نبی کریم ﷺ کی ایک جامع دعا
سوال: سورۃ ’’المؤمنون‘‘ کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد نبی کریم ﷺ نے یوں دعا فرمائی: ’’ اللَّهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا، وَأَكْرِمْنَا وَلَا تُهِنَّا، وَأَعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا، وَآثِرْنَا وَلَا تُؤْثِرْ عَلَيْنَا، وَأَرْضِنَا وَارْضَ عَنَّا“1 (اے اللہ ہمیں زیادہ فرما کم نہ کر،ہمیں عزت دے اور ذلیل نہ کر، ہمیں عطا فرما محروم نہ کر، ہمیں ترجیح دے اور ہمارے اوپر ترجیح نہ دے ، ہمیں راضی فرما اور ہم سے راضی ہو جا)۔ یہ دعا خصوصاً اس زمانے میں ایمان والے دلوں کے لیے کیا پیغام دیتی ہے؟
جواب: سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو وحی کے ساتھ خاص فرمایاتھا۔ اس لیے کوئی بھی آدمی ان حقائق کی حقیقت تک آپ علیہ السلام کے مرتبے کے برابر رسائی کامل نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ اس دعا کے معنی اور مفہوم کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ اس کی حقیقی گہرائی کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔
پھرجیسا کہ سوال میں کر کیا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے سورۃ ’’المؤمنون‘‘ کی درج ذیل ابتدائی آیات : ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ * الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ * إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ * فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ لأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ * أُولَئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ * الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ (الْمُؤْمِنُونَ: 11-1) (بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو نماز میں عجز ونیاز کرتے ہیں۔ اور جو زکاۃ ادا کرتے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں سے یا کنیزوں سے جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ ان سے تعلق قائم کرنے میں انہیں ملامت نہیں۔ اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں وہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے نکل جانے والے ہیں۔ اور جو امانتوں اور اقرار کو ملحوظ رکھتے ہیں۔اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں۔ یعنی جنت الفردوس کے وارث بنیں گے ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) کے نزول کے بعد یہ دعا مانگی۔
ان مبارک آیات کے نزول کے بعد جو اللہ کی جانب سے آ پ علیہ السلام اور آپ کی امت کے لیے تحفہ ہیں، نبی کریم ﷺ کوکامیابی کی اس خوشخبری کا اندازہ ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے ان مومنوں سے ملا دیاہے جو ان آیات میں مذکور صفات کے حامل ہیں، چنانچہ آپ علیہ السلام مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کے حضوردست دعا دراز فرماتے اور شکر اور احسانمندای کے جذبات کے ساتھ یہ دعا فرماتے۔
پہلی درخواست: ’’اے اللہ ہمیں زیادہ فرما کم نہ کر‘‘
جن الفاظ سے آپ علیہ السلام نے دعا کا آغاز فرمایا ہے۔ وہ ہیں’’ اللہم زدنا ولا تنقصنا‘‘ (اے اللہ ہمیں زیادہ فرما کم نہ کر) ان سے ذہن میں سب سے پہلے جو احتمال آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے امت محمدیہ کی تعداد میں اضافے کی دعا فرمائی ہے کیونکہ یہ کثرت ہمیشہ آپ علیہ ا لسلام کی سب سے بڑی تمنا رہی ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم ﷺ کا وہ فرمان ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ وَالنَّبِيَّانِ يَمُرُّونَ مَعَهُمُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، حَتَّى رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، قُلْتُ: مَا هَذَا؟ أُمَّتِي هَذِهِ؟ قِيلَ: بَلْ هَذَا مُوسَى وَقَوْمُهُ، قِيلَ: انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَإِذَا سَوَادٌ يَمْلَأُ الأُفُقَ، ثُمَّ قِيلَ لِي: انْظُرْ هَا هُنَا وَهَا هُنَا فِي آفَاقِ السَّمَاءِ، فَإِذَا سَوَادٌ قَدْ مَلَأَ الأُفُقَ، قِيلَ: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَيَدْخُلُ الجَنَّةَ مِنْ هَؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ”2(میرے سامنے امتیں پیش کی گئیں تو ایک یا دو نبی گزرے جن کے ہمراہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے، کوئی نبی ایسا ہے کہ اس کے ہمراہ کوئی بھی نہیں، یہاں تک کہ مجھے لوگوں کاایک بہت بڑاانبوہ نظر آیا۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ یہ میری امت ہے؟ تو جواب دیا گیا کہ: ’’یہ موسیٰ اور ان کی قوم ہے۔ پھر کہا گیا کہ افق کی طرف دیکھئے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جم غفیر نے افق کو بھر دیا ہے۔ میں ادھر ادھر آسمان کے کناروں کو دیکھتا ہوں تو لوگوں کے اژدھام نے افق کو بھر دیا ہے ۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے ۔ ان میں سے ستر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے) تو اس منظر نے آپ علیہ السلام کے دل میں خوشی اور مسرت کی لہر دوڑا دی۔
نبی کریمﷺ کی ان حادیث سے جن میں آپ علیہ السلام نے شادی کی ترغیب دی ہے، ہم آپ علیہ السلام کی اپنی امت میں اضافے کی کوشش اور سعی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مثال کے طورپر آپ علیہ السلام ایک حدیث میں فرماتے ہیں: ’’تَنَاكَحُوا، تَكْثُرُوا، فَإِنِّي أُبَاهِي بِكُمُ الْأُمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ“3 (نکاح کرو، اس سے تمہاری تعداد بڑھے گی کیونکہ میں قیامت کے دن تمہاری وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا)
حقیقت واقعہ یہ ہے کہ شادی (ایک انفرادی اور خاندانی مسئلہ ہونے کی وجہ سے )دنیا کے بڑے مسائل کے مقابلے میں ایک معمولی سا مسئلہ معلوم ہوتا ہے اوران کے مقابلے میں اس کی قیمت بھی نہیں ہےمگر اس کے باوجود آپ علیہ السلام نے اپنی امت کو شادی کرنے اور نسل بڑھانے کا حکم فرمایا ہے اور یہ بھی بیان فرمایا کہ یہ کثرت آپ علیہ السلام کے لیے باعث افتخار ہوگی جبکہ باعث فخر ہونے کا مطلب ہے ربانی الطاف کے مقابلے میں احسانمندی کا اظہار۔
عددی کثرت بنیادی ہدف نہیں:
آپ علیہ السلام کے الفاظ ’’اللہم زدنا ولا تنقصنا‘‘ سے صرف کمیت کے لحاظ سے کثرت نہیں بلکہ کیفیت کے لحاظ سے اضافہ اور کثرت بھی مراد لی جاسکتی ہے کیونکہ کیفیت کی وجہ سے ہی کمیت کی قیمت ہوتی ہے اور کیفیت کے بغیر صرف عددی کثرت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت بڑے بڑے گروہ وہ کام نہیں کرسکے جو دس یا بیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے کردکھایا۔ اسلام کے ان اولین عظیم سپوتوں نے اس وقت کی سب سے بڑی دو سلطنتوں یعنی ساسانی اور رومی سلطنت کی سازشوں کو خاک میں ملا یا اور ان کو اپنے قلمر و میں شامل کر کے دنیا کے انجام کو بدل دیا۔
اس کے مقابلے میں آج کے مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ کھرب ہے مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے ان مسلمانوں نے اپنی وہ ذمہ داری ادا کردی ہے جو اتنی بڑی تعداد کے اوپر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ آج قرآن کو مطلوب مرتبے پر فائز نہیں ہیں، وہ دائمی اختلاف اور نزاع کا شکار ہیں یہاں تک کہ انہوں نے جھگڑوں اور اختلاف کے اس گندے دائرے سے نہ نکلنے کی وجہ سے ایک دوسرے کو نہایت کمزور کردیا ہے۔
جی ہاں، جب مسلمان آپس میں اتحاد و اتفاق پیدانہ کرسکے تو اختلاف نےان کی توانائیوں کو ضائع کردیا۔ چنانچہ و ہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے اور عالمی توازن میں آگے بڑھ کر اپنا مقام حاصل نہ کرسکے اور یہ عددی کثرت اس عظیم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے کافی نہ ہوسکی جو عالمی توازن میں امت کے مقام کے لیے ضروری تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس کی کئی کھلی مثالیں مل جائیں گی۔ مثلاً کتنے ہی مخلص لوگوں نے کسی زمانے میں کسی اعلیٰ مقصد کے لیے اپنے اوطان کو خیرباد کہا اوراپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ساری توانائیں جھونک دیں اور بہت بڑے بڑے کام اور مبارک کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن جب یہ لوگ ر وح ، فکر، شعور اور دل اور روح کی زندگی کے مقامات میں پستی کا شکار ہوئے تو ترقی اور آگے بڑھنا تو کجا ، وہ اپنے اس مقام کی بھی حفاظت نہ کرسکے حالانکہ ماضی کے مقابلے میں ان کی تعداد زیادہ تھی۔
جی ہاں، یہ لوگ آرام و آسائش اور سستی کی طرف مائل ہوگئے اور خوف اورحب جاہ کے آگے جھک گئے اور اللہ تعالیٰ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے ہجرت کی سوچ کو بھول گئے، تو ان کی عددی کثرت سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوسکا کیونکہ وہ اپنی قوت، اثر رسوخ اور طاقت سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے اپنی دعا میں ’’زدنا ولاتنقصنا‘‘ فرمایا تو اس سے مرتبہ وہ منزلت اور قدر کی بلندی ہوتی تھی کہ اس مسئلے میں ہم کسی کمی کا شکار نہ ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کمیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ کیفیت میں اضافے کا بھی ارادہ فرمایا کرتے تھے۔
سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ نعمت کو آدمی نعمت سمجھے:
اس کے بعد آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: ’’واکرمنا ولا تہنا‘‘(ہمیں عزت دے اور ذلیل نہ کر)۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام اپنے رب سے یہ مانگ رہے ہیں کہ آپ اور آپ کی امت اللہ تعالیٰ کی جانب سےعزت کا مظہر ہو نہ کہ مادی و سائل ، طاقت اور کشف و کرامات کا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی جانب سے اکرام ایک ایسا بڑا لطف و کرم ہے جس کی خواہش ہونی چاہیے جبکہ ’’اکرام ‘‘ کا صہو باب ’’افعال‘‘ سے ہے۔ اس لیے مفہوم یہ ہوگا کہ: اے اللہ ہمیں عزت دے اور ہمیشہ ہمیں یہ احساس نصیب فرما کہ یہ لطف و کرم اور عنایت، محض تیرا کرم ہے۔
سچ یہ ہے کہ اس اکرام الہٰی کو سمجھنا اور اس کا احساس انسان کے پھسلنے اور پستی میں گرنے سے بچنے کا ذریعہ ہے کیونکہ جس شخص کو اس اکرام کا احساس ہو گا وہ اس بات کو بھی سمجھے گا کہ وہ جن جمالیات سے لطف اندوز ہورہا ہے، وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی آدمی ان جمالیات کو اپنی صلاحیتوں اور ذاتی قابلیت کی جانب منسوب کرے گا جیسے ’’قارون‘‘ نے کہا تھا کہ :﴿إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي﴾ (سُورالقَصَصِ: 78) (یہ مال مجھے میرے ہنر کے سبب ملا ہے)چنانچہ یوں اس نے اپنے لئے ذلت اور رسوائی خرید لی۔ اسی وجہ سے انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے دست سوال دراز کرے اور یوں دعا مانگے: ’’ اے اللہ مجھے میرے اپنے گناہوں اور خطاؤں اور اپنے امتحان کی وجہ سے ذلیل و رسوا نہ فرما۔‘‘
اے اللہ ہمیں محرومی کی سزا نہ دینا!
بعد ازاں رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ’’وأعطنا ولا تحرمنا‘‘(ہمیں عطا فرما اور محروم نہ کر) انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے رب سے ان دنیوی نعمتوں کا سوال کرے جو اسے گمراہ اور سرکش نہ بنائیں بلکہ اللہ جل جلالہ سے ہر چیز مانگے۔ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ (أي أَحدَ سيوره) إِذَا انْقَطَعَ“4 (تم میں سے ہر شخص اللہ تعالیٰ کی اپنی ساری حاجتیں مانگے یہاں تک کہ اگر جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی) اس سے معلوم ہوا کہ انسان رب تعالیٰ سے جو چاہے مانگے، ایسا گرم گھونسلہ جو جنت کے باغوں جیسا ہو یا نیک اولاد یا کوئی اور چیز۔
یہاں دوسری بات یہ ہے کہ ہرانسان کی طلب کی قیمت اس کے مرتبے، منزلت اور اعلیٰ ہدف کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لیے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صالح اولاد اورایسے مادی وسائل جو اسے کسی مخلوق کے آگے ہاتھ پھیلانے سے ر وکتے ہیں، بہت بڑی نعمت ہیں اوران کو اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے لیکن جو شخص زندگی گزارنے کی بجائے احیاء(زندہ کرنے) میں مشغول ہے اور جس نے اپنی زندگی اسی سوچ کے لیے وقف کردی ہے اور اس کی آنکھوں سے تمام انسانیت پر شفقت کی وجہ سے آنسو بہتے ہیں، وہ ایسی تمام دنیوی نعمتوں سے چشم پوشی کرسکتا ہے کیونکہ اس کی سوچ یہ ہے کہ : ’’اے اللہ میں (اپنی زندگی میں )ایسی کوئی کامیابیاں اور فتوحات نہیں دیکھنا چاہتا جن کا سبب میں ہوں یا سمجھا جاتا ہوں، لیکن اے میرے رب میری تجھ سے التجا ہے کہ تو مجھ پر یہ احسان فرما کہ میں مرنے کے بعد اپنی قبر سے اسلام کو چاردانگ عالم میں پھیلتا اور روح محمدی کو دنیا کے کونے کونے میں لہراتے دیکھوں اوراذان کی صدا کرہ ارض کے کونے کونے میں گونجے اور تیرے نام سے دل ہر جگہ دھڑکیں۔‘‘
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے یہ الفاظ ’’وأعطنا ولا تحرمنا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک اپنے رب سے اپنی ہمت کے مطابق مانگتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی پانچ آنے مانگے اور دوسرا کروڑوں کا سوال کرے اور ہو سکتا ہے کہ اس پر بھی بس نہ کرے اور ابدیت اور خلود کا سوال کرے۔ پس جس وقت ایک آدمی اپنے رب سے بعض دنیوی نعمتوں کا سوال کررہا ہوتا ہے، امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی اور حضرت بدیع الزمان سعید نورسی رحمہم اللہ جیسے بلند مرتبہ لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا سوال اور ساری انسانیت کے لیے جنت کے دروازے کھولنے کی دعا کرتے ہیں۔ جی ہاں، ایسے لوگ اٹھتے بیٹھتے کہتے ہیں: ’’ اے اللہ میری روح دن میں پچاس بار نکال، لیکن میری تجھ سے التجا ہے کہ امت محمدیہ کو اس تنگی اور بیچارگی سے نجات عطا فرما اور اس پستی سے باہر نکال دے جس میں اپنی پیدائش سے لے کر اب تک کبھی نہیں پڑی تھی‘‘۔
اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کے حضور دست دعا بلند کرتے ہیں، وہ ان افکار کو پکارتے ہیں جو ان کا مرتبہ ان کے دل میں ڈالتا ہے۔
مسلمانوں کا دوسری قوموں کا دست نگر ہونا سب سے بڑی آفت ہے۔ نبی کریمﷺ اس دعا میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’وآثرنا ولا توثر علینا ‘‘۔ اس کا مطلب ہے کہ:’’ اے اللہ اگر کوئی ترجیح اور انتخاب ہو تو ہمارا انتخالب فرما اور ہمیں ترجیح دے!‘‘ وسیع تر مفہوم میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ: نبی کریم ﷺحق تعالیٰ سبحانہ سے درخواست کررہے ہیں کہ دوسروں اور غیروں کو اس امت پر سیادت کی اجازت دے اور نہ اس کی سیاسی قیادت کی، کہ وہ امت محمدیہ کو اپنے اثر رسوخ اور نگرانی میں رکھیں۔
اللہ تعالیٰ کی جانب سے غیروں کو ہم پر ترجیح دینے کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں، مثلاً اگر ہم عبودیت کا حق ادا نہ کریں اور امانت کا کما حقہ خیال نہ رکھیں اور دین سے الٹے پاؤں پھر جائیں ، تو اللہ تعالیٰ ہمیں نابود کردے گا اور ہماری جگہ کسی اور قوم کولا کر عالمی توازن میں رکھ دے گا۔ اس وجہ سے ہمیں چاہیے بلکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اپنے مقبول بندوں کے اوصاف سے مزین فرمائے اور یہ التجا کریں کہ: ’’ اے اللہ ہمیں ہمارے غیرسے تبدیل نہ فرما! اے اللہ ہمیں ہر اس چیز میں استعمال فرما اور ہم سے وہ خدمت لے جو تو چاہتا ہے!‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہمیں پرانی چیزوں کی طرح چھوڑ دینے اور کسی اور کو ہماری جگہ لے آنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ہمیں ہماری بیوقوفی اور ذاتی خساست کے حوالے کردیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس موضوع کے متعلق ایک اور حقیقت کی جانب بھی توجہ مبذول فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ’’ إِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الحَوْضِ“5 ( میرے بعد تم ترجیح (اقرباء پروری) دیکھو گے۔ تم اس پر صبر کرنا یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آ ملو)
اس حدیث میں مذکور حقیقت آپ ﷺ کے وصال کے بعد ظاہر ہوگئی۔ قرآن کریم نے صحابہ کرام کو جو اس امت کے سابقین اولین تھے، ایسے ادب اور احترام سے ذکر فرمایا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور حیرت ہوتی ہے مگر بعد میں آنے والے بعض لوگ اس بات کو نہ سمجھ سکے۔ چنانچہ اللہ اور اس کے رسول کے ہاں قدر و منزلت کے حامل اسلام کے ہراول دستے پر ظلم و جور کے مرتکب ہوئے۔ مثلاً خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبے کونہ سمجھ سکے جن کو سلطان الاولیاء ، حیدر کرار اور داماد نبیﷺ کے القاب ملے تھے۔ اسی طرح حضرت حسنؓ اور حسینؓ کے زمانے کے بہت سے لوگ ان دونوں حضرات کی قدر و قیمت پہچان سکے اورنہ ان کے مناسب اور لائق مقام و مرتبے کا اعتراف ۔
اسی طرح بعد کے زمانوں میں آنے والے کچھ حکام اس عدل و انصاف کو قائم نہ رکھ سکے جو خلفائے راشدین کے زمانے میں رائج تھا بلکہ اقرباء پروری کی جانب مائل ہوگئے۔ چنانچہ (مثال کے طورپر ) جب کسی آدمی کو کہیں کا حاکم یا والی بنانا یا غنیمت تقسیم کرنا چاہتے تو یہ کام اپنے عزیز و اقارب کے درمیان کرتے حالانکہ خلفائے راشدین میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس نے ا پنے کسی عزیز کو صرف رشتہ داری کی وجہ سے کسی منصب پر فائز کیا ہو۔ خلفائے راشدین نے اپنے عزیزوں کو کبھی بھی دوسروے لوگوں سے الگ کیا، نہ اقرباء پروری کی اور نہ ہی کوئی مدارات ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس قوم میں امات نااہل لوگوں کو دینے کا رواج پڑنا شروع ہوجائے اور ذمہ اریاں عزیزو اقارب کو سونپی جاتی ہوں تو وہ گویا ختم ہوچکی۔
جی ہاں، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتا دیا کہ آپ علیہ السلام کے بعد اقرباء پروری اور ترجیحی معاملات ہوں گے اور ساتھ ہی امت کو حکم فرمایا کہ آپ علیہ السلام سے ملاقات تک صبر کرے کیونکہ صبر کا اختتام سلامتی پر ہوتا ہے۔ یہ وصیت ہمارے زمانے میں بھی ایمان والوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے کیونکہ جن لوگوں کے ہاتھ میں معاملات کی باگ ڈور ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ قابلیت رکھنے والے لوگوں کے رستے میں مختلف روڑے اٹکا کر ان پر ظلم و ستم کے مرتکب ہوں، سو وہ ظلم و جور کرتے رہیں ، مگر تمہارے لیے ضروری ہے کہ کہ اللہ کی رضا کے لئے اس رستے پر خدمت اور سفر کو جاری رکھو جس کو تم حق سمجھتے ہو ۔ جی ہاں،جن لوگوں نے اپنے آپ کو اللہ کے رستے میں وقف کردیا ہے، ان کو اس طرح کی اقرباء پروری اور حاشیہ برداری کے مقابلے میں استغناء کے فلسفے کو کام میں لانا اوراس بارےمیں حق تعالیٰ شانہ کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آج تک وجود میں آنے والی تمام اچھی چیزیں اور افعال کو مقدر فرمایا ہے اور جو کام اللہ تعالیٰ نے پہلے کردیا ہے وہ اس کام کی سب سے سچی دلیل ہے جو وہ مستقبل میں کرے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مستقبل میں بھی تمام اچھی چیزیں اسی طرح بارئے گا جس طرح اس نے ماضی میں بامئی ہیں۔ اس کے لیے بس یہی کافی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخلص اور سچے ہوں اور اس سے تعلق میں کوتاہی نہ کریں۔
عبودیت کا بلند ترین مرتبہ: رضا کی منزل
اس حدیث شریف کے آخر میں نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرما رہے ہیں کہ وہ ہمیں راضی کرے اور خود ہم سے راضی ہوجائے ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ’’وارض عنا و أرضنا‘‘ جبکہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کو لازم ہیں اور کبھی باہم جدا نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی انسان سے راضی ہوگا تو اس کو بھی راضی کرے گا۔ اسی طرح بندے کا اپنے رب کی تقدیر پر راضی ہونے کا مطلب ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہے۔ البتہ اہل اللہ کے درمیان اس بارے میں اختلاف ہےکہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی سبب اور کون سی مسبب ہے کیونکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جب بندہ اپنے ارادے کا حق ادا کرتا ہے تواللہ تعالیٰ کی خوشنودی مل جاتی ہے۔ انہوں نے اس بات کو رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث سے جوڑا ہے کہ: ’’مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَعْلَمَ مَا مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللهِ فَلْيَنْظُرْ مَا مَنْزِلَةُ اللهِ عِنْدَهُ“6 (جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنا مرتبہ معلوم کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے ہاں اللہ تعالیٰ کے مرتبے کو دیکھے)۔ مطلب یہ ہے کہ ذات باری تعالیٰ کے ہاں تمہاری قدر و قیمت اس احترام اور ادب کے برابر ہو گی جو تم اللہ تعالیٰ کا کرتے ہو۔ اگر تم اس سے ہر شے سے زیادہ محبت کرتے ہو، اس کا احترام کرتے ہو اور اس کو دینا و مافیاہ سے بڑا سمجھتے ہو تو اللہ تعالیٰ اور ملاء اعلیٰ کے باشندوں کے ہاں تم بھی یہی قدرومنزلت پاؤ گے، جبکہ اہل اللہ میں سے دیگر حضرت کا کہنا ہے کہ: ’’ اگر اللہ تعالیٰ راضی نہ ہو تو بندے اس سے راضی نہیں ہوسکتے اوراس کی علامت یہ بیان کی ہے کہ اس آیت کریمہ:﴿رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ﴾(التَّوْبِةِ: 100) (اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے) میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو پہلے ذکر فرمایاگیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض دیگر حضرات جن میں امام قشرری بھی شامل ہیں فرماتے ہیں کہ: ’’ ابتداء کو دیکھیں تو یہ بات کسیہ ارادہ و عمل سے جڑی ہوئی ہے جبکہ انتہاء کے اعتبار سے تجلی اور حال سے۔‘‘
اس مسئلے کو اگر ماتریدی عقیدے کے مطابق دیکھیں تو (بنیادی شرط کے طورپر )انسان کو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ارادی طورپر کوشش اور جدوجہد کرنا ضروری ہے جبکہ اس امر کا تعلق اس بات سے ہے کہ انسان اپنی ذات اور اپنے ماحول میں موجود چیزوں پر غور و خوض کرے اور اسلام کے اصل حقائق کا تجزیہ کرے اوران کو درست نداز میں سمجھے۔ جی ہاں ، انسان اللہ تعالیٰ سے راضی ہوجاتا ہے تو وہ اپنی خوشنودی کے ذریعے اس کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور اس کی خوشنودی ہی سب سے بڑی چیز ہے۔
آخر میں عرض ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے اس مبارک دعا میں جتنی بھی چیزیں مانگی ہیں مومنوں کی زندگی پر ان کے نہایت اہم اثرات ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی حق تعالیٰ شانہ سے ہمیشہ ان کا سوال کریں۔
[1] سنن الترمذی، تفسیر القرآن:24
[2] صحیح البخاری، الطب: 17 ، صحیح مسلم، الایمان:374
[3] مصنف عبدالرزاق، 173/6
[4] سنن الترمذی ، الدعوات:155
[5] حیح البخاری ، الماھزی: 58صحیح مسلم، الامارۃ:48
[6] مسند البزار، 307/17 ، ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء: 176/6، البیہیقی ، شب الایمان: (یہ الفاظ بیہقی کے ہیں)
- Created on .