ہوشیاری اور احتیاط
سوال: ایمانی خدمت کے رستے میں وہ کونسے امور ہیں جن کے بارے میں احتیاط برتنا اور ہوشیاری (تیقظ) سے کام لینا ضروری ہے؟ اور یہ ’’تیقظ‘‘ کس طرح کا ہونا چاہیے؟
جواب: ’’یتقظ‘‘ کا لفظ ’’یقظہ‘‘ سے ہے جس کا مطلب جاگنا، افاقہ ہونا اور ہوشیار ہونا ہے۔ پھر لفظ ’’تیقظ‘‘ باب تفلط کاصہہی ہے جس میں تکلف پایا جاتا ہے۔ اس لیے اس سے مراد مکمل انتباہ، نہایت باریک بینی، نہایت گہرائی، اعلیٰ درجے کی حساسیت اور نہایت احتیاط مراد ہے۔ اسی طرح ہم اس کی تعریف یوں بھی کرسکتے ہیں کہ (بصری ملکات کے علاوہ) تمام فکری اور شعوری ملکات اور صلاحیتوں کو واقعات کا جائزہ لینے اور ان کی درست تشخیص کرنے کے لیے جگانا اور ان تاویلات اور اندازوں پر بس نہ کرنا جو کسی ایک رائے یا ایک شعور کے فکر کا نتیجہ ہو اور ہر مسئلے کے بارے میں آراء و افکار کو ایک ایک کرکے پرکھنا اور دیکھنا۔۔۔ کیونکہ ہوشیار انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو ایک پائلٹ (ہوا باز) سمجھتا ہے اور اس بات کا شعور رکھتا ہے کہ اس کی غلطی اور کوتاہی، خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، اس کواور اس کے ہمرائیوں کوہلاکت میں ڈال سکتی ہے۔ چنانچہ وہ اس بات کو سمجھنے کے بعد گرنے اور ہلاک ہونے سے بچنے کے لیے ہر طرح کی احتیاط برتتا ہے اور چوکنا رہتا ہے۔
منافقت سے بھرے زمانے میں ہوشیاری
اس زمانے میں جس میں منافقت اپنی جڑیں مضبوط کرچکی ہے ، ایمان اور قرآن کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں کے لیے ’’تیقظ‘‘ اور احتیاط خاص اہمیت رکھتی ہے۔ اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ پہلے اپنے زمانے کا اچھی طرح جائزہ لیں، حالات کا درست انداز میں تجزیہ کریں اور اپنے ان دشمنوں کو اچھی طرح پہچانیں جن کی فطرت میں عداوت ہے اور ان کواس بارے میں ان کے قرب سے کبھی دھوکا نہیں کھانا چاہیے کیونکہ وہ ایک دوسرے سے ملے دائروں کی شکل میں منافقت کے کئی پردوں کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ اس لیے اگر وہ فدائی روحیں ان کے سامنے ایک مدمقابل محاذ کے طورپر نہ آنے کے لیے جتنی بھی سعی اور کوشش کرلیں، یہ لوگ جن کے حسد اور غیرت نے ان کی عقلوں کو مسخ کردیا ہے، ان روحوں پر تسلط پانے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ وہ اوپر سے نیچے تک زندگی کے مختلف دائروں میں اپنے دشمنانہ جذبات کی آگ بھڑکائیں گے بلکہ یہ لوگ جو حسد اورعداوت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ، ان پر مصیبتوں کے آنے کے منتظررہیں گے۔
جی ہاں، ان ارواح کو چاہیے کہ وہ اپنے کاندھوں پر پڑی نہایت اہم اور حساس ذمہ داری کا ادراک کریں اور جو بھی قدم اٹھائیں، ایسی بہادری سے اٹھائیں جسے دبایا نہ جاسکتا ہو، ایسے مضبوط عقیدے سے اٹھائیں جوغیر متزلزل ہو اور صراط مستقیم پر ثابت قدمی کے ساتھ لیکن اس کے علاوہ، ان پر لازم ہے کہ وہ ان تخریبی کارروائیوں کا بھی پورا پورا خیال رکھیں جو مخالف محاذوں کے غصے ، حسد اور نفرت میں ان کے سبب ہوسکتی ہیں، ورنہ ان کی وجہ سے ایسا غلطیاں اورناکامیاں ہوسکتی ہیں جو ان کی تحریک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لیے اس بارے میں احتیاط اور نہایت باریک بینی ’’تیقظ‘‘ کا ایک اور گہرا رخ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایمان والا دل کل کے لیے بھی ایسے ہی سوچتا یہ جیسے آج کے لیے۔ وہ صرف حال میں مقید رہتا ہے اورنہ ایسا کرنا چاہیے کیونکہ روزانہ یا مرحلہ وار معاملات کسی مشکل کو جڑ سے اکھاڑ سکےچ ہیں اور نہ اکھاڑ سکیں گے۔ کیونکہ ایک طویل عرصہ سے اسلامی دنیا کی مشکلات کے غیر بنیادی حل پیش کیے جارہے ہیں اور بڑی بڑی مشکلات کے حل کے لیے عارضی اور وقتی طریقہ کار وضع کیا جاتا ہے مگر اس کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔اس لیے جو لوگ یہ سمجھےش ہیں کہ وقتی اور عارضی پالیسیاں ان کے ملک اور اسلامی دنیا کی مشکلات کو حل کرنے اوراس کو عالمی توازن میں ایک اہم عنصر اور دنیا کا مطمع نظر اور احترام کی جگہ بنانے پر قادر ہیں، وہ دھوکے میں ہیں اور دھوکہ دے رہے ہیں۔
جی ہاں، اگر ہم غیر جانبدارانہ انداز میں اپنی ذات پر ایک معاشرے کی حیثیت سے نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ ہم مکمل طورپر ان دکھوں کو بھی معین نہیں کرسکتے جن میں ہم طویل عرصے سے مبتلا ہیں، ہم ان کی درست تشخیص کرسکتے ہیں اور نہ ہی حکمت کے ساتھ ان کے لیے کوئی دوا تجویز کرسکتے ہیں۔ اس لیے ہمارے زمانے میں ایمان والے دلوں پر لازم ہے کہ وہ کھلی آنکھوں کی طرح ہوشیاری کے ساتھ چلیں اور نیند میں چلنے والوں کی طرح نہ چلیں اور واقعات کو کلی نظر سے دیکھیں اور اپنے قدم پر بار بار نظر ڈالیں اور اپنے ہر عمل کو بار بار دیکھیں اور مشکلات کا علاج اس انسان کی طرح کریں جس کی تمام شعوری اور فکری صلاحتیں پوری طرح بیدار ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی آہٹ سنیں تو اس طرح ہوشیار ہوجائیں جیسے وہ وطن کی سرحدوں پر پہرہ دینے والے سپاہی ہیں اور کسی بھی خطرے کے پیش نظر ہر لمحے احتیاط سے کام لیں اور اپنے پاس دستیاب حل کے ذریعے منفی باتوں کو ختم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔
کامیابیوں کے بارے میں ہوشیاری
دوسری طرف، اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس زمانے میں ، اپنی رضا کے حصول کے لیے انسانیت کی خدمت کی کوشش کرنے والوں پر ایک احسان یہ بھی فرمایا ہے کہ ان کو د نیا کے مختلف گوشوں میں حق اور حقیقت کا مبلغ بنایا ہے۔ اس لیے اگر ہم اس بارے میں احتیاط نہ کریں تو (معاذ اللہ ) شاید ہم غفلت کا شکار ہوجائیں گے اور جن کامیابیوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات عالی کی جانب منسوب کرنا ضروری ہے، ان کو اپنی جانب منسوب کرنے لگیں گے۔ جی ہاں، ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنے ارادے کا حق ادا کریں مگر یاد رہے کہ ارادہ کسی بھی شے کے وجود پذیر ہونے کے لیے ایک عام شرط کے سوا کچھ بھی نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خالق وہ (اللہ) ہے، صانع وہ ہے، فاعل وہ ہے، جاڑے کو بہار بنانے والا وہ ہے اور جس ذات نے ہمیں ان تمام جمالیات تک پہنچایا ہے ، وہ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات اقدس ہے۔ اس لیے ہمارے دل میں ایسے افکار بھی نہیں آنے چاہیںل کہ: ’’ہم نے کیا، ہم نے بنایا‘‘ بلکہ ضروری ہے کہ ہمیں جو بھی جمال حاصل ہو، اسے حق تعالیٰ شانہ کا فضل و کرم سمجھیں اور نعمت کو اس کے مالک حقیقی کی جانب منسوب کریں اور نعمت کے اظہار کے قاعدے کے مطابق اس قسم کا رویہ اللہ تعالیٰ کی مزید نعمتوں کے تسلسل کے ساتھ اترنے کا ضامن ہے کیونکہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ﴾ (ابراہیم:7) (اگر شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا)۔
علاوہ ازیں ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم جس قدر ہو سکے اپنے ان دوستوں کی حد سے زیادہ تعریف و توصیف سے بچیں جو ہمارے ہمسفر ہیں کیونکہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ ہم ان کو ان مناصب کے عشق میں مبتلا کرسکتے ہیں جہاں لوگوں کا حسن ظن ہے۔ یوں غیر ارادی طورپر ہم اپنے دوستوں کی گردنیں اپنے ہاتھوں سے مروڑ دیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے بارے میں ہم حسن ظن رکھتے ہیں، ان کی تعریف و توصیف سے ان لوگوں میں غیرت کے جذبات بھڑک سکتے ہیں جو اس رستے پر آپ کے ساتھ ہیں یا آپ کے طریقے کے قریب قریب ہیں اور یہ بات ان کو بغض اور حسد کی جانب بھی لے جاسکتی ہے۔ اس لیے جب بھی آپ کی زبانوں پر اپنے کسی محبوب شخص کی تعریف آئے گی تو دوسروں میں اس کے بارے میں انکار اور بغض کے جذبات پیدا ہوں گے۔ یوں آپ لوگ اس شخص کے ساتھ اچھائی کی بجائے برائی کا سبب بنیں گے۔ اس لیے ہر وقت صرف اور صرف اخلاص کا خیال رکھیں اور ایک دوسرے کے بارے میں پوری پوری احتیاط برتیں اورجن لوگوں سے محبت کرتے ہیں، ان کی حد سے زیادہ تعریف و توصیف سے بچیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے ساتھ ہمیشہ مخلص اور وفادار رہیں اور کسی کو ولی یا قطب کہنے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کریں کہ: ’’اے اللہ ہمیں اپنے بھائیوں کے ساتھ خلوص اور وفاداری سے محروم نہ فرما!‘‘۔
حاصل کلام یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی شخصیت سے زبردست محبت ہے اور اس سے سچی لگن ہے، تو آپ اس محبت اور لگن کا اظہار اس اعلیٰ ہدف کو پورا کرکے کریں جس طرف وہ قرآن و سنت کی روشنی میں آپ کی رہنمائی کرتی ہے، جبکہ مختلف لوگوں کے سامنے اس شخصیت کی تعریف اور مدح سرائی سے دوسروں کے دل میں اس کے لیے حسد اور بغض پیدا ہوگا اور یوں آپ اس شخصیت کے ساتھ برا کریں گے جس سے اچھا کرنا چاہ رہے تھے۔ اس طرح ان حضرات کے بارے میں باریک بینی اور حساسیت کا خیال رکھنا، جن کا ہم احترام کرتے ہیں، ایمانی خدمت کے رستے پر بیداری اور ہوشیاری کا ایک اور رخ ہے۔
سوال: قلب و روح کے افق پر سیاحت کے شوقین لوگوں کے لیے ہوشیاری اور تیقظ کا کیا مطلب ہے؟
جواب: ’’جادۂ حق کا سالک‘‘ خاص حالات اور مقامات پر اپنے اوپر ہونے والی تجلیات، عنایات اور واردات کے بارے میں امید کی طرف مائل ہوسکتا ہے جس سے وہ ایک طرح کی آزادی میں داخل ہوسکتا ہے۔ اس مقام پر ایسے حالات میں ثابت قدمی اور ہوشیاری کی شدید ضرورت ہے جوسالک کے لیے امتحان اورآزمائش ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ احسان اور جمالیات کی بارش سے تمہیں آزماتاہے۔ اس لیے ایسے حالات میں (جب تم پر احسانات کی موسلادھار بارش ہورہی ہو) آنکھوں پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں کے مالک پر نظر رکھیں۔ اسے دیکھیں اور اس سے دائیں بائیں نہ ہوں اور دلوں میں صرف ’’منعم کے شکر‘‘ کا جوش ہونا چاہیے، جبکہ بقول حضرت سعید نورسی جب بھی کوئی شخص ہمارے ساتھ احسان کرے تو ہمیں اس ذات کو نہیں بھولنا چاہیے جس نے اسے بھیجا ہے۔ جی ہاں، قلب و روح کے افق پر سیاحت کے خواہشمند (انسان) کو ہمیشہ ثابت قدمی اور حقیقی تیقظ کی ضرورت رہتی ہے تاکہ وہ اپنے اوپر ہونے والی نعمتوں، رحمتوں ، عنایتوں اور واردات کے بارے میں ضروری توازن برقرار رکھ سکے۔
’’مجھے تیری رضا کے سواکچھ مطلوب نہیں!‘‘
ہمارے زمانے میں اپنی روحوں کو وقف کرنے والے لوگوں سے اس مسئلے کے تعلق کا رخ تھوڑا سا مختلف ہے کیونکہ وہ (اپنے مسلک کے تقاضے کے مطابق) ایسے روحانی مقامات تلاش نہیں کرتے جبکہ حضرت نورسی نے پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ انسان کا سب سے اعلیٰ ہدف اللہ پر ا یمان ہے، اور اللہ کی معرفت ایمان سے پیدا ہوتی ہے جبکہ اللہ کی محبت ، اس کی معرفت سے۔ اس کے بعد ’’روحانی لذت‘‘(1) کو بھی اس کے ہمراہ ذکر فرمایا ہے۔ البتہ اس مقام پر ایک نہایت باریک بات ہے جس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ اوپر مذکورہ امور میں سے پہلی تین چیزیں ’’ارادی‘‘ ہیں جس کا مطلب ہے کہ انسان ان کو اپنے اردارے سے تلاش کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر: آپ اللہ پر ایمان، اس کی معرفت اور محبت کے حصول کے لیے ایک عام شرط کے طورپر اپنے ارادے کا حق ادا کرتے ہیں اورتکوینی امور کے عوالم کو تلاش کرتے ہیں، ان کو مانگتے ہیں اوران میں گھومتے ہیں اور شریعت کے اوامر کا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ تعالی کا ذکر اور غور وفکر کرتے ہیں اور اپنی پوری کوشش کرڈالتے ہیں جبکہ ’’روحانی لذت‘‘ کا مسئلہ اس مفہوم میں ارادی نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسے ارادے سے طلب نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ لذت اللہ تعالیٰ ، ایمان، معرفت اور محبت کے رستے پر چلنے والوں کو اپنی عنایت سے نصیب فرماتا ہے لیکن اگر آپ اس کو شروع سے ہی مانگنا شروع کردیں اور اللہ پر ایمان، اس کی معرفت اور محبت کو اس کے ساتھ جوڑدیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے اپنے مطالبات کا مرتبہ گھٹا دیا اور نتائج میں سے معمولی اور تھوڑی سی چیز مانگی۔ اس کے مقابلے میں اگر آپ اپنی عبودیت کو صرف اللہ کی رضا اور اس کی توجہ کے ساتھ جوڑ دیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ایک ایسے مرتبے پر چڑھ گئے ہیں جس کا دنیا اندازہ لگا سکتی ہے اور نہ اس کا وزن کرسکتی ہے بلکہ ’’روحانی لذت‘‘ بھی اس کے مقابلے میں کم اور معمولی چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ارادی‘‘ اور ’’غیر ارادی‘‘چیزوں کو خلط ملط نہیں کرنا چاہیے اور ہمارے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم ہمیشہ ’’ارادی‘‘ امور کے پیچھے جائیں اور اس بار ے میں اپنے ارادے کا حق ادا کریں ۔ اسی حالت میں اگر اللہ تعالیٰ کے کرم سے ’’غیر ارادی‘‘ چیز بھی ہمیں مل جاتی ہے جو ہمارے ارادے، طلب اور خواہش کے بغیر ہو، تو اس کے مقابلے میں شکر و ثنا اور احسانمندی کے احساس کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان کرنا چاہیے۔
الہام، کفب، لوگوں کے دلوں کا حال جاننا، واقعات کو قبل از وقوع محسوس کرنا اور خواب میں مختلف عوالم کو دیکھنا۔۔۔ یہ سب باتیں اور مقامات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ قابل طلب ہدف ہیں کیونکہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے رستے پر چل رہے ہیں اوران حضرات نے اس طرح کے خرق عادت معاملات پر کبھی توجہ نہیں دی جن میں نفس امارہ پڑ سکتا ہے اور نہ ان کی کوئی پروا کی۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے ہاتھ پر کرامات ظاہر فرمائیں مثلاً کسی شے کا قبل از وقوع محسوس کرلینا یا زبان پر حق کا جاری ہونالیکن انہوں نے کشف و کرامات کو کبھی طلب نہیں کیا۔ انہوں نے صرف ایک مقصد کے سوا کوئی مقصد نہیں بنایا اور وہ تھا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول۔اس لیے ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم بھی اس مدار میں چلیں ۔ اس کے بعد اگر ہمیں بھی بغیر طلب کے کوئی عطیہ اور واردات حاصل ہوجاتی ہے تو پھر ہم پر واجب ہے کہ اس کے مقابلے میں یوں کہیں: ’’الہٰی! یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا میں حقیر انسان قابل نہیں تھا۔ اس لیے اس لطف و احسان کا راز کیا ہے؟!‘‘ ہمیں اس سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں یہ ’’استدراج ‘‘ کی کوئی قسم نہ ہو۔ خوف و بیم سے ہمارے رونگھٹے کھڑے ہونے چاہیںئ اور شاید ہمیں یہ بھی کہنا چاہیے:’’اے میرے رب! میں تو بس عشق کی حد تک تیری محبت کا طلبگار تھا، میں مجذوب کی طرح تیری ملاقات کا متلاشی رہوں گا ۔اگر تو مجھے یہ امور عطا فرما دے ، تو وہ میرے اندر شوق اور غرست پیدا کریں گے۔ یا اللہ تیرا ایک ہزار ایک بار شکر ہے! لیکن میں تیری خوشنودی کے سوا کسی شے کا طالب نہیں۔‘‘
(1) سعید نورسی ، المکتوبات، بیسواں مکتوب، مقدمہ:271
- Created on .