تین خطرات
سوال: آپ نے پہلے فرمایا کہ جو لوگ انسانیت کی خدمت میں مشغول ہیں وہ تین خطرات کا شکار ہوسکتے ہیں یعنی اپنے ہم مشرب بھائیوں میں رشک کے جذبات پیدا کرنا، اجتماعی انانیت کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں میں بعض اور عناد کے جذبات کو ہوا دینا اور روشن مستقبل کی ضمانت دینے والے کاموں پر فخرکرکے مخالفین کے اندر دشمنی کے جذبات کو بھڑکانا۔ سوال یہ ہے کہ وہ امور کون سے ہیں جن کا خیال رکھنے سے ہم ان خطرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟
جواب: باوجود اس کے کہ شرعی امور میں رشک جائز ہے، اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ،مگر یہ مطلق نہیں بلکہ خاص اصولوں اور ضوابط سے جڑا ہوا ہے، مثلاً کوئی شخص اپنے بھائی میں کوئی اچھی بات دیکھتا ہے تو اس پر رشک کرتا ہے اور اس کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ بھی اسی صفت کا مالک بن جائے۔ ابتدائی طورپر اس میں کوئی حرج نہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوسکتا ہے کہ یہ شخص اس خاصیت پر ضمنی طور پر تنقید کرنے لگے اور دل میں یوں کہے کہ: ’’میں اس خاصیت کا مالک کیوں نہیں؟‘‘ اور رفتہ رفتہ اس کے ا ندر اس شخص کے لئے غیرت اور حسد کے جذبات پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر ایسا ہوجائے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ مباح کے دائرے سے نکل گیا اور ممنوعات اور شبہات کے دائرے کے گرد گھومنے لگا ہے۔ پس جس طرح اس انداز کا رشک ممنوع ہے، اسی طرح ایسے تصرفات بھی ممنوع ہیں جن سے دوسروں میں رشک کے جذبات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ نبی اکرمﷺ نے ہمیں اس حدیث شریف میں شبہات سے بھی بچنے کا حکم فرمایا ہے: ’’ الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لاَ يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ: كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الحِمَى، يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، أَلاَ وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلاَ إِنَّ حِمَى اللَّهِ فِي أَرْضِهِ مَحَارِمُهُ ‘‘(1)
(حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان متشابہ امور ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ اس لئے جو شخص مشبہات سے بچے گا تو وہ اپنےدین اور عزت کو بچا لے گا اور جوخواہشات میں پڑ گیا ،وہ اس چرواہے کی طرح ہے جو محفوظ چراگاہ کے گرد (جانور) چراتا ہے اور عنقریب اس کے اندر داخل ہوجائے گا۔ یاد رکھو کہ ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراگاہ ہوتی ہے ، یاد رکھو اللہ کی زمین میں اس کی محفوظ چراگاہ، اس کے محرمات ہیں)۔
اس طرح رشک کا وہ جذبہ جو حسد میں بدل جاتا ہے، اس کی مثال حلال اور حرام کے درمیان واقع لکیر پر کھڑا ہونا ہے کہ انسان اگرذرا سا بھی پھر جائے تو حسد اور غیرت کے دائرے میں جا پڑتا ہے ۔ اس لئے اس قسم کے رشک اور اس سے پیدا ہونے والے تصرفات اور روئے، ان امور میں شامل ہیں جن سے بچنا انسان کے لئے ضروری ہے۔ حضرت نورسی رحمہ اللہ نے اس جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے اور اپنے رسالے ’’اخلاص‘‘ میں یوں تنبیہ فرمائی ہے: ’’اس قرآنی خدمت میں مشغول اپنے بھائیوں پر تنقید نہ کرو، رشک، فخر اور اونچا ہونے کے جذبات کو مت چھیڑو، کیونکہ جس طرح انسان کے جسم کے دوہاتھوں کے درمیان کوئی رشک نہیں، اس کی دو آنکھوں کے درمیان کوئی تنقید نہیں، اس کی زبان اس کے کان پر معترض نہیں اور دل روح کے عیب نہیں دیکھتا بلکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی کمی کو پورا کرتا یا اس کی کوتاہی پر پردہ ڈالتا اور اس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے ۔۔۔۔اسی طرح ہم سب بھی ایک روحانی شخصیت کے اجزاء اور اعضاء ہیں۔‘‘ (2)
تنافس: بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے مقابلہ
تنافس (ایک دوسرے سے بھلائی میں مقابلہ) (جو ایک رخ سے رشک کی طرح ہے) ایک مثبت عمل ہے جس میں کوئی حرج نہیں۔ اس کا مطلب ہے: حق اور حقیقت کے رستے میں نفیس اور اچھی چیز کی جانب ایک دوسرے سے آگے بڑھنا اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے کوشش اور جہاد میں مصروف بھائیوں کے قافلے سے پیچھے نہ رہنے کے لئے کوشش اور ہدایت کرنا۔ قرآن کریم نے ﴿وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾ (المطففین: 26) (تو ریس کرنے والوں کو چاہئے کی اسی میں ریس کریں) کےالفاظ سے اخروی اعمال میں اس قسم کے مقابلے کی ترغیب دی ہے۔
دنیوی مقابلہ میں ایک شخص جیتتاہے اور دوسرے ہار جاتے ہیں اور یہ صورت حال ان میں ناراضگی اورمایوسی پیدا کرسکتی ہے لیکن آخر ت پر یقین اور ایمان رکھنے والا مومن اس تنافس کی جانب دیکھتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے۔ وہ اس کو اس رخ سے دیکھتا ہے کہ: ’’میرے وہ بھائی جو اللہ تعالیٰ کے نام کو پوری دنیا میں بلند کرنے کے لئے کوشش کررہے ہیں، عنقریب اللہ کے حکم سے ان کو آنحضرت محمد ﷺ کے حوض کی جانب لے جایا جائے گا اور وہ آنحضرت علیہ السلام کی دست مبارک سے ایسا جام نوش کریں گے جس کے بعد ان کو کبھی پیاس نہیں لگے گی۔ یہ بات ایسی ہے جو مجھے بھی اس مقابلے میں شرکت کی دعوت دیتی ہے تاکہ میں ان سے پیچھے نہ رہ جاؤں۔‘‘ اس اچھے مقابلے کو رشک کا مثبت نتیجہ کہا جاسکتا ہے۔
حق کے بارے میں اس قسم کا مقابلہ کرتے وقت اللہ کے رستے میں خدمت کے لئے اپنے آپ کووقف کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ جتنی بھی کامیابیاں حاصل کریں، ان میں قربانی کا جذبہ کارفرما ہو اگرچہ ان کو احترام اور منصب کے حصول جیسی کسی بھی دنیوی غرض کا کوئی شوق نہیں ہوتا۔ ان کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیں۔ ان کے دل میں اس مقابلے میں دوسروں کو سمونے کی بھی گنجائش ہونی چاہئے۔ آپ کی آنکھوں سے وہ اصول اوجھل نہیں ہونا چاہئے جو حضرت نورسی نے منصب کو طلب کرنے کے لئے وضع فرمایا ہے یعنی تبعیت کو متبوعیت (دوسروں کے پیچھے چلنے کی بجائے دوسروں کو اپنے پیچھے چلانا) پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے کیونکہ متبوعیت میں ذمہ داریاں ہیں جو خطرے کی گھنٹی بجاتی ہیں(3) کیونکہ رہنما اور امام ہونے سے مختلف نفسانی جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے انسان کو اس بارے میں نہایت سمجھداری اور احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ اس وجہ سے اگر آپ کسی منصب کے جتنے بھی اہل ہوں،آپ دوسروں کو اپنے اوپرمقدم سمجھیں اور تابع ہونے کو متبوع ہونے پر ترجیح دیں۔
آخرت تک پھیلی ہوئی جوانمردی اور مروت کی روح
دنیا کے احترام اور واہ واہ کی خواہش کو اپنے سے دور کردیں کیونکہ مومن کے لئے ضروری ہے کہ اس کا دل اتنا وسیع ہو جس کے ذریعے وہ اپنی جوانمردی اور مروت کو ظاہر کرے اور اپنے بھائی کو حتی کہ اخروی نعمتوں سے بھی لطف اندوز ہونے کے معاملے میں اپنے اوپر ترجیح دے۔روایت ہے کہ جب علماء اور نیک لوگ جنت کے دروزاے پر پہنچیں گے تو ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہو گی کہ اس کا بھائی اس سے پہلے آگے جائے۔ شاید اس قسم کی قربانی اور مروت ایسی لذت ہے جو جنت اور اس کی نعمتوں کے لطف کی مانند ہے۔ جی ہاں، ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا روحانی اور معنوی لطف ہو جو امامت سے بڑھ کر ہو جیسے انسان امام کے پیچھے کھڑی صف سے پیچھے نکل جاتا ہے اور دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح دیتاہے۔
ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم ایثار کے دائرے کو تنگ نہ کریں۔ جی ہاں، اگر ہم ایثار کو کھانے پینے اور لباس کے ساتھ مخصوص کردیں گے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم نے ایک وسیع تر دائرے کو تنگ کردیا ہے اور قربانی کے وسیع دائرے کو تنگ کرکے اس کی روح نکال دی لیکن حق کی خاطر اپنے آپ کو وقف کرنے والے لوگوں پر لازم ہے کہ ان کا موقف دائمی اور بہادرانہ ہو جس سے وہ یہ کہنے کے اہل ہوجائیں کہ: ’’ مجھے جنت کی بھی خواہش نہیں اور اگر میں اپنی امت کا ایمان سلامتی اور بھلائی میں دیکھوں تو میں جہنم کی آگ میں جلنے پر بھی راضی ہوں کیونکہ جس وقت میرا جسم آگ میں جل رہا ہو گا، میرا دل خوشی اور سرور سے ناچ رہا ہو گا‘‘۔(4) ان کو چاہئے کہ اپنی نجات کو دوسروں کی نجات سے وابستہ کریں اور اس مختصر زندگی کو دوسروں کی زندگی کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کریں تاکہ جب جنت کے دروازے پران کی ملاقات ان ہزاروں لوگوں سے ہو جن کی ہدایت کا سبب بنے تھے، تو بہادری کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ: ’’اے اللہ مجھے معلوم نہیں کہ میں اپنے اوپرہونے والی تیری نعمتوں کا شکر کا حق ادا کرسکا یا نہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ ان اعمال میں اخلاص تھا یا نہیں، اے اللہ میرے بھائیوں کو مجھ سے پہلے جنت میں داخل فرما دے۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ آدمی دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے نفس کو بالکل مٹا دے اور ہمیشہ توجہ دوسروں پر مبذول رکھے۔
اجتماعی انانیت
اجتماعی انانیت کی غذا ،فرد اور نفس کی انانیت ہے کیونکہ اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوشش کرنے والے بعض لوگوں کی انفرادی انانیت سے تسلی نہیں ہوتی چنانچہ وہ کسی خاص جماعت سے وابستہ ہوجاتے ہیں، اس کی طرف جھک جاتے ہیں اور اس پرتکیہ کرتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد اپنے آ پ کو مزید قوت کے ساتھ ظاہرکرنا اور جماعت یا تحریک کی طاقت کو اپنی مشہوری کے لئے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس طرح وہ بار دیگر اپنی اناینت کی تائید کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مختلف رویوں اور طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اس نرگسیت اور اجتماعی انانیت کے ذریعے اپنے نفس اور شیطان کے اسیر ہوجاتے ہیں جو انفرادی انانیت سے قوی تر ہوتی ہے۔
ایسے لوگ اپنے ارادوں کو جتنا بھی تواضع اورانکساری کے پردوں میں چھپانے کی کوشش کرلیں، انسان کی فطرت (ایک حد تک) ایسے خود پسند لوگوں کی ماہیت کو محسوس کرلیتی ہے۔ اس لئے انانیت سے انسان اپنی قدر اور اعتماد کھو دیتا ہے اور دوسروں کو اپنی تحقیر اور اپنے آپ کو تنہا کرنے کا موقع دیتا ہے۔
اس طرح جو لوگ (نیچے سے لے کراوپر تک) اجتماعی انانیت کے مطابق کام کرتے ہیں وہ دوسری جماعتوں یا تحریکوں کے پیروکاروں کے دلوں میں رشک یا حسد کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم اپنے اس زمانے میں اس کی بہت سی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔
یہ مسئلہ خصوصاً اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی خاص تحریک کے پیروکار کچھ کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں اور اپنے آپ کو اس تحریک کا سرخیل سمجھتے ہیں جس سے ان کا تعلق ہے اور تمام جمالیات کو اپنی طرف منسوب کرتے اور اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ہمیشہ ان کا تذکرہ کیا جائے اور دوسروں کی خدمات سے آنکھیں موندلیں ۔ یہ بات اس جماعت یا تحریک کے خلاف ایک مخالف محاذ کھڑا کردے گی جس سے ان کا تعلق ہے کیونکہ معاشرے کے ہر گروہ اور مختلف جماعتوں اور تحریکوں میں مخلص ، عقلمند اورجذباتی مسلمان موجود ہوتے ہیں مگر ان کے نصیب میں ان خدمات کا عشر عشیر بھی نہیں لکھاگیا جو دوسروں نے انجام دیں حالانکہ وہ ایک طویل عرصے سے حق اورحقیقت کی خاطرمسلسل کوشش کررہے ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کو اس وقت کچھ مایوسی کا سامنا کرنا ہوتا ہے جب کسی خاص تحریک سے وابستہ لوگ اپنے اور اپنی کامیابیوں کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس بنیاد پر کامیابی حاصل کرنے والی اس تحریک کے کارکنوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مکمل ہوشیار رہیں تاکہ وہ ان منفی جذبات کو مٹا دیں جو ان دوسرے لوگوں میں پیدا ہوسکتے ہیں جو خدمت کے مختلف راستوں پر کوشش کررہے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ جب بھی اپنی خدمات کے بارے میں بات کریں تو حتی الامکان ان کو وسیع تر دائرے کی جانب منسوب کریں۔
مثلاً ایسا ہوسکتا ہے کہ دوسری تحریکوں کے منصف اور بھلائی کی قدرجاننے والے کارکن آپ کے پاس آکر آپ کی خدمات کی تعریف کرسکتے ہیں ۔اس وقت آپ کو یہ کہنا چاہئے کہ : ’’دراصل یہ ساری جمالیات آپ کی تمنا اوراعلیٰ اہداف کا حصہ تھیں، آپ ان کے بار ے میں گنگناتے اور برسوں سے ان کی تصویر کو واضح کرنا چاہتے تھے اور اس کی خاطر آ پ نے بڑی کوشش بھی کی۔ اس لئے ان خدمات کی ابتداء تو آپ نے کی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس مرحلے کے لئے آپ کے کچھ دیگر بھائیوں کو لگایا تو انہوں نے اس اعلیٰ ہدف کو حاصل کرلیا جس کا آغاز آپ کی کوشش اور عزم سے ہوا تھا۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ ہر منصف اور باضمیر انسان اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ معاشرے کے دوبارہ احیاء میں ہر جماعت اور تحریک کی حقیقی اوراہم جدوجہد شامل ہے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے سرزمین وطن کو (ایک کونے سے دوسرے کونے تک) قرآن کی تعلیم کے مراکز سے سجا دیا ہے کیونکہ جس وقت قرآن کی تعلیم میں کمی تھی، وہ ملک کے قریہ قریہ شہر شہر گئے اور مختلف علاقوں میں لوگوں کو ان کے رب کی کتاب کی تعلیم دینے کی کوشش کی ۔ بعض نے نوجوانوں کا خیال رکھا اورجگہ جگہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کے لئے اسکول کھولے، بعض نے اسلامی اداروں اور دینی تعلیم کے کالج، تعلیمی مراکز اور طلبہ کے شہر قائم کیے اوراس طرح قوم اور امت کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج ایک متعین مقدار میں احیاء ہوچکا ہے اور یہ تمام جماعتوں اور تحریکوں کے آپس میں کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑا ہونے سے ممکن ہوا ہے ، خواہ ہم نے ان کا تذکرہ کیا ہو یا نہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب مسئلے کو مذکورہ بالا اسلوب سے لیں گے تو اس سے کسی بھی منصف مزاج کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ اسے معدوم قرار دیا جارہا ہے، یا اس کے حق میں کمی کی جاری ہے یا اس سےلاپرواہی برتی گئی ہے ۔ یوں وہ بدظنی، حسد اور غیرت جیسے گناہوں کا ارتکاب کبھی نہیں کرے گا۔
دشمنی کے جذبات کو بھڑکانے والا خوف اور اندیشے
اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لئے اپنی زندگی کو بصیرت اور حکمت کے ساتھ وقف کرنے والے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اندر ایسی شجاعت اور مروت ہو جو دکھوں اور اندیشوں کو تہس نہس کرکے رکھ دے۔ مزید برآں یہ معاملہ صرف دوستانہ ماحول کے بارے میں ہی نہیں ہوناچاہئے بلکہ ان لوگوں کے بارے میں بھی ہونا چاہئے جنہوں نے ان کے جذبات اور افکار کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ان کے خلاف معاندانہ کام کیے۔ اس بارے میں حافظ شیرازی کہتے ہیں:
آسایش دو گیتی تفسیر این دو حرف است
با دوستان مروت با دشمنان مدارا
’’دنیا اور آخرت میں سلامتی اور راحت کے حصول کی وضاحت دو لفظ کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ مروت اور انصاف اور دشمنوں کے ساتھ معافی اور درگزر کا برتاؤ ‘‘ کیونکہ اگر ہم مومن ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ شفقت ہمارے دین کا ایک بنیادی اصول ہے، تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم سب کے ساتھ نرمی اور شفقت کا برتاؤ کریں۔ علاوہ ازیں مستقبل کے بارے میں خوف اور اندیشے رکھنے والوں کے اوہام کو ختم کرنے کے لئے آپ پر لازم ہے کہ مختلف ذرائع سے اس بات کو بیان کریں کہ ہمیں مستقبل میں کوئی دنیوی فائدہ مطلوب نہیں ہے اور یہ کہ آ پ کا ہدف اللہ تعالیٰ کی رضا کے سوا کچھ نہیں۔ حتی کہ ان حقائق کا ذکر بار بار، ببانگ دہل، واضح الفاظ میں اور بلند آواز سے کرنا چاہئے تاکہ ساری دنیا سن لے۔
کسی ایک شہر یا ملک پر حکومت کی خواہش کو چھوڑ دیں کیونکہ ہم تو کسی گاؤں کی سربراہی کے بھی متمنی نہیں ہیں بلکہ ہمارا مقصد اور واحد ہدف صرف اور صرف یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا نام دنیا کے گوشے گوشے میں سنا جائے اوروہ تمام انسانیت جوعزت کے ساتھ تخلیق ہوئی ہے ، وہ ان اخلاق سے سیراب ہو جو آنحضرت ﷺ لے کر تشریف لائے ہیں اور دل اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی تک پہنچ جائیں اور وہ دلوں میں جھنڈے کی طرح لہرائے اور اپنے ذہنوں سے ان تمام افکا ر کو نکال دیں جو اس سوچ کے مخالف ہیں اوران کو جتنا دور پھینکنا ممکن ہو پھینک دیں بلکہ اگر دنیا اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بھی ہماری طرف متوجہ ہو تو دنیا کی بادشاہت کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھیں کیونکہ ہم سید السادات حضرت محمد ﷺ کے نقش قدم پر قدم بقدم چل رہے ہیں اور اپنے قول و فعل میں آپ علیہ السلام کی اتباع کریں کیونکہ آپ علیہ السلام نے دنیا کو اس وقت ٹھکرا دیا تھا جب وہ آپ کے حضور پیش ہوئی اور فرمایا: ’’هَذِهِ الدُّنْيَا مُثِّلَتْ لِي فَقُلْتُ لَهَا إِلَيْكِ عَنِّي! ‘‘(5) (یہ دنیا میرے سامنے آئی تو میں نے اس سے کہا کہ مجھ سے دور رہو)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ہیں جو اس دنیا کی دلچسپ ،جھوٹی اور فانی رعنائیوں سے بہت اعلیٰ اور اونچی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری طرف سے کوئی ایسا ادنی اشارہ یا اس کی علامت کا نہ ہونا جس سے دوسرے فرقوں، گروہوں، مختلف ثقافتوں یا مختلف علاقوں میں خوف یا اضطراب پیدا ہو، (پوری وضاحت کے ساتھ) ہماری اس سوچ اور فکر کی مکمل تائید کرتا ہے۔
اگرچہ حقیقت یہی ہے مگر اس کے باوجود ہرموقع اور مقام پر ان افکار پر زور دینا ضروری ہے کیونکہ اگر ہم چپ سادھ لیں اور اس بارے میں کچھ بھی نہ کہیں، تو ہوسکتا ہے کہ بعض ایسے مخلص لوگ جن کی نیت اچھی ہے، جب تعلیمی خدمات اور گفتگو کی ترقی کو دیکھیں گے تو اپنی طرف سے غلط افکار اپنا سکتے ہیں، جس سے ان پر خوف اور اضطراب چھا جائے گا ۔ اس لئے اگرآپ کے قریبی لوگ(جو نماز کے دوران آپ کے دائیں بائیں کھڑے ہوتے ہیں) اگر آپ کے بارے میں کچھ غلط خیالات کے اسیر ہوسکتے ہیں، تو پھر ذرا اندازہ لگا ئیے کہ ان لوگوں کے قلق اور اضطراب کا کیا حال ہو گا جوتم سے دشمنی رکھتے ہیں اور تمہاری اندرونی دنیا سے واقف ہیں اور نہ اس بات سے کہ تمہاری واحد خواہش اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔اس بنیاد پر اللہ کی راہ میں خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنے والے (سات سال سے لے کر ستر سال کے بوڑھوں اور ان سے بھی بڑے) لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں کہ دنیا کی سلطنت کی کوئی شے ان کے مستقبل کے افکار کا حصہ ہے اور نہ ہی اس کی خواہش رکھتے ہیں اور نہ وہ ان وسائل کی امید رکھتے ہیں جن سے یہ کام پورے ہوسکتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو ہر اس قول، فعل اور برتاؤ سے دور کھیں جس سے اہل دنیا (جو دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو اسی سے جوڑ دیتے ہیں) میں دنیا کے وسائل کو کھونے کا خوف پیدا ہو۔
(1) صحیح البخاری، الایمان:39، صحیح مسلم، الساکقاۃ:107
(2) سعید نورسی، اللمعات، اکیسواں لمعہ، آپ کا دوسرا اصول، ص: 222-221
(3) سعید نورسی ، اللمعات، بیسواں لمعہ، چوتھا سبب:211
(4) سعید نورسی، السیرۃ الذاتۃم، ص:492
(5) البہیقی ، شعب الایمان:113/13،الحاکم، مستدرک:344/4
- Created on .