نہی عن المنکر میں توازن
سوال: قبل ا زیں آپ نے ذکر فرمایا کہ قربانی دینے والی ارواح کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ ان برائیوں سے صرف نظر کریں جن سے معاشرے کو نقصان نہیں پہنچتا، لیکن جب ہم ’’نہی عن المنکر‘‘ کے مسئلے کو دیکھتے ہیں تو وہ اسلام کی ایک اہم بنیاد معلوم ہوتاہے ۔ اس بنا پر گناہوں سے صرف نظر کرنے کی حدود اور برائیوں کو معاف کرنے کے ضوابط کیا ہیں؟
جواب: اس مقام پر ضروری ہے کہ ہم انفرادی غلطیوں، گناہوں اور ان جرائم اور منکرات میں فرق کریں جو معاشرے کے حقوق کی خلاف ورزی کہلاتے ہیں کیونکہ ان دونوں حالتوں کے اختلاف سے موقف بدل جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انفرادی گناہوں اور غلطیوں کےبارے میں اصل یہ ہے کہ ان سے چشم پوشی کی جائے اوران پرپردہ ڈالاجائے اور خود اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے لوگوں کے ساتھ حتی الامکان نرمی اور معافی کا برتاؤ کیا جائے لیکن اگر اس غلط کام کا رخ کسی اور شخص کی جانب ہوجائے یا اس سے لوگوں کے حقوق کونقصان پہنچے تو اس صورت میں اس منکر کو ہاتھ سے روکنا ضروری ہے۔اس کی سکت نہ ہو تو زبان سے اور یہ بھی نہ کرسکتا ہو تو (کم از کم) دل سے اس کو غلط سمجھے۔
معافی اور درگزر انفرادی حقوق میں ہے
یہاں انفرادی گناہوں کو بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ باطل کی تصویر کشی بھی صاف عقلوں کو مکدر کردیتی ہے۔ اس لیے اس کے فائدے سے نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن ہم ان افعال اوراقوال کو اس فہرست میں شامل کرسکتے ہیں جن سے اسلام نے عمومی طورپر منع فرمایا ہے۔ اس لیے اگر کوئی انسان دوسروں کے لیے برائی کا نمونہ نہیں بنتا یا دین کے اوامر کو ہلکا نہیں سمجھتا اور دینی اقدار کا استخفاف نہیں کرتا یا امت کے کسی حق کی خلاف ورزی نہیں کرتا، تو اس وقت اس سے عفو و درگزر کیا جاسکتا ہے۔
قرآن کریم نے کئی مقامات پرلوگوں سے درگزر اورحسن سلوک کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے اگرچہ وہ ہم سے برا سلوک ہی کیوں نہ کریں۔ مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾(آلِ عِمْرَانَ: 134) (اور غصے کو روکتے اور لوگوں کے قصور معاف کرتے ہیں اور اللہ تعالی نیکو کاروں کو دوست رکھتا ہے)۔ چنانچہ اس آیت کریمہ نے غصے پر قابو پانے اور لوگوں سے درگزر کو متقین کی ان صفات میں شمار فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایمان والوں کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان انفرادی غلطیوں اور گناہوں کے ساتھ اس انداز سے برتاؤ کریں جو قرآن کریم کے ان اصولوں کے مطابق ہو اور ان سے چشم پوشی کرتے ہوئے حتی الامکان ان پر پردہ ڈالیں۔
اسی طرح جاہلوں کے بعض تصرفات اور سلوک کے مقابلے میں مومنوں کا جو موقف ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ ان سے منہ موڑیں اور روگردانی کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کئی آیات میں ان لوگوں سے برتاؤ کی کیفیت بیان فرمائی ہے اورمومنوں کو حکم دیا ہے کہ : ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ﴾(سُورَةُ الأَعْرَافِ: 199) ((اے محمد) عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلون سے کنارہ کرو) دوسری جگہ فرمایا:﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾ (سُورَةُ الفُرْقَانِ: 63/25) (اور جب جاہل ان سے جاہلانہ گفتگو کرتے ہین تو کہتے ہیں سلام) وقال:﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ﴾
(سُورَةُ الْمُؤْمِنُونَ: 3) (اور جو بیہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں)
نہی عن المنکر کے وقت گناہ کی تشہیر سے بچیں
اس کے باوجود اگر انسان اپنے گناہوں اور غلطیوں پر اصرار کرے، ان کی پروا نہ کرے اور اپنی قباحتوں کے ذریعے دوسروں کے لیے مثال بن جائے، معاشرے کے حقوق پر دست درازی کرے ، تو اس وقت مناسب انداز سے اس منکر کو روکنا ضروری ہے۔ نبی کریمﷺ نے منکر کو تبدیل کرنے کے اسلامی اصول کو یوں بیان فرمایا ہے:
’’مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ“[1] (تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کردے، اگر ایسا نہ ہو سکے تو زبان سے اور اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو پھر دل سے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے)۔
اس کے باوجود انسان کے کاندھوں پر اپنے کسی بھائی کو گناہ کے دلدل میں دیکھ کر سب سے پہلے عائد ہونے والی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساحل سلامتی تک پہنچائے۔ اگر ہم میں اس کی سکت نہ ہو تو لازم ہے کہ ایسے شخص کی مدد حاصل کریں جو اس پر قادر ہو لیکن ایسا کرتے وقت بھی سخت چوکنا رہنے اور باریک بینی سے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گناہوں اورخطاؤں سے پردہ اٹھانے سے محفوظ رہیں اور گناہوں اورخطاؤں کا پرچار کرنے والے نہ بنیں۔ اس سے بچنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس کی وجہ سے ہم اپنے مخاطب کے دل میں شرمندگی کا سبب نہ بن جائیں اور وہ لوگوں اور معاشرے میں ذلیل و رسوا نہ ہوجائے کیونکہ اصل مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس دلدل میں پھنسنے والے انسان کو اس سے بچایا جائے۔
نصیحت کی باری اس وقت آتی ہے جب آدمی منکر کو ہاتھ سے نہ روک سکے لیکن یہاں بھی نصیحت کے اسلوب کی بڑی اہمیت ہے۔ مثلاً یہ بات ضروری ہے کہ ہم نصیحت کرنے کی بجائے اس کی متبادل تمام چیزوں کا خیال رکھیں اورایسا اسلوب اور ذریعہ اختیار نہ کریں جس سے مخاطب کوئی منفی رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اس لیے جو شخص اپنے بھائی کو برائی اورگناہوں کے دلدل سے بچانا چاہتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے کلام میں احتیاط کرے اور اچھی طرح سوچے بغیر کوئی لفظ زبان پر نہ لائے اور اگر اس کی باتوں سے مخاطب کی جانب سے کسی منفی رد عمل کا اندیشہ ہو تو ایسے شخص کی مدد حاصل کرے جس کی بات مخاطب سنتا ہو اور اس کا احترام کرتا ہو تاکہ اس کی بجائے وہ شخص اس کو نصیحت کرے۔
بعض مشکل امورمیں نصیحت کرنے والے شخص کو میدان سے بالکل باہر بھی نکل جانا پڑتا ہے اور وہ بالواسطہ طورپر مخاطب کی غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے مثلاً اس کو صبر اورنرمی کے ساتھ کوئی مختصر سا خط لکھ دے اوراس کا مقصد سوا اس کے کچھ نہ ہو کہ مخاطب اپنی بری حالت سے مطلوبہ اچھے رستے کی طرف آجائے اور وہ خط اس کے دروازے کے نیچے سے اندر ڈال دے یا ڈاک سے بھیج دے ۔۔۔۔۔ اس طرح اگر آپ مخاطب کو مشکل یا خجالت میں پڑنے سے بچانے کے لیے غلطیوں کے اظہار سے بچیں گے تو گویا تم نے اس کی عزت اور منصب و مرتبے کو بھی بچا لیا۔
یہاں سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مخاطب منکر کے ارتکارب سے رک جائے۔ اس لیے ہم جو بھی قدم اٹھائیں وہ اپنے حساب سے ہونا چاہیے اور ہمیں مخاطب کو کسی بھی لفظ کے ذریعے ڈانٹنے سے بچنا چاہیے کیونکہ مہارت کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ کو گناہ کہہ کر ذکر کیا جائے یا غلطی کرنے والے کو مشکل حالت میں ڈال دیا جائے۔ بلکہ مہارت ایسے کامیاب اور مثالی رستے تک پہنچنا ہے جو انسان کو گناہ سے بچالے۔
دکھ بھری مسکراہٹ کے ساتھ رہنمائی اور ڈراوا
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر برائی اور گناہ کو زبان سے بھی تبدیل نہ کیا جاسکتا ہو تو پھر دل سے ایسا کیا جائے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ ‘‘ (اگر ایسا نہ کرسکے تو زبان سے اور اگر اس پر بھی قدرت نہ ہو تو پھر دل سے)۔ علماء حدیث نے (اس کے عمومی معنی کو دیکھتے ہوئے) اس کا مطلب منکر کے خلاف دل سے ڈٹ جانے کی ضرورت کو لیا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کی مختلف تفسیر اور تشریح کی جاسکتی ہے۔مثلاً اس جملے سے ایسے منکرات کے مرتکب لوگوں سے قلبی تعلق ختم کرنے کی ضرورت کو بھی لیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ جب تم کسی ایسے انسان سے ملو تو اس کے سامنے اپنی تنگی اور دکھ بھری مسکراہٹ اوراس سے پہلو تہی کو ایسا ذریعہ بنا سکتے ہو جس سے وہ انسان اپنی غلطی کو سمجھ کر اس سے باز آجائے۔
آپ اپنے اس عمل کے ذریعے اس شخص سے نہیں بلکہ اس کے فعل سے روگردانی کررہے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ: ’’ اے اللہ میرے اس بھائی کو اس مصیبت سے نجات دے دے جس میں وہ گرفتار ہے اور اس کو ان گناہوں اور خطاؤں سے متنفر کردے ‘‘ بلکہ آپ کواس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہزار بار گڑگڑا کر دعا کریں کہ وہ اس مصیبت سے بچ جائے اور یوں کہیں: ’’اے اللہ ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنا اور اسے ہمارے دلوں میں سجا دے اور کفر ،گناہوں اور نافرمانی کو ہمارے لیے برا بنا دے اور ہمیں ہدایت یافتہ بندوں میں شامل فرما۔‘‘ اس کو آپ اخوت کے قانون کے فرائض اور حقوق میں سے سمجھیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ، عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ“[2] (آدمی کی اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعا مقبول ہے۔ اس کے سر کے پاس ایک موکل فرشتہ ہوتا ہے، وہ آمین کہتا ہے اور کہتا ہے کہ تیرے لیے بھی اسی کی مثل)۔
کافی عرصہ قبل مجھے ایک صاحب کے انحراف کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس کے بعد ایک بھی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا میں اس کو یاد نہ کیا ہو۔ اسی طرح ایک اور بڑے اچھے بھائی عقیدے کی ایک شکل میں گرفتار ہو گئے۔ چنانچہ جب بھی میں دعا کرتا ان کو ضرور دعا میں شامل کرتا تھا اور میں اس بارے میں کسی بھی سستی کو اخوت کے حق اور حقوق میں کمی سمجھا کرتا تھا۔ میں جو کہہ رہاہوں اللہ اس پر گواہ ہے۔ اس طرح حدیث کے لفظ سے دلی دعا پر بھی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے حدیث میں وارد لفظ ’’فبقلیہ‘‘ (اپنے دل سے) سے یہ سمجھنا کہ اس سے مراد دل سے بغض اور اس شخص سے قطع تعلق اور اعراض کر ہے، ناقص فہم ہے کیونکہ یہاں اہم بات اس منکر اور غلیظ کام کی مخالفت کرنا اور اس کے خلاف کھڑا ہونا ہے جو اللہ کو ناپسند ہے اور اس کو دور کرنے کے لیے حتی الوسع کوشش اور اس غلطی میں پڑنے والے بھائی کو اس سے بچانا ہے۔
عمومی حق، حقوق ا للہ میں سے ہے۔
معاشرے کو کسی بھی طرح نقصان پہنچانے والے گناہوں اور منکرات کی سنجیدگی اور حقیقی طورپر مخالفت (خواہ ہ وسیع پیمانے پر ہو یا تنگ درجے میں) اور اسے ختم کرنا، حقوق اللہ کے حترام کے تقاضوں میں سے ایک تقاضہ ہے۔ اسی طرح یہ ایک دینی اور معاشرتی فریضہ بھی ہے کیونکہ (جیسا کہ معلوم ہے) اسلام عام لوگوں کے حقوق کو حقوق اللہ کا حصہ سمجھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ گناہ اور شرور جو معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں وہ ( معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات اور منفی نتائج کی وجہ سے) دیمک کی طرح ہیں ۔ وہ ان گناہوں کی طرح نہیں جو کسی فرد تک محدود رہتے ہیں اور آگے نہیں پھیلتے۔ اس لئے اس قسم کے شرور اور گناہوں سے چشم پوشی یا ان کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرناناممکن ہے۔ اس لیے قانون نافذ کرنے کے ذمہ داروں کا فرض ہے کہ وہ ایسی غلطیوں اور شرور کو روکنے کی پوری کوشش کریں اور مومنوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ متعلقہ اداروں سے مناسب انداز میں رجوع کریں اور اس بارے میں مسؤولین کی حوصلہ افزائی کریں اور ضرورت پڑے تو گواہی کا حق استعمال کرکے ان سے تعاون کریں۔ میں بار دگر کہتا ہوں کہ ان سب امور کا مقصود غلطی کرنے اور گمراہ ہونے والےانسان کو پریشان کرنا نہیں، بلکہ مقصد بے حیائی کے ان کاموں کے خلاف کھڑا ہونا ہے جو معاشرے کی عمارت کو اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں اور معاشرے کو ان برائیوں سے بچانے اور محفوظ کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
یہاں ہم اس آیت کو ذکر کرسکتے ہیں جو بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی مذمت میں نازل ہوئی اور جوہمارے لیے ایک ا صول کی حیثیت رکھتی ہے۔ فرمان خدا وندی ہے: ﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ * كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾(سُورَةُ الْمَائِدَةِ: 78-79) (جو لوگ بنی اسرائیل میں کافر ہوئے ان پر داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لئے کہ نافرمانی کرتے تھے اور ھد سے تجاوز کرتے تھے (اور) برے کامون سے جو وہ کرتے تھے، ایک دوسرے کو نہیں روکتے تھے۔ بلا شبہہ وہ برا کرتے تھے)۔ اگر ہم اس آیت میں مذکور لفظ ’’لایتناہون‘‘ کی زیادہ تشریح کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ جن لوگوں کی جانب اس آیت کا موضوع اشارہ کررہا ہے انہوں نے ایسا کوئی مشترکہ طریقہ اور سوچ نہیں اپنائی جو ان برائیوں کے ارتکاب میں رکاوٹ بنتی کیونکہ وہ اس بارے میں اجتماعی سوچ کی طرف رجوع کرتے تھے اور نہ اس کا خیال رکھتے تھے اور ان میں اس بارے میں کوئی رابطہ اور تربیت بھی نہ تھی۔ اس لیے برائی سے منع نہ کرنے والے ان لوگوں پر لعنت کی گئی بلکہ ان کی شکلیں مسخ کردی گئیں۔(3)
اس سے معلوم ہوا کہ برائی کو دیکھنے والے انسان کی ذمہ داری ،اس بارے میں طاقت رکھنے والے مومنین کے فرائض اور عام طورپر پورے معاشرے کی گردن پر آنے والی ذمہ داری کے بارے میں مشترک سوچ اور فکر اپنانے کی ضرورت ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بارے میں کئے جانے والے الفاظ اور نامناسب باتوں سے درگزر کرنے کی پوری پوری کوشش کرے کیونکہ جس طرح معدے اور انتٹریوں میں بعض ایسے مادے اور ایسڈ ہوتے ہیں جو کھانوں کو ہضم کرتے ہیں۔ اسی طرح مومن کے دل اور روح کے عالم میں بھی ایسے نظام ہونے چاہئیں جو اس طرح کی برائیوں ، منکرات اور ظلم و جور کو ختم کریں۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ(پوری آسانی کے ساتھ) ان غلط تصرفات سے عفود و درگزر کرے جو اس کے حق میں کئے جاتے ہیں لیکن گر کسی انسان کی شخصیت میں کسی گروہ یا جماعت کو نشانہ بنایا جائے اور اس کی شہرت کو بٹہ لگایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاملہ فرد سے نکل کر جماعت کی حدود میں داخل ہوگیا ہے۔ اس لیے انسان کا اس حالت میں اپنے دفاع سے دستبردار ہونا اور ایسے ظلم کو دور نہ کرنا درست نہ ہوگا بلکہ اس کو چاہیے کہ وہ وضاحت، سوچ کی درستگی اور جھوٹ کا پردہ چاک کرکے اس ظلم کو روکے ،یہاں تک کہ (اگر ظلم و جور جاری رہے) تو و ہ ظلم کرنے والوں کوخاموش کرانے اوران کے ظلم کو روکنے کے لیے دیگر قانونی طریقے بھی اختیار کرسکتا ہے بلکہ ان جھوٹے الزامات کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کے ہر جانہ کے لیے عدالتوں میں مقدمے بھی دائر کئے جاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہ اللہ نے ان کوجیلوں میں رکھنے والوں، قید تنہائی کی سزائیں دینے والوں اور دس بار سے زائد کھانے میں زہر دینے والوں کو معاف کرنے کا اعلان فرمایا مگر اس کے باوجود ایمانی اور قرآنی خدمت کے متعلق کسی بات پر خاموش نہیں رہتے تھے بلکہ ظالموں کو اپنی زبردست تقریریوں سے دندان شکن جواب دیا کرتے تھے۔ اس طرح وہ قرآن کریم، حقوق اور عام لوگوں کا دفاع کرتے تھے اورایسا کیوں نہ کرتے کہ اس بارے میں ان کے سامنے رسول اکرم ﷺمقدس نمونہ موجود تھا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: “مَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ، فَيَنْتَقِمُ بِهَا لِلَّهِ”[4] (رسول اکرمؓ نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کوئی حکم توڑا جائے تو پھر اللہ کی خاطر اس کا بدلہ لیتے تھے)۔
[1] ۔صحیح مسلم، الایمان:78
[2] ۔صحیح مسلم ،الذکر والدعاء:88
[3] ۔ارشاد خداوندی ہے: ﴿فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِيسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ * فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ﴾(سُورَةُ الأَعْرَافِ: 165-166) (جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کر دیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ھم نے نجات دے دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے۔ غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پر اصرار اور ہمارے حکم) سے گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہو جاؤ)
[4] ۔صحیح البخاری ، 23 ،صحیح مسلم ، الفضائل:77
- Created on .