عبودیت میں اتار اور انانیت میں چڑھاؤ
وال: آپ نے پہلے ذکر کیا تھا کہ عبودیت میں ضعف، انانیت اور حب ذات میں اضافے کا بنیادی سبب ہے۔ سوال یہ ہے کہ عبودیت کے ضعف اور انانیت کی قوت میں کیا تعلق ہے؟
جواب: عبودیت کا لفظ ’’عَبَدَ‘‘ سے مشتق ہے اور اس کا مطلب ہے انسان کا اللہ تعالیٰ کے سامنے پوری طرح جھکنے کے شعور کے ساتھ اس کی جانب سے عائد ذمہ داریوں کو ادا کرنا۔ لفظ ’’عبادت‘‘ بھی اسی سے مشتق ہے لیکن دونوں الفاظ کے معانی میں کچھ فرق ہے۔ اختصار کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ عبادت کا مطلب ہے: ایمان سے تعلق رکھنے والی نظری معلومات کو ایک خاص اور معین نظام کے تحت عملی شکل دینا جبکہ عبودیت کا مطلب ہے: انسان اپنے آپ کو حقیقت میں اللہ تعالیٰ کا بندہ سمجھ کر زندگی گزارے۔ بالفاظ دیگر عبودیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کے سامنے جھکنے میں گہرائی میں چلا جائے اور ’’احسان ‘‘ کے سائے میں زندگی یہ سمجھتے ہوئے بسر کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے جبکہ عبادت کا مطلب ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عبودیت کی ذمہ داریوں کو بجا لائے۔
اس لئے جو بھی شخص عبودیت کو اپنا نصب العین بنا لے اور اپنے وجدان میں عبادات کو محسوس کرے اور اس کے بعد مشق اور تمرین سے عبودیت میں گہرائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے ، تو وہ کسی بھی دوسری عبودیت سے آزاد ہوجائے گا کیونکہ غیر اللہ کی عبودیت سے چھوٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں اللہ کا بندہ بن جائے۔ اسی وجہ سے جو شخص اللہ کا بندہ نہیں ہوتا وہ بتوں، شخصیات، مجسموں اور طاقتور لوگوں کا بندہ ہوتا ہے۔
حق یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ وہ ذات وحدہ لاشریک ہے جو عبادت کی مستحق ہے(جیسے کہ اہل تصوف کہتے ہیں) وہی معبود مطلق اور مقصود ہونے کا اہل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا ہم پرحق اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کی عبادت کریں اور ہماری زندگی کی ہر حرکت میں عبودیت کا شعور شامل ہو۔ بالفاظ دیگر حق تعالیٰ ہی مقصود ہے کیونکہ وہی اللہ ہے، وہی محبوب ہے کیونکہ وہ اللہ ہے، وہی معبود ہے کیونکہ وہی اللہ ہے۔ اس وجہ سے بتوں، شخصیات، کہانیوں اور مجسموں اور ان دیگر معبودوں کی عبودیت جو گمراہی اور کجروی سے پیدا ہوتے ہیں، کھلا کفر اور کھلی گمراہی ہے کیونکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کے لائق ہے کیونکہ وہی اکیلا معبود برحق ہے۔
اس لئے آدمی جب عبودیت کو اپنا نصب العین بنا لیتا ہے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کے سامنے جھکنے، انکساری اورعاجزی کرنے کا سوچتا ہے اور نہ اپنے آپ کو دوسروں سے اعلیٰ اور ممتاز سمجھتا ہے اور نہ ہی اپنے لئے عبودیت کے مرتبے سے اوپر کوئی مرتبہ یا مقام اختیار کرتا ہے کیونکہ وہ ہمیشہ اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ وہ معبود مطلق سبحانہ و تعالیٰ کے روبرو صرف ایک ایسا غلام ہے جس کی گردن اور ہاتھ پاؤں عبودیت کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ایسا انسان جو بھی کامیابیاں حاصل کرتا ہے اورجو جمال اس کو ملتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب کرتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس انسان نے اپنے نفس اور انانیت کو عبودیت کے گلدستے میں گھول دیا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کبھی اس کا نفس اس کو دھوکہ دے اور اس کا دماغ پھر جائے اور اس نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان سے اس کی آنکھیں چندھیا جائیں لیکن وہ فوراً اپنی روح کی گہرائیوں میں عبودیت کے شعور کے ذریعے اپنے اندر پیدا ہونے والے ان تمام منفی جذبات کا گلا گھونٹ دیتا ہے۔
ہم نے دیکھا کہ عبودیت میں گہرائی اور انانیت اور حب ذات میں تناسب معکوس ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس قدر انسان عبودیت میں گہرا ہوتا چلا جاتا ہے، اسی قدر وہ اپنے نفس کے لیے احتیاط برتتا ہے اور اپنے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات پر قابو پا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں انسان جس قدر اپنے رب کی عبودیت سے دور ہوتا چلا جاتا ہے، اس کے برابر انانیت کا شکار ہوتا چلا جاتا ہے بلکہ نرگسیت پسند ہوجاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے وہ عبودیت کی اپنی ذمہ داری سے دور ہوتا جاتا ہے جو اسے اس کی ماہیت کی یاد دہانی کراتی ہے، تو وہ اپنی تمام کامیابیوں کو اپنی طرف منسوب کرنے لگتا ہے بلکہ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ وہ ان اچھے کاموں کو بھی اپنی طرف منسوب کرنے کی تمنا کرتا ہے جو دوسرے لوگوں نے کئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں شہرت کی خواہش اس کو اپنی طرف اس طرح کھینچتی ہے جیسے بھنور۔
دوسری جانب جو شخص حق تعالیٰ کے حضور دست بستہ کھڑا رہتا ہے اور اپنی ساری زندگی اسی احساس کے ساتھ گزارتا ہے، وہ اپنے آپ کو کبھی نہیں بھولتا اور ہمیشہ اپنی حرکت کے ساتھ اس احساس کو بھی ملاتا ہے کہ وہ ایک عاجز، کمزور اور ناتواں فانی مخلوق ہے جس کے پاؤں میں بیڑیاں اور گردن میں غلامی کا طوق ہے، چنانچہ عاجزی اور فقر کا یہ شعور اس کے جذبات میں عبادت اور عبودیت میں ’’ہل من مزید؟‘‘ کی منزل تک پہنچنے کے لیے آگ لگا دیتا ہے۔ ایسا انسان جتنی بھی عبادتیں کرے یا ہزاروں رکعت نماز پڑھے تو بھی اس کی زبان پر ہمیشہ یہ الفاظ ہوتے ہیں: ’’ اے اللہ ، اےہمارے معبود ہم تیری عبادت اس طرح نہیں کرسکے جس طرح عبادت کا حق تھا اور ہم اس طرح شکر ادا نہ کرسکے جس طرح شکر کا حق ہے اور اے معروف ہم تجھے اس طرح نہیں پہچان سکے جس طرح پہچاننے کا حق تھا۔ اے وہ ظاہر ہستی جس سے اوپر کوئی نہیں، اگر ہم تجھے اس طرح پہچان لیتے جس طرح پہچاننے کا حق ہے، تو ہم پگھل جاتے اورمٹ جاتے۔۔۔۔‘‘ کیونکہ اس بندے کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ جتنی بھی عبادت کرے ، وہ اللہ کی اس پر ہونے والی نعمتوں کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔
لاتعداد نعمتوں پر بے حد شکر
انسان پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اسے جمادات سے بلند کردیا، اس کو زندگی عطا کی جس سے وہ ایک ذی شعور مخلوق بن گیا جانور یا پودا نہیں۔ اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے خالق کو پہچانا اور اسے ایمان کی پراسرار کلید کے ذریعے خلود کے دروازوں کو کھولنے کا موقع فراہم کیا گیا، چنانچہ اس نے وہ رستہ تلاش کیا جس سے وہ جنت کے قابل ہوسکے۔ پس یہ سب باتیں بے شک ایسی عظیم نعمتیں ہیں کہ دنیا میں ان کی کوئی مثال نہیں کیونکہ جس ذات نے اس کو یہ ساری عظیم نعمتیں عطا کی ہیں ، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔
اگر انسان ان نعمتوں کو سمجھ جائے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوجائے اور عبودیت میں گہرائی اختیار کرلے تو وہ ’’ہل من مزید؟‘‘ کہنے والے عظیم لوگوں میں شامل ہوجائے گا اوراگر وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس سے محبت اور عشق میں اضافے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم ) سے اسے حب ذات اور انانیت سے نجات عطا فرمائے گا جیسے کہ حضرت ’’محمد لطفی آفندی‘‘ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کیا مولیٰ عز وجل اس شخص سے محبت نہیں کرے گا جو اس سے محبت کرتا ہے؟
کیا وہ اس کو راضی نہیں کرے گا جو اس کی خوشنودی کی تلاش میں دوڑتا ہے؟
اگر تو اس کے در پر کھڑا ہو گا اور روح، نفس اور احباب کو اس پر فدا کردے
اس کے حکم پر عمل کر، تو کیا وہ تجھے جر جلیل اور ثواب نہیں عطا فرمائے گا؟
سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی طرف ہماری رہنمائی فرماتا ہے اور ہر لمحے ہزاروں واقعات کے ذریعے اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے۔ اس لئے اگر اس کے مقابلے میں ہم ان واقعات کو گہرائی، تیقظ اور مرتب اور منظم انداز میں دیکھیں اورواقعات کی ان تمام مختلف صورتوں کو اکٹھا کرکے اس کلی معنی کو سمجھنے کی سعی کریں جس کی طرف یہ اشارہ کرتے ہیں اوران رستوں کو تلاش کریں جو حق سبحانہ و تعالیٰ تک پہچانتے ہیں ، تو یقیناً اللہ تعالیٰ بھی ہمیں کبھی بھی آدھے راستے میں نہیں چھوڑے گا کیونکہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے آدمی کو چھوڑ دیا ہو جو اس کی طرف چلتا ہے۔
انانیت کے زمانے میں عبودت کی اکسیر
تاریخ کا سلسلہ چلتا رہا ہے ۔ اس میں کچھ اوقات ترقی کے آئے اور کچھ اندھیروں کے بھی ۔ بعض اوقات جب زمین آسمان کی نافرمانی کرتی تھی تو آسمان پانی روک لیتا تھاجس سے زمین اول سے آخر تک چٹیل ریگستان میں بدل جاتی تھی اور کبھی آسمان سے رحمت کی برکھا چھم چھم برسا کرتی تھی توزمین ایسی بالیاں اگاتی تھی جن میں کبھی سات دانے اور کبھی سات سو دانے ہوتے تھے۔ جی ہاں کبھی نور ظلمت پر اس طرح غالب آتا تھا کہ اندھیرے کا نام و نشان مٹ جاتا تھا اور شیاطین کے ماحول پر فرشتوں کاماحول چھا جاتا تھا۔ دوسرے الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ عالم ملک پر عالم ملکوت چھا جاتا تھا۔ عصر رسالت کا بابرکت زمانہ اس کی سب سے اچھی مثال ہے جب شیطانوں اوران کے ادھر ادھر پھیلنے کے لیے مناسب ماحول معدوم ہوگیا تھا۔ بعد کے زمانوں میں بھی ایسے روشن اوقات آئے جو اس زمانے کی مانند تھے۔
ہمارے اس زمانے میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنے دل کے ایک ایک ذرے سے اللہ تعالیٰ کی عبودیت کا شعور رکھتے اور محسوس کرتے ہیں اوروہ صرف اس احساس سے آگے بڑھنے والے اپنے گہرے جذبات کے ذریعے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کو محسوس کرتے ہیں۔ اگر معاملہ ایسا نہ ہوتا تو یہ زمین اپنے مدار پر یوں نہ گھومتی کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کی جانب ان لوگوں کی عبادت کے رخ سے دیکھتا ہے جودین کو بالکل خالص کرکے اس کی عبودیت کا حق ادا کرتے ہیں۔ رہی بات ہم جیسے مجرموں، گناہگاروں اور ٹامک ٹوئیاں مارنے والوں کی، تو اللہ تعالیٰ ان عظیم روحانی حالات والے لوگوں کی عزت افزائی کے لیے ان کو بھی معاف کردیتا ہے اور اپنے ہاں ان کے مرتبے کی وجہ سے کائنات کو مہلت دے دیتا ہے اور ان کی وجہ سے کائنات کواوپر نیچے نہیں کرتا۔
ہمارا زمانہ انانیت کا زمانہ ہےلیکن اللہ کے فضل سے اس میں بھی عبادت اور عبودیت کی ایک خوبصورت مدت شروع ہوگئی ہے۔ ایک روایت میں ہے: ’’اِشْتَدِّي أَزْمَةُ تَنْفَرِجِي“[1] (درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا) کیونکہ اندھیرے کا آخری نقطہ ، روشنی اور ضیاء کی ابتداء کی جانب اشارہ کرتا ہے اور افق پر شفق سے قبل گھپ اندھیرا نظر آتا ہے مگر وہ رات کی سیاہی کی انتہا ہوتا ہے۔ اگر یہ کہنا درست ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کی خصوصیات آخری بار ظاہر ہورہی ہیں۔ جی ہاں،افق پر اندھیرے ہر بار اپنے غیظ و غضب اور سختی کے ساتھ چھا جاتے ہیں لیکن ان کے بعد فجر کاذب کا ا شارہ، صبح صادق کے طلوق ہونے کاسب سے سچا گواہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں قبل ازیں کبھی غلطی نہیں ہوئی کیونکہ جہاں بھی فجر کاذب ہوتی ہے، اس کے نہایت تھوڑی دیر بعد صبح صادق طلوع ہوجاتی ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ انسان (خواہ وہ انانیت کے اس زمانے میں ہی کیوں نہ ہو) اگر حق تعالیٰ کی عبادت اور عبودیت میں جتنی گہرائی اختیار کرے گا، اسی قدر وہ انانیت سے دور ہوتا چلا جائے گا اورانانیت کا دائرہ رفتہ رفتہ تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا جائے گا بالکل اسی طرح جیسے نور کے دائرے کے پھیلنے سے اندھیرے کا دائرہ سمٹتا چلا جاتا ہے۔ انانیت اور عبودیت کے درمیانی تضاد کا بھی بالکل یہی حال ہے کہ ان میں ایک کے بڑھنے سے دوسری گھٹتی چلی جاتی ہے اور بندہ عبودیت میں جس قدر پختہ ہوگا، انانیت اسی قدر کمزور ہوگی اور وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ہر شے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی جانب منسوب کرتا چلا جائے گا۔ دوسری جانب وہ اپنی کامیابیوں کی قیمت ، حق تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی اور اس سے تعلق کے اندازے سے لگائے گا اور مآل کار اس کی انانیت اور اپنی ذات سے محبت کا بالکل خاتمہ ہوجائے گااور وہ اپنے نفس میں فنا ہوکر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ باقی رہے گا اور جہاں بھی جائے گا اس کا ذکر کرتا رہے گا۔
[1] القضاعی، مسند ا لشہاب: 436/1، الدیلمیء مسند الفردوس:426/1
- Created on .