اہلیت اور استحقاق
سوال: قبل ازیں آپ نے ذکر فرمایا کہ جس شخص کے اندر وہ اہلیت اور استحقاق نہ ہو جو ایمان کی خدمت کا تقاضا ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے طریقے کے مطابق خدمت کے دائرے سے دور کردیا جائے۔ اس بنا پر سوال یہ ہے کہ وہ کون سی ضروری صفات ہیں جن سے آدمی اپنے کام کے قابل ہوجاتا ہے اور اس برے انجام کا شکار نہیں ہوتا؟
جواب: اہلیت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی وہ کام کرنے کا ہل ہو جو اس کو سونپا جارہا ہے اور اسے اچھے انداز سے پورا کرے اور اس کو اپنا حق سمجھنا، وہ انجام بد ہے جو انسان کو اس کے برے کاموں اور منفی اعمال کے نتیجے میں اس کا مقدرہوجاتا ہے۔ لیکن یہاں میں اس جانب بھی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سب کے سب اعمال کا دارومدار اللہ تعالیٰ کا فضل و کر م اور اس کی رحمت پر ہے اگرچہ انسان بظاہر قابلیت اور لیاقت کا بالفعل مالک کیوں نہ ہو۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اعلیٰ صلاحیتوں اوراستعداد کے مالک لوگ جو کامیابیاں حاصل کرتے ہیں وہ اللہ کا فضل اوراس کی رحمت ہے اگرچہ وہ اپنے ذمے سپرد کاموں میں قابلیت کا مظاہرہ کیوں نہ کریں۔اس کے باوجود اگر ہم اس مسئلے کو اللہ تعالیٰ کی سنت کی نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ قابلیت بہت سی اہم کامیابیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جبکہ اس کو اپنا حق سمجھنا ان کامیابیوں کے ختم ہونے کا ۔
نفاق اور استحقاق کے گروہ
تاریخ کے آغازسے لے کراب تک گمراہ اور منافق گروہ اتنے تسلسل کے ساتھ سازشیں اور تدبیریں کرتے ہیں کہ اس کا تصور مشکل ہے۔ ان سازشوں کا مقصد ان مفید اور مثبت خدمات کو ہار دکھانا ہوتا ہے جو اہل ایمان کرتے ہیں۔ پھر زمانے، حالات اور مقامات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ ان سازشوں کے اسلوب اور طور طریقوں میں بھی تبدیلی آتی چلی جاتی ہے بلکہ جب کسی منافق گروہ کو معلوم ہوجائے کہ وہ جن طریقوں کو ماضی میں استعمال کرتے تھے، اب فائدہ مند نہیں رہے اور وہ ان کو مطلوبہ نتائج تک نہیں پہنچائیں گے تو وہ ان طریقوں اور اسلوب کو بھی بدل لیتے ہیں تاکہ ان اچھے کاموں کے رستے میں روڑے اٹکا سکیں گے جو ایمان والے لوگ کرتے ہیں۔
یوں منافق گروہوں کا اپنے خسیس اہداف تک پہنچنے اور نہ پہنچنے کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اعلیٰ مقاصد والے لوگ اس مقام کا حق ادا کررہے ہیں یا نہیں جس پر وہ کھڑے ہیں؟ کیا انہوں نے وہ ذمہ داریاں ادا کرلی ہیں جو ان کے کاندھوں پر تھیں اور کیا انہوں نے اس بار ے میں اپنی اہلیت کو ثابت کردیا ہے یا نہیں؟
اس لئے اگر وہ لوگ اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کریں اور اس امانت کی حفاظت کریں جو ان کے پاس ودیعت ہے اوران خطرات سے چوکنا ر ہیں جو کسی بھی وقت کی سوراخ اور درز سے آسکتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان کی کوشش کو برباد نہیں کرے گا اوران کے خلاف اہل نفاق کی سازشوں کو ناکام بنا دے گا لیکن اگر ان لوگوں کی اہلیت میں کمی آگئی اور وہ مرجھا گئی یا کم ہوگئی تو (اللہ معاف فرمائے) وہ اسی نسبت سے کوتاہی کے انجام کے گہرے گڑھے میں گرنے کے قریب ہوجائیں گے۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر اللہ تعالیٰ اپنی امانت کو واپس لے لے گا اور ایسے امانتدار لوگوں کے سپرد کردے گا جو اس کی حفاظت کرسکیں۔ اگرایمان اورقرآن کی خدمت سے وابستہ لوگ اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے بچنا اور اس مقام پر باقی رہنا چاہتے ہیں جس کا انتخاب ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ اس مقام کا حق ادا کریں اور ہمیشہ اہلیت کی تلاش میں رہیں۔
تجدید کی کوشش لیاقت اور اہلیت کی اہم شرط ہے
قرآن کریم کی چند آیات کے ذریعے ہم ان اوصاف کو جان سکتے ہیں جن سے اہلیت پیدا ہوتی ہے اور بعض دیگر آیات کے ذریعے یہ جان سکتے ہیں کہ آدمی کن صفات کی وجہ سے کوتاہی کے انجام کا مستوجب ہوتا ہے۔
مثلاً حق سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:(إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ﴾ (سُورَةُ فَاطِرٍ:16 ) ( وہ چاہے تو تم کو نابود کردے اور نئی مخلوق لے آئے) اس آیت شریفہ میں وارد لفظ ’’جدید ‘‘ کے انتخاب سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے رستے میں کوشش کرتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے پاس آنے والی ہرشے کوایک ایسا تازہ آسمانی دستر خوان سمجھیں جو ابھی ابھی آسمان سے اترا ہے یا وہ جنت کے تازہ پھلوں میں سے پہلا پھل ہے۔ جی ہاں، ان کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت کے وقت ملنے والی اس لذت اور لطف کی وجہ سے اپنے ہوش سے نکل جانا چاہیے کہ یہ لذت ان کو پہلے نہیں ملی تھی اور گویا وہ آیات اسی وقت ان کے اوپر اسی لمحے نازل ہورہی ہیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانے کو اچھی طرح پڑھیں اور اپنی جانب سے اسلام کی خدمت اس تجدید کی روشنی میں جاری رکھیں جو اسلام لے کر آئے گا بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی روحانی زندگی کو بھی اس تجدید سے حصہ ملے۔ ان کو برسہا برس اور کئی کئی سال گزرنے کے باوجود بھی عادت اور مالوف باتوں کے آگے شکست تسلیم نہیں کرنی چاہیے، ان پر زمانے کے عوامل اثر انداز نہ ہوں تاکہ وہ مرجھانے اور کمزور ہونے سے محفوظ رہیں کیونکہ تجدید اہلیت اور قابلیت کا بنیادی وصف ہے۔ اس لیے جس شخص سے یہ خاصیت الگ ہوئی وہ تبدیلی کا مستحق ہوجائے گا۔
خدمت سے منہ پھیرنے والوں کا انجام
قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی ہمارے موضوع سے متعلق ہے ۔ اس پر غور کرنا بھی ضروری ہے ۔ حق سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ﴾ (سُورَةُ الْمَائِدَةِ: 54) (اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور اسے وہ دوست رکھیںاور جو مومنوں پر نرمی کرنے والے اور کافروں پر سختی کرنے والے ہوں۔ اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ یہ اللہ کا فضل ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ اور اللہ بڑی کشائش والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ’’ارتداد‘‘ کے خطرے کی جانب اشارہ فرمایا ہے اور ’’ارتداد‘‘ کا مطلب ہے آدمی کا اس اہم مقام سے نکل جانا جس پروہ موجود ہے اوردوبارہ اس جگہ چلے جانا جہاں سے وہ آیا تھا۔ اس لیے اس آدمی کو مرتد کہا جاتا ہے جبکہ ’’مرتد‘‘ کا لفظ بولنے سے سب سے پہلے ذہن میں عقیدے کے لحاظ سے مرتد کا تصور ابھرتا ہے کیونکہ ایسا شخص اسلام کو ترک کردیتا ہے۔ الٹے پاؤں واپس ہوتا ہے اور کفر میں گر جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ دین کی خدمت سے ارتداد بھی ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اگرچہ ایک وقت تک دل سے ایک اعلیٰ مقصد کے ساتھ وابستہ رہے لیکن ایک مدت بعد مچھر کے پر جیسی معمولی چیزیں ان کے رستے میں روڑے اٹکاتی ہیں اور خدمت کا شوق اورعشق کھو دیتے ہیں۔ ان میں وہ پرانا جذبہ اورنشاط مرجاتا ہے اوراس کے بعد اس دائرے سے بالکل نکل جاتے ہیں جس میں وہ لطف اندوز ہوتے تھے۔
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اکثر اوقات یہ ایسے بیچارے لوگ ہوتے ہیں جن کی عقلیں مختل اور دل صحرا میں بدل جاتے ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر شے ان کے مزاج اور خواہشات کے مطابق چلے، پھر جب معاملات ان کی خواہش کے مطابق نہیں چلتے تو وہ مشکلات کھڑی کرتے ہیں اور اختلاف اور جدائی کا سبب بن جاتے ہیں اورمآل کار اس دائرے سے پھرجاتے ہیں جس میں پہلے تھے۔
شروع میں اللہ تعالیٰ ان کوایک شفقت بھرے طمانچے سے خبردار کرتا ہے لیکن اگر وہ اختلاف اور افتراق کی آگ بھڑکانے سے باز نہ آئیں تو پھر سزا کے تھپڑکے مستحق ہوجاتے ہیں۔ گویا حق سبحانہ و تعالیٰ فرما رہے ہیں: ’’ اگر تم زمین پر فساد بپا کرو گے تو میں تمہارے علاوہ ایک ایسی قوم کو لے آؤں گا جو وحدت اور یکجہتی کو اپنی بنیاد بنائے گی اوراتفاق اور یگانگت کی روح کے ساتھ کام کرے گی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ان کے میدان کو دوسروں کے لیے خالی کردے گا۔ اس لئے جن مومنین نے دین مبین کی خدمت سے عشق کیاہے ان کو خدمت سے ارتدادسے بے چینی ہونی چاہیے اورا ن کو اس بات پر قادر ہونا چاہیے کہ وہ اس طرح کے حالات سے دوچار ہونے سے بچنے کے لیے اپنے بہت سے نجی حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ یہی بات اہلیت کی طلب اور برے انجام سے نجات کا ذریعہ بھی ہے۔
اللہ کی محبت اہلیت کی بنیاد ہے
حق سبحانہ و تعالیٰ ’’فَسَوْفَ يَأْتِي اللهُ بِقَوْمٍ ‘‘ (عنقریب وہ لے آئے گا ایک قوم کو) کے الفاظ سے اس جانب اشارہ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ اپنے مقام کا حق ادا نہیں کرتے وہ ان کی جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا۔ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ فعل کے شروع میں ’’سوف‘‘ کا حرف مستقبل بعید پر دلالت کرتا ہے جس کا مطلب ہے کہ حق تعالیٰ مومنوں کی خطاکاریوں کی وجہ سے ان کو فورا عذاب نہیں دیتا بلکہ اپنے ہاں ان کے ایمان کی قدر ومنزلت کی وجہ سے ان کو بار بار مہلت دیتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر وہ ان خطاؤں اور برائیوں پر اصرار کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو لے جائے گا اوران کی جگہ اور لوگوں کو لے آئے گا۔ پھر یہاں لفظ ’’قوم‘‘ کے نکرہ ہونے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ ایک مجہول جماعت اور گروہ ہے جو بڑا عالی ہمت اور قیمتی ہے۔
جی ہاں، اس قوم کی شان اور مرتبہ اتنا اونچا ہے کہ اس کا تصور اور خیال بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے باوجود یہ آیت کریمہ چھ ایسے قرائن کاتذکرہ کررہی ہے جن سے ان کو پہچاننے سے مدد ملتی ہے۔ بس وہ کہتی ہے ’’یحبہم ‘‘ یعنی حق تعالیٰ اپنی ذات عالی کے مناسب طریقے سے ان کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور ان کو اپنی وسیع رحمت اور گہری محبت سے ڈھانپ لیتا ہے اوران کے ساتھ اس محبت کے تقاضے کے مطابق اچھا برتاؤکرتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان سے یہ محبت ، ان کی جانب سے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بدل جاتی ہے۔ ’’یحبونہ‘‘ کا فعل باب افعال سے آتا ہےجبکہ اس باب کا ایک مفہوم کثرت پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ’’وہ اللہ کی محبت کے عشق میں گھل جاتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اذلۃ علی المؤمنین‘‘ یعنی یہ لوگ مومنوں کے لیے تواضع کے طور پر ذلت کی حد تک جھک جاتے ہیں لیکن غلط فہمی سے بچنے کے لیے ہم کہتے ہیں کہ اس تواضع کامطلب احساس کمتری ہر گز نہیں کیونکہ وہ ’’اعزۃعلی الکافرین ‘‘ یعنی کافروں پر سخت ہیں۔ یعنی وہ ان لوگوں کی ہر گز چاپلوسی نہیں کرتے جن کے پاؤں ان کے غرور ، تکبر، ظلم، نقطہ نظر سے انحراف اور باپ دادا کی اندھی تقلید سے پیدا ہونے والا کیچڑ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ ایمان والوں کو حاصل ہونے والی ان جمالیات کے ساتھ ہٹ دھرم اور باغی لوگوں کے سامنے جھکتے ہیں، نہ دبتے ہیں اور نہ ان کی چاپلوسی کرتے ہیں اورنہ ہی ان سے قریب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اللہ کی راہ میں جہاد کی روح
اللہ تعالیٰ ان کی ایک اور صفت ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ یجاہدون فی سبیل اللہ ‘‘ یعنی وہ اللہ کی راہ میں کوشش کرتے ہیں جبکہ جہاد کا مفہوم اور معنی بہت وسیع ہے۔ مثلاً جہاد کی ایک تعریف یہ ہے:ان نفسانی، جسمانی اور حیوانی رکاوٹوں کو دور کرنا جوایمان کے رستے میں رکاوٹ بنتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑتی ہیں اوردلوں کو ان کے خالق سے جوڑنے کے لیے محنت کرنا۔ اس تعریف کے مطابق علم و ادراک کے مرتبے اوراپنے پیمانے کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی طرف دست تعاون بڑھانا اوراس کی خاطر مناسب ذرائع استعمال کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ظلم، تکبر، فکر کی غلطی اور آباؤ اجداد کی اندھی تقلید جیسی ان رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے جو لوگوں کے اللہ تعالیٰ سے تعلق میں آڑے آتی ہیں۔
جہاد کی ایک اور صورت یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اور حق اور حقیقت کی تبلیغ کا سلسلہ برابر جاری رکھا جائے خواہ وہ مسجد کے منبر سے ہو، جلسہ گاہوں اوربڑے بڑے کانفرنس ہالوں یا پارلیمنٹ اور سکولوں یا کسی بھی مقام سے ہو جو آپ کو میسر ہو اور اس کے ذریعے حق اور حقیقت کی تبلیغ کی جائے ۔
لیکن اگر تم سے حسد و عدوات رکھنے والے ظالم تمہارے دروازوں پر آکھڑے ہوں، تمہارے شہر پر حملہ آور ہوجائیں اورتمہاری عزت و ناموس سے کھیلیں اور تمہیں پاؤں تلے روندنے کی کوشش کریں، جیسے کہ پہلے کئی زمانوں میں ہوچکا ہے ، تو اس وقت جہاد کی شکل بدل جائے گی۔ اس حالت میں تلواریں بے نیام ہوجائیں گی اور یہ سب کا معاملہ ہوگا اور سب محاذ جنگ کی طرف نکل کھڑے ہوں گے جیسے کہ ہماری تاریخ میں کئی بار ہوا ہے اور ان سے مطلوب جدوجہد کا حق ادا کریں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ ریاست کی اجازت سے اور اس کی نگرانی میں ہوتی ہے اور یہ بھی مادی جہاد کی ایک قسم ہے لیکن یہاں میں اس حقیقت کی جانب ایک بار پھر توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں جو کئی بار بیان کرچکا ہوں۔وہ یہ کہ جہاد فی سبیل اللہ کو صرف ’’دشمنوں سے لڑائی ‘‘ کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں کیونکہ یہ جہاد کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور اس کی مادی شکلوں میں سے ایک شکل ہے جبکہ لوگوں تک حق اور حقیقت کو پہچانے یا ظلم و جور کو ختم کرنے کے لیے جہاد اور جدوجہد کی کئی صورتیں ہیں اور یہ ضروری ہے کہ جس عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ’’فی سبیل اللہ ‘‘ کی قید ذکر کی ہے وہ پورے کا پورا اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اسی طرح حق کو ثابت کرتے وقت ان قواعد اور ضوابط کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے جو رسول اکرم ﷺ نے وضع فرمائے ہیں تاکہ جہاد کا سبب ذاتی منفعت ، یا کسی گروہ کی مصلحت یا غصہ نہ ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’یجاہدون فی سبیل اللہ ‘‘ کے الفاظ سے، اللہ کے رستے میں جہاد کے عمومی معنیٰ کو ذکر فرمایا ہے اور اس کو ان لوگوں کی ایک اہم صفت قرار دیا ہے جو دین اسلام کی مدد کرتے ہیں۔اس صفت کو اللہ تعالیٰ نے اہلیت اور لیاقت کی بنیاد بنایا ہے۔
آخر میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں:’’ولایخافون لومۃ لائم‘‘ ان الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اعلاء کلمۃ اللہ اوردنیا کے کونے کونے میں ر وح محمدی کا پھریرا بلند کرنا چاہتے ہیں وہ دوسروں کی ملامت سے نہیں ڈرتے ۔ جی ہاں، ہوسکتا ہے کہ اعلیٰ ہدف کے لیے کام کرنے والوں پر کبھی ان لوگوں کی جانب سے ملامت کی جائے جو اسی دنیا میں گزاری جانے والی حالت کو ہی زندگی سمجھتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ مثلاً وہ خدمت والوں کو خیرخواہی کے جذبے سے کہتے ہیں، آپ اپنے لیے زندگی کو کیوں مشکل بنا رہے ہیں؟ حالانکہ آپ اس دنیا سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں؟ آپ دنیا پسندوں اور گمراہوں کو اشتعال دلا کر اپنے آپ کو تکلیف دنیے پرمجبورکرتے ہیں؟
افسوس کی بات ہے کہ فی زمانہ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو اسم محمد علی صاحبہ افضل الصلاۃ و اتم التسلیم کو پھیلانے سے تنگ ہوتے ہیں اور ان کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن جو لوگ اپنے آپ کو ایمان اور قرآن کی خدمت کے لیے وقف کردیتے ہیں، وہ اس کی کوئی پروانہیں کرتے اور اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے اس ظالمانہ ملامت کی جانب توجہ کرتے ہیں، نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے ہیں اور نہ ہی اپنے رستے سے ہٹتے ہیں بلکہ اپنے رستے میں آنے والی رکاوٹوں سے ٹکرائے اور گرے بغیر جادۂ حق پر اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
خدمت لینا بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے
آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘ اس میں ان تمام اوصاف کی اہمیت کی جانب اشارہ ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ اوصاف اپنے برگزیدہ بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ سب لوگوں کو نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خدمت ان سچے مومنوں کے لیے مقدر فرماتا ہے جو اپنے دل اس کے حوالے کردیتے ہیں، ان لوگوں کو نہیں دیتا جو ڈاکٹریٹ جیسے دنیاوی مرتبے ،صرف کوئی خطاب یا پیشہ ورانہ مادی مہارت حاصل کرنے کے لیے چاہتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ میرے ساتھ غور کریں(ایک زمانے میں) دشوار گزار پہاڑوں میں سے ایک عظیم شخصیت کس طرح نکلی؟1 ایک مدرسے میں مختصر سی مدت کے لیے تعلیم حاصل کی جو چھ ماہ یا ایک سال ہے ۔ اس کے بعد انسانیت کو دین، تدین اور قرآن کی تبلیغ کا درس دینے لگی اور فکر کی تجدید کا دروازہ کھولا لیکن یہ عظیم ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اس میں کبھی غرور اور گھمنڈ نہیں پیدا ہوا بلکہ اپنی ساری توفیق کو اللہ کے فضل اور احسان سے جوڑتے تھے۔ یوں’’ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء‘‘ کے الفاظ اہلیت اور لیاقت کی ایک صفت کی جانب اشارہ کررہے ہیں جس کے بغیر چارہ نہیں۔ وہ یہ کہ کبھی بھی غرور نہ کرنا اور کوئی ذمہ داری خواہ کتنی ہی بڑی اور اہم کیوں نہ ہو، اسے محض اللہ تعالیٰ کا فضل، احسان اور رحمت سمجھنا۔
[1] اس سے مراد حضرت بدیع الزمان سعید نورسی ہیں۔
- Created on .