نفس مطمئن

نفس مطمئن

سوال: نبی اکرمﷺہمیں دعا کے جو الفاظ سکھاتے ہیں، ان میں یہ دعا بھی شامل ہے(اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَفْسًا بِكَ مُطْمَئِنَّةً، تُؤْمِنُ بِلِقَائِكَ، وَتَرْضَى بِقَضَائِكَ، وَتَقْنَعُ بِعَطَائِكَ)(1) (اے اللہ میں تجھ سے ایسے نفس کا سوال کرتا ہوں جو تجھ سے مطمئن ہو۔جو تجھ سے ملاقات پر ایمان رکھتا ہو،تیرے فیصلوں پر راضی اور تیری عطا پرقانع ہو)۔ اس دعا میں وارد لفظ ’’نفس مطمئنہ‘‘ سے ہم کیا مراد لے سکتے ہیں؟

جواب: ’’نفس مطمئنہ‘‘ کے بارے میں بات ذرا طویل ہوجائے گی۔ نبی کریم ﷺ حدیث شریف میں فرماتے ہیں: ’’ أَعْدَى عَدُوٍّ لَكَ نَفْسُكَ الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيْكَ ‘‘ (تیرا سب سے سخت دشمن تیرا وہ نفس ہے جو تیری پسلیوں کے درمیان ہے)۔(2)یہاں نبی کریم ﷺ سب سے سخت دشمن کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ وہ اس کا نفس ہے ،جو اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس لیے اس پر لازم ہے کہ وہ باریک بینی اور ہوشیاری کے ساتھ مجاہدے اور تزکئے کے ذریعے اس کا خیال رکھے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ جب آپ ﷺ مشرکین کے ساتھ جہاد سے واپس تشریف لائے تو فرمایا: ’’ قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِ“، قَالُوا: وَمَا الْجِهَادُ الأَكْبَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: “مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ ‘‘ (تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف واپس آئے ہو۔ تو پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول : جہاد اکبر کیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا: بندے کا اپنی خواہش کے خلاف جہاد) (3) کیونکہ انسان کا ایک ایسے دشمن کے خلاف جہاد جو اس کی پسلیوں کے درمیان چھپا ہوا ہے اورحملہ کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہے، اس دشمن سے جہاد کرنے سے زیادہ مشکل ہے جو انسان کی آنکھوں کے سامنے ہے اورو ہ اسے ظاہر باہر دیکھ رہا ہے۔ اگلی بات یہ ہے کہ دشمن سے جہاد کرنےاسے مارنے یاقتل کرنے میں جتنی بھی مادی مشکلات ہوں، بہرحال فتح کی صورت میں غنیمت یا اس طرح کی دوسری فوری چیزوں کے ملنے کا احتمال ہوتا ہے جبکہ انسان کو اپنے نفس کے خلاف جہاد اور اس پر غلبہ پانے اور اسے دبانے کا نتیجہ فوری طورپر سامنے نہیں آتا بلکہ اسے آخرت میں ملے گا ، مگر انسان کی فطرت یہ ہے کہ اسے فوری اور جلدی ملنے والے اجر کی لالچ ہوتی ہے جیسے کہ حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد رگرامی ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ * وَتَذَرُونَ الآخِرَةَ﴾ (القیامہ:20-21)(مگر تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو)۔

جی ہاں، انسان فطری طورپر چاہتا ہے کہ اس کی کوشش اور سعی کا نتیجہ فوراً مل جائے اوراس کے عمل کا اجر بھی جلدی مل جائے۔اس لیے اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر جہاد اگرچہ بذات خود ایک عظیم عمل ہے مگر جہاد اکبر کے مقابلے میں چھوٹا رہے گا اور جس مجاہدے کے بارے میں ہم بات کررہے ہیں وہ نفس کے پہلے مرتبے یعنی نفس ’’امارہ‘‘ سے ہوگا جیسے کہ قرآن کریم کہتا ہے: ﴿وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (یوسف: 53) (اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس امارہ انسان کو برائی ہی سکھاتا رہتا ہے، مگر یہ کہ میرا پروردگا ر رحم فرمائے، بیشک میرا پروردگار بخشنے والا ہے ، مہربان ہے)۔

نفس لوّامہ

جیسے کہ معلوم ہے کہ نفس انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے، اگرچہ اس کا کام برائی کا حکم کرنا ہے، مگراس میں تبدیلی اور ترقی کی صلاحیت بھی ودیعت ہے۔ اس لیے اگر ہم اس کی اچھی تربیت اور تزکیہ کریں تو ایک ایسی سواری بن جائے گا جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جائے گی اور کامیابی کی طرف کھینچے گی۔ نفس کی ترقی اور تبدیلی کی مثال حق تعالیٰ شانہ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَلاَ أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ﴾ (القیامہ:2)(اور میں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی)۔

یہاں نفس سے مراد، وہ نفس ہے جس نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور اس تبدیلی اور ترقی کا پہلا زینہ طے کرلیا ہے۔ یہ وہ نفس ہے جو انسان کو اس کی خطاؤں اور گناہوں پر ملامت کرتا ہے اور اسے ان آلودگیوں سے خلاصی کا رستہ یا ایسے اسباب تلاش کرنے پرمجبورکرتا ہے جن سے ان کا مقابلہ کرے تاکہ دوبارہ گناہوں اور خطاؤں میں پڑنے سے محفوظ رہے۔ یہ نفس اسے توبہ اور استغفار کی جانب لے جاتا ہے۔ اس لیے انسان کا نفس امارہ کی قید سے چھوٹ کر نفس لوامہ کے مرتبے میں داخل ہونے کی، نفس کے تزکئے اور ترقی میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے یہ پہلا قدم نفس کے دیگر مراتب کے زینے پر چڑھنے کے لیے نقطہ آغاز ہے کیونکہ انسان تدریجی طورپر ’’نفس مرضیہ‘‘ اور آخر میں ’’نفس زکیہ‘‘ یا ’’نفس صافیہ‘‘ تک، نفس امارہ اور نفس لوامہ کے مراتب سے گزرے بغیر نہیں پہنچ سکتا۔ پس جس طرح دائرے کے مرکز میں ایک چھوٹا سا زاویہ، اس کے محیط میں ایک بڑا زاویہ بناتا ہے، اسی طرح اگرچہ مرکز میں آغاز چھوٹا سا ہوتا ہے مگر نفس کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ پھر یہ نقطہ اپنی اہمیت کے برابر مشکل بھی ہے کیونکہ اس آغاز کے لیے ایک معین تبدیلی کا ظہور ضروری ہے۔ بالفاظ دیگر قدیم کو مٹانا، ماضی کو خیرباد کہنا، عادات و اطوار کو چھوڑنا اور نئے رستوں پر چلنا ہوتا ہے۔

اس طرح جو نفس انسان کو اس کے گناہوں اور خطاؤں پر ملامت اور ہمیشہ ان الفاظ : ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ (الاعراف: 23) (پروردگار ہم نے اپنے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا، تو ہم تباہ ہو جائیں گے ) کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو کر ان گناہوں میں دوبارہ نہ پڑنے کا ارادہ اور عزم ظاہر کرتا ہے، اگروہ ان کا مقابلہ اورمجاہدہ جاری رکھے گا تو وہ ’’نفس ملہمہ‘‘ کے مرتبے تک پہنچ جائے گا۔جو قلب و روح کے آسمان پر اڑتا ہے۔

نفس ملہمہ

’’نفس ملہمہ‘‘ وہ نفس ہے جس نے اپنی حرکات و سکنات میں اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر شرور کی تمام انواع کو ختم کردیا ہے اور اس میں اس کی صفائی ، پاکیزگی اور طہارت کے بد ر اللہ تعالیٰ کی جانب سے صلاحیتیں ظاہر ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو اچھائی ،نیکیاں اور وہ باتیں الہام فرماتا ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی طرف لے جاتی ہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ﴾ (العنکبوت:69) )اور جن لوگوں نے ہمارے رستے مین محنت کی ، ہم ان کو ضرور اپنے رستں پر چلا دیں گے۔ اور اللہ تو نیکوکاروں کے ساتھ ہے( دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا * فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا﴾ (الشمس:8-7)(اور (قسم ہے) نفس انسانی اور اس کی جس نے اسے درست کر کے بنایا۔ پھر اس کو بدکاری سے بچنے اور اور پرہیزگار بننے کی سمجھ دی)

نفس مطمئنہ

نفس مطمنۂ وہ نفس ہے جو ایمان و عرفان کے منازل میں روح کمال تک پہنچ گیا ہو اور اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے علاوہ تمام چیزوں کے دروازے بند کردیے ہوں ،چنانچہ اس کے اندر کسی اور شے کی خواہش نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ * ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً * فَادْخُلِي فِي عِبَادِي * وَادْخُلِي جَنَّتِي﴾ (الفجر:30-27) (اے اطمینان والی جان! اپنے رب کی جانب لوٹ چل۔ سو تو میرے خاص بندوں میں شامل ہو جا۔ اور میری بہشت میں داخل ہو جا)۔

ایسا نفس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی جانب متوجہ رہتا ہے، اپنی زندگی کا ہر ہر منٹ اور ثانیہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے کام میں لاتا ہے اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر راضی رہتا ہےکیونکہ انسان کا اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کے کاموں پر راضی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہے۔ اس لیے بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ’’نفس راضیہ‘‘ اور ’’نفس مرضیہ‘‘، نفس مطمئنہ کے دو کھلے پروں کی مانند ہیں کیونکہ ایسا شخص جو اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے، اللہ تعالیٰ کے جلال سے ہونے والے جفا، یا اس کے جمال کی وفاء میں کوئی فرق نہیں کرتا، یہ دونوں اس کے لیے ’’صفاء‘‘ ہیں۔ علاوہ ازیں چونکہ یہ شخص ’’ہل من مزید؟‘‘ (کچھ اور بھی ہے) کا سوال کرنے والے عظیم لوگوں میں شامل ہوتا ہے، اس لیے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں اضافے اور اللہ تعالی سے اسی طرح قریب ہونے کی کوشش اور سعی کرتا ہے جس طرح وہ انسان کے قریب ہے اور یہ کام ان فاصلوں کو طے کرنے سے ہوتا ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتے ہیں۔

نفس راضیہ

مذکورہ بالا دعاء میں ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے پہلے نفس مطمئنہ کا سوال فرمایا، اس کے بعد اس کے لیے کچھ اوصاف طلب فرمائے جن کو ہم اس نفس کی گہرائی یا ایسے پر کہہ سکتے ہیں جن کے ذریعے وہ ربانی آفاق میں اڑ سکتی ہے۔

آپ ﷺ نے اپنے رب سے ’’نفس مطمئنہ‘‘ کا سوال کرنے کے فوراً بعد یہ دعا کی کہ یہ نفس ’’اللہ تعالیٰ کی یقینی ملاقات پر ایمان رکھنے والا ہو خواہ وہ جلد ہو یا بدیر‘‘اور اس کو ’’مؤمن باقبئک‘‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا کیونکہ اس کا یہ ایمان ہے کہ وہ جس رستے پر رواں دواں ہے، وہ اسے لامحالہ اس ابدی ذات تک پہنچائے گا اور اسے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق اور محبت میں جلائے گا اور اس بات میں مصروفیت سے انسان کے دل میں غیر متزلزل اور مضبوط اطمینان پیدا ہوگا۔

’’وترضیٰ بضاکئک‘‘ کے الفاظ سے نبی اکرم ﷺ اس خواہش کا اظہار فرما رہے ہیں کہ اس نفس مطمئنہ میں اللہ تعالیٰ کی قضا پر رضا موجود ہو۔ اگرچہ بعض علماء نے قضا کی تعریف یوں کی ہے کہ: ’’ اللہ تعالی کا چیزوں کو ’’تعینات‘‘ کے مطابق مخصوص کرنا‘‘ لیکن اصول الدین کے اکثر علماء کہتے ہیں کہ قضا کا مطلب ہے: ’’لوح محفوظ میں لکھی اور مقدر چیزوں کو ان کے وقت پر نافذ کرنا‘‘۔

اگلی بات یہ ہے کہ انسان اپنی پوری زندگی میں جن واقعات سے دوچار ہوتا ہے، کبھی وہ اچھے ہوتے ہیں اور اپنے ظاہر کے لحاظ سے برے ،لیکن انسان اپنی نیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ ہر شے کو پوری بھلائی میں تبدیل کرسکتا ہے۔ مثلاً اگر وہ مصیبتوں اور پریشانیوں کو صبرو رضا کے ساتھ ملالے اور ہر نعمت اور کامیابی پر شکر و ثناء کرے تو وہ اس سب کو اپنے لئے نفع بخش بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے مقابلے میں جب بھی اسے حق تعالیٰ کے جلال سے کوئی جفا ملے تو اس پر شکایت کرے اور تقدیر کو گالیاں دینے لگے اور جب بھی حق تعالیٰ کے جمال سے کوئی وفا ملے تو اس نعمت کا انکار کرے اور یہ گمان کرنے لگے کہ اسے جو کچھ ملا ہے ،اس کے علم کی بدولت ملا ہے۔ تو یہ سب باتیں اس کے لیے شر اور نقصان بن جائیں گی۔ مطلب یہ ہے کہ کسی رحمت یا زحمت کا انسان کے لیے خیر یا شر ہونے کا تعلق اس کے بارے میں انسان کے موقف سے ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ کے قضا و قدر پر راضی ہونا اس کے حق میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

نفس مرضیہ

آخر میں آنحضرت ﷺ دعا فرماتے ہیں: ’’وتقنع بعطائک‘‘ یعنی اپنے لیے مقدر ہر اس شے پر قناعت اور اسے قبول کرلے جو اس پر انعام کی گئی ہے لیکن ایک مقام ایسا ہے جہاں ا نسان کو قناعت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کو حاصل کرنے اور زیادہ کرنے کی کوشش کرے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ پر ایمان اس کی خوشنودی کی طلب۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے شوق ، رغبت اور حرص اور لالچ کے ساتھ کوشش کرے اورمزید طلب کرنے سے کبھی قناعت کرے اور نہ رکے۔ بالفاظ دیگر اگر حرص ا ور طمع کاکوئی ایسا موقع ہو جو محض عبادت ہوسکتا ہو، تو وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہے۔ جی ہاں انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے رستے پر چلتے ہوئے ملنے والی چیزوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیشہ ’’ہل من مزید، ہل من مزید؟‘‘ کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو مزید طلب کرے ، البتہ دنیا، بدن اور جسم سے متعلق امور کے بارے میں بنیاد، اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر قناعت ہے۔ یہ ’’نفس مطمئنہ‘‘ کی طرف بڑھنے والے انسان کامل کی صفات میں سے ایک اور صفت ہے۔

نبی اکریمﷺ حق تعالیٰ شانہ سے یہ اہم امور صبح و شام مانگتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ علیہ السلام سب کچھ اپنے وسیع مرتبے اور اعلیٰ اور خصوصی دعاؤں سے تعلق کے ساتھ مانگا کرتے تھے۔ ا س لئے اگر ہم آپ علیہ السلام کی ان دعاؤں کا اندازہ اپنی کمزوری اور معمولی اہداف کے رخ سے لگانے کی کوشش کریں گے تو یہ حماقت اور آپ علیہ السلام کی بے ادبی ہوگی کہ گویا ہم آپ علیہ السلام کو اپنے پست مرتبے پر لانے کی کوشش کررہے ہیں، البتہ ہمیں چاہیے کہ ہم ان امور سے فائدہ اٹھائیں جو آپ علیہ اسلام نے اپنی دعامیں مانگے ہیں اور اس دعا کو اپنے لیے رہنما بنائیں۔ اس دعا میں آپ علیہ السلام ہمت کو اس کے آخری درجے تک بلند فرماتے ہیں اور اس کے ذریعے تعلیم فرماتے ہیں کہ ہم ہمیشہ بلندی اور اعلیٰ سے اعلیٰ کا سوال کریں۔ اس لیے ہمیں بھی کبھی بھی ہمت کو پست کرنا چاہیے اور نہ اکتانا۔ بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی اپنی ہمت اور ارادے کو بلند کریں کیونکہ ہمت کی بلندی ایمان کا حصہ ہے اور مطمئن اورمومن نفس کے ذریعے آخری سانس تک اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کوشش کریں۔

نفس زکیہ یا صافیہ

’’نفس زکیہ‘‘ اس سلسلے کی چوٹی اور انتہاء ہے۔ یہ مقربین کا رتبہ ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا﴾ (الشمس:9) (جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا، وہ مراد کو پہنچ گیا) جب سالک نفس کے مراتب کے زینے پر نفس مطمئنہ سے گزرتے ہوئے چڑہتا ہے اور اس اعلیٰ مرتبے تک پہنچتا ہے ، تو اسے فرشتوں کے پر اپنے اردگرد پھڑپھڑاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ فرشتوں کے مراتب میں پھر رہا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ : جب انسان اس چوٹی تک پہنچ جاتا ہے تو فرشتوں سے اعلیٰ مخلوق بن جاتا ہے۔

(1) الطبرانی، المعما الکبیر99/8:
(2) الدیلمی، مسدم الفردوس408/3:
(3) البہیقی، الزہد:165/1

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔