظر ، اشارے یا بوسے پر جان مت دو۔ اپنی ان صلاحیتوں کو جو اتنی وسیع ہیں کہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں ایسی معمولی چیزوں میں فنامت کرو۔"لوگ دنیاوی معاملات کے بارے میں سنجیدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر وہ کوئی کاروبار شرو ع کرنے سے پہلے اس کے امکانات کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق سرمایہ کاری کرتے ہیں۔نیز وہ ماہانہ بنیادوں پر ترقی اورمنافع کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اگر اس عارضی دنیا کے کاروبار کے لیے اس قدر منصوبہ بندی اور جانچ پرکھ کی جاتی ہے تو کیا ہمیں اپنی ابدی زندگی کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ غور و خوض نہیں کرنا چاہیے؟
میرے خیال میں اس سےمتعلق ایک اور نکتے کو بیان کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ بدیع الزمان کہتے ہیں: "دعا اور اللہ پر اعتماد نیکی کی طرف ہمارے رجحان کوبہت تقویت پہنچاتاہے، جبکہ توبہ اور استغفار برائی کی طرف ہمارے میلان کو ختم کرتا اور اسے حد سے تجاوز کرنے سے روکتا ہے۔" یعنی توبہ اور استغفار برائی کی طرف انسانی میلان کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرتاہے اورہتھوڑے کے ذریعے گناہوں پر ضرب لگا کر ان کے زور کو توڑتا ہے، جبکہ ایک طرف توبہ و استغفاراور دوسری طرف دعاؤں کے پروں کی مدد سے پرواز کرنے والے لوگوں کے بارے میں امید ہے کہ وہ خدا کے فضل سے انسانیت کے کمال تک پہنچ سکیں گے اور اپنے آپ کو فخرانسانیتﷺکے قدموں میں پائیں گے۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ لوگ اپنے دلوں اور روحوں کی اصلاح کی کوشش کرنے کے بجائے شروع ہی سے اپنی اصلاح کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرسکتے ہیں، کیونکہ کسی چیز کے تباہ و برباد ہوجانے کے بعد اس کی بحالی بہت مشکل ہوتی ہے۔ میں اپنی کئی گفتگوؤں میں بتا چکا ہوں کہ جب ایک نوجوان امام کی حیثیت سے ادرنہ کی سلیمی مسجد میں میری تقرری ہوئی تو اس مسجد کی بحالی کا کام شروع ہوچکا تھا ۔ ادرنہ میں میرے چھ سات سال کے قیام کےدوران اس مسجد کی بحالی کا کام ابھی مکمل نہ ہوا تھا، حالانکہ سلطان سلیم سوم کے دور میں یہ مسجد چھ سال کے عرصے میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی تباہ حال چیز کو اس کی اصل صورت میں بحال کرنا اسے نئے سرے سے تعمیر کرنے سے کہیں زیادہ دشوارہوتا ہے ۔ لہٰذا گناہوں کی وجہ سے تباہ حال شخص کی روحانی اعتبار سے بحالی اتنی آسان نہیں ہے جتنی کہ سمجھی جاتی ہے ۔ اسی لیے انسان کو آغاز ہی سے تخریب کا شکار ہونے کے بارے میں چوکنا اور گناہوں سے محتاط رہنا چاہیے۔
[1] صحیح البخاری، المرضی،1۔
[2] "قلوب ضارعہ" دعاؤں اور مناجات کا مجموعہ ہے،جسے شیخ فتح اللہ گولن نے مختلف اسلامی مآخذ سے ایک جلد میں جمع کرکے ترتیب دیا ہے۔
[3] کنز العمال، 1/475، حدیث نمبر2065۔
[4] "لمعات" ممتاز مسلمان عالم بدیع الزمان سعید نورسی (1876-1960) کے رسائل نور کے مجموعے کی چار بنیادی جلدوں پر مشتمل ہیں۔ قرآن کریم کی اس جدید تفسیر کی دیگر تین جلدیں کلمات، مکتوبا ت اور اشعات ہیں۔
- Created on .