نفس کی اصلاح اور معاشرے کی اصلاح
سوال : کہا جاتا ہے کہ جو شخص اپنی ذات کی مشکلات کو حل نہیں کر سکتا ، وہ اپنے معاشرے کی مشکلات کو بھی حل کرنے کی قدرت نہیں رکھتا ۔ ایسے میں نفس کی اصلاح اور معاشرے کی اصلا ح میں تعلق کی ماہیت کیا ہے؟
جواب: نفس بظاہر حسد، بغض، شہوت اور غصہ جیسی بری صفات کا منبع اور سر چشمہ ہے ۔ یہ وہ صفات ہیں جو کئی حکمتوں اور مصلحتوں کی وجہ سے انسان کی جبلت میں ودیعت کی گئی ہیں ۔ اسی طرح نفس شیطان کے وسوسوں اور اشاروں کو وصول کرنے کا ایک تیار آلہ ہے اور گویا وہ اس کے ایکسچینج کی طرح کام کرتا ہے لیکن ضروری ہے کہ ہم اس بات کو بھی جانیں کہ یہ مشین (اسی وقت) تبدیل ہونے اور ترقی کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے ۔ بلکہ یہ روحانی دنیا میں آدمی کی بلندی اور ترقی کا ذریعہ ہے ، لیکن اس مشین کا اپنے کاموں کو مثبت انداز میں پورا کرنے کا دارومدار آسمانی قوانین کے تحت اچھی طرح تربیت اور تزکیہ کرنے میں ہے ، جس طرح ہم گھوڑے کو اس وقت سدھاتے ہیں جب ہم اسے سواری بنانا چاہتے ہیں ۔ ورنہ اگر ہم اس کواپنے حال پر چھوڑ دیں تو وہ خواہشات اور اہواء کے پیچھے دوڑ پڑے گا اورمادی حیوانی خواہشات کا مطیع ہو کر برائیوں اور شرور پر کاربند ہو جائے گا اور یہ بات آخر کار انسان کو ایک گہری کھائی میں گرا دیتی ہے اور اس کاانجام ہلاکت اور موت ہوتا ہے ۔
دودھ نہ چھوڑنے والا بچہ
امام بوصیری اپنے مشہور قصیدے میں تزکیہ سے عاری نفس کی حالت کی تصویر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
والنفس کا لطفل ان تہملہ شب علی
حب الرضاع و ان تفطمہ ینفطم
(نفس ایک بچے کی طرح ہے اگر تم اسے مہلت دے دو تو وہ دودھ کی محبت میں جوان ہو جائے گا اور اگر دودھ چھڑا دو گے ، تو چھوڑ دے گا۔)
جی ہاں ، اگر نفس کو بر وقت اسے قائل کرنے والے طریقوں سے دودھ سے الگ کیا جائے گا تو اس کی منہ زور خواہشات کے منہ میں لگام پڑ جائے گی ، لیکن اگر اسے حیوانیت پر چھوڑ دیا جائے اور وہ منفی افکار و احساسات کے زیر سایہ پر ورش پائے گا تو اسے سدھانا مشکل ہو جائے گا اور انسان کو ہمیشہ اپنی خواہشات ، پسند اور شہوات سے چمٹے رہنے پر مجبور کر دے گا جبکہ اس آدمی اور حقیقت کے درمیان پردے اور رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ اس کی زندگی سورج گرہن اور چاند گرہن کا شکار ہو جاتی ہے ۔
اسی وجہ سے جو شخص اپنے نفس کا اسیر ہے اور اپنے کاندھوں پر نفس کا بوجھ اٹھاتا ہے اس کے لیے مشکل ہے کہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ بن کر ان کو بھلائی کا رستہ دکھائے۔ اس لیے آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے اپنے نفس کی مشکلات کو حل کرے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ارادے کو اس کا حق دیا جائے اور نفس کی لا تعداد اور بے انتہا خواہشات کا مقابلہ کیا جائے اور صرف جائزدائرے میں موجود لذتوں اور مزوں پر اکتفا کرکے نفس کو حرام کی جانب پھسلنے کا رستہ نہ دے ۔ اس طرح نفس‘‘امارۃ بالسوء ’’(برائی کا حکم دینے والا ) کے مرتبے سے چھوٹ کر ’’لوامہ ‘‘(ملامت کرنے والا ) کے مرتبے کی جانب چل پڑے گا جو انسان کو اپنے نفس کے اطورا اور تصرفات کا محاسبہ کرنے اور اسے ملامت کرنے پر مجبور کرتا ہے بلکہ اس سے آگے نفس ’’مطمئنہ‘‘(اطمینان والا) کے مرتبے تک اس طرح پہنچ جا ئے گا جہاں انسان کا ضمیر اپنے اور اپنے رب کے درمیان موجود تعلق پر مطمئن ہو جاتا ہے ۔ جس طرح انسان بہت سی نقصاندہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہے ، اسی طرح اسے صبح و شام اپنی انانیت اور نفس سے بھی پناہ مانگنی چاہیے، جو اس کے اندر شیطان کے ایک بڑے مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو نفس کبھی بھی مشکلات پیدا کرنے سے باز آئے گا اور نہ انسان اپنی ذات کی مشکلات سے چھوٹ پائے گا۔
سب سے بڑا جہاد
نبی کریم ﷺ نے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے فرمایا:‘‘ تم چھوٹے جہادسے بڑے جہاد کی طرف لوٹے ہو’’تو انہوں نے پوچھا کہ: ‘‘ بڑا جہاد کیا ہے؟’’ اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:‘‘بندے کا اپنی خواہشات کے خلاف جہاد ’’ (البیہقی، الزہد:165/1) اس حدیث میں اس امر کی اہمیت کی دلیل ہے ۔
اسی طرح اس حدیث کا مسلمانوں کے ایک جنگ سے واپسی کے موقع پر وارد ہونا، انتہائی اہمیت کی بات ہے، جو نفس کے خلاف لڑنے اور دشمن کے خلاف جہاد کرنے کے درمیان موازنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔ اسی طرح اس کا بہت گہرا مفہوم ہے ، کیونکہ یہ الفاظ اس وقت کہے جا رہے ہیں جب سب لوگ غلبے اورفتح کے نشے میں مخمور ہیں ۔
بعض اوقات کوئی بات کہی جاتی ہے مگر اس میں مخاطبین کی نفسیاتی کیفیت کا خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے مطلوبہ درجے میں دلوں پر اثر نہیں ہوتا۔ اس لیے مسلمانوں کو فتح کے اس نشے سے نکالنے کے لیے جس میں وہ ڈوب سکتے تھے، اس مقام پر اس کلام کو ذکر کرنے کی انتہائی اہمیت ہے ۔ اس کلام کے ذریعے آپ ﷺ نے یہ ارادہ فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان منفی افکار کا مقابلہ کریں جو اس وقت ان کے نفس میں داخل ہو سکتے تھے جب وہ فتح اور غلبے کے ساتھ مدینے میں داخل ہو رہے تھے ۔
حق بات یہ ہے کہ ہم اصحاب رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نیک گمان رکھتے ہیں کیونکہ حق تعالیٰ شانہ کا فرمان ہے کہ :﴿ وَالَّذِیْنَ جَاؤُوا مِن بَعْدِہِمْ یَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْإِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوبِنَا غِلّاً لِّلَّذِیْنَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّکَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾(الحشر:10) )اور جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے،دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں ،گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیداہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے)۔
لیکن فخر انسانیت سید نا محمد ﷺ نے شاید شروع ہی سے ان کی روحانی حالت کا خیال رکھتے ہوئے ان منفی افکار کے سامنے ایک دیوار کھڑی کرنے کی کوشش فرمائی جو ان کے نفوس میں داخل ہو سکتے تھے ، کیونکہ وہ بشر تھے اور آپ ﷺ ان کی تربیت اور تزکیہ پر مامور تھے۔
غزوۂ حنین کے لئے جاتے ہوئے بعض مسلمانوں کے دل میں یہ خیال آ یا کہ:‘‘آج ہم تعداد میں کم ہونے کی وجہ سے فتحیاب نہ ہو سکیں گے۔’’ چنانچہ معرکے کے آغاز میں عارضی شکست سے دوچار ہوئے ، مگرا س کے بعد رسول اللہ ﷺ کی بہادری اور شجاعت کی وجہ سے دوبارہ ،ناکامی کامیابی میں بدل گئی۔
اگر ہم اس بات کو اپنے موضوع سے جوڑیں ،تو کہہ سکتے ہیں کہ جی ہاں ، بعض اوقات راہ حق میں جہاد کرتے ہوئے مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان کو خطر ناک تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔بلکہ بعض اوقات اس رستے میں اپنے مال اور جان کی قربانی دینے پر بھی مجبور ہو
سکتے ہیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اور ان کو روحانی اور مادی فتوحات سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ اس لیے اہم بات یہ ہے کہ انسان شروع سے ہی ان منفی افکار اور جذبات کے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہو جائے جو فتحمند اور ظفر یاب ہو کر واپسی کے وقت اس کے دل میں پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اس بارے میں حضرت بدیع الزمان سعید نورسی جو کچھ فرماتے ہںم ، وہ ایک اہم معیار ہے۔ آپ فرماتے ہیں :‘‘اے میرے ریاکار نفس ! یہ کہتے ہوئے دھوکہ نہ کھا کہ: میں نے دین ک خدمت کی ہے ، کیونکہ حدیث شریف صراحت سے کہتی ہے کہ :‘‘اللہ تعالیٰ ایک فاجر شخص کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کرتا ہے ’’(1)۔ اس لیے تجھ پر لازم ہے کہ تو اپنے آپ کو وہ فاجر آدمی سمجھے۔ کیونکہ تیرا تزکیہ نہیں ہوا۔’’(2)کیونکہ ایسی کامیابیوں کے وقت بعض اولیائے کرام کے قدم بھی ڈگمگا گئے اور ان کی آنکھیں پھر گئیں ( پھر عام لوگوں کا کیا حال ہو گا۔)
اس لئے اگر کوئی شخص اپنے نفس کی تربیت اور تزکیہ کا خیال نہ رکھے اور اس کےاخلاق کو مکمل نہ کرے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے بہت کچھ کھو دیا اور دنیا و آخرت کی سعادت سے محروم رہا کیونکہ انسان کی قیمت اس کے نفس کی وجہ سے ہے ،جسم کی وجہ سے نہیں۔
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:‘‘اللہ تعالیٰ تمہارے جسموں اور شکلوں کو نہیں دیکھتا ، بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے ۔’’(مسلم ،البر:34، ابن ماجہ، الزہد،9)
جب دل میں خشیت آتی ہے ، تو اس کا اثر احوال اور افعال پر بھی ظاہر ہو تا ہے ۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے فرمایا:‘‘اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا، تو اس کے اعضا میں بھی خشوع ہوتا۔’’(کنز العمال ، حیث نمبر 22520، منقول از العسکری)
اس کے باوجود انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی انسانیت کی جانب توجہ کرے اور اپنے نفس کے ساتھ لڑجھگڑ کر ان مشکلات کو حل کرے جو اس کے اور اس کے نفس کے درمیان ہیں۔ اس بات کی اہمیت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے نفس کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے ۔
کچھ نعمتیں جو زحمت بن جاتی ہیں
نفس جس طرح انسان کو گناہوں کے ذریعے دھوکہ دیتا ہے، اسی طرح وہ اسے ان نعمتوں کے ذریعے بھی الٹا کر سکتا ہے، جو اس پر موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم بتاتا ہے کہ اگرچہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا، مگر اس کی حالت اس کے پاس موجود مال و دولت اور وسائل کی وجہ سے بالکل الٹی ہو گئی، کیونکہ وہ اللہ پر صحیح ایمان نہ لایا اور اپنے نفس کی مشکل کو حل نہ کر سکا اور باوجود اس کے کہ وہ مومن نظر آتا تھا، وہ اپنے ایمان کو یقین میں بدل سکا اور نہ یقین کے افق کی جانب توجہ کر سکا۔ مطلب یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے نظری معلومات کو معرفت میں بدل سکا، نہ علم الیقین تک پہنچ سکا اور خصوصی طور پر عین الیقین کے درجے سے قریب ہونے سے بھی محروم رہا۔ اسی وجہ سے وہ ایک روز بولا:﴿ إِ نَّمَا أُوتِیْتُہُ عَلَی عِلْمٍ عِندِیْ ﴾(سورۃ القصص:78) (یہ مال مجھے میری دانش (کے زور) سے ملا ہے)۔ چنانچہ وہ موسیٰ علیہ السلام کی جانب ہونے، آپ سے قربت اور آپ کی قوم کے درمیان زندگی گزارنے کے باوجود دنیا کے وسائل سے دھوکہ کھا نے کے نتیجے میں نقصان اٹھانے والوں میں ہو گیا۔
اسی طرح سامری بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا ایک فرد تھا۔ اس کو بولنا بہت اچھا آتا تھا اور اس کے پاس دیگر مختلف ہنر بھی تھے، لیکن اس نے بھی ان وہبی خوبیوں کو بچھڑے کی شکل میں ایک بت بنانے پر لگا دیا، تو بالکل الٹا ہو گیا اور گھاٹے میں پڑ گیا۔ چنانچہ آخری عمر تک لوگوں سے دور الگ تھلگ رہا جیسے کہ قرآن کریم میں آیا ہے : ﴿فَاذْہَبْ فَإِنَّ لَکَ فِیْ الْحَیَاۃِ أَن تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَکَ مَوْعِداً لَّنْ تُخْلَفَہُ﴾(سورۃ طہ:97) (جا تجھ کو( دنیا کہ) زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ کہتا رہے کہ مجھ کو ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لیے ایک وعدہ ہے ( یعنی عذاب کا) جو تجھ سے ٹل نہ سکے گا۔)
توجہ دینے کی بات یہ ہے کہ جب انسان کے نفس کی مشکل حل نہ ہو گی تو خود اللہ تعالیٰ کی نعمت بھی انسان کے لیے مصیبت بن جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کہا جا سکتا ہے کہ جو چیز یں انسان کو نعمت نظر آتی ہیں، وہ اس کے لیے زحمت بن سکتی ہیں جبکہ اسے اس کا احساس بھی نہ ہو گا ، بلکہ بعض اوقات معرفت بھی اس کےلیے زحمت اور آفت بن سکتی ہے، بلکہ طاقت اور اختیارات بھی آفت بن سکتے ہیں اور لوگوں میں اس کی قدرو منزلت بھی اسی طرح آفت بن سکتی ہے جس طرح بعض مناصب بھی آفت ہوتے ہیں .... جی ہاں، جس وقت انسان کے پاس وہ وسائل آ جاتے ہیں ،تو ہو سکتا ہے کہ وہ حضرت محمد ﷺ کی روح کے رستے سے ہٹ کر فرعون رمیس ، آلوفیس اور ابن شمس کے رستے پر چل سکتا ہے۔
میں ایک واقعے سے اس بات کی زیادہ وضاحت کرنا چاہونگا جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا۔ در حقیقت ایسے واقعات کی اصلیت اور ثبوت پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے مگر ایسے واقعات میں اہم بات ان سے ملنے والا سبق اور عبرت ہوتی ہے ، ان کی اصل اور ثبوت نہیں، مطلب یہ ہے کہ وہ مفہوم اور سبق اہمیت کا حامل ہے جو ہمیں اس واقعے سے ملتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جاتے ہوئے ایک ایسے آدمی کو دیکھا جو ستر پوشی کے لیے ضروری لباس سے بھی محروم ہونے کی وجہ سے ریت میں چھپا بیٹھا تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ اس کے مالدار ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں ۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کی درخواست اللہ کے حضور پیش فرمائی، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس شخص کے لیے یہی حال بہتر ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ بات اس شخص تک پہنچائی ، مگر اس نے اپنی درخواست پر اصرار کیا کہ کچھ اور مختلف چیزیں بھی بہتر ہو سکتی ہیں ۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس شخص کی مدد کرنے کا حکم فرمایا، تو اس شخص نے ایک وقت کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تعاون سے ایک بکری خرید لی اور کچھ ہی عرصے میں بکریوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور وہ شخص ریوڑوں کا مالک ہو گیا۔ اس طرح دن اور سال گزرتے رہے اور ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جاتے ہوئے لوگوں کا ایک جمگٹھا دیکھا اور جب قریب ہوکر آپ علیہ السلام نے واقعہ پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ :‘‘یہاں ایک نہایت غریب آدمی تھا ، کچھ عرصے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے وسائل سے مالا مال کر دیا مگر اس دولت نے اسے فائدہ نہ دیا کیونکہ اس نے شراب خوری شروع کر دی اور ایک روز شراب پی کر نشے میں دھت ہو گیا اور ایک آدمی سے الجھ پڑا اور اسے قتل کر دیا ۔ آج اس سے قصاص لیا جا رہا ہے ۔’’
حاصل کلام یہ ہے کہ وہ انسان جو اپنے نفس کی مشکلات کو حل نہیں کر سکتا وہ ہر روحانی اور مادی توفیق کو (جیسے کہ پرانے زمانے سے لے کر اب تک ثابت ہے) اپنی ہلاکت کا سبب بنائے گا۔ اس لیے اگر نعمت انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر کے غفلت کی جانب لے جا رہی ہے تو وہ نعمت نہیں بلکہ نعمت کی شکل میں زحمت ہے۔ جی ہاں، یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہیے کہ وہ چیز جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہو ( خواہ وہ استنبول کی فتح ہی کیوں نہ ہو) وہ ایک آفت ہے جسے اللہ تعالیٰ بندے پر مسلط کرتا ہے اور وہ اسے اس مقام پر شدید نقصان میں ڈال دیتا ہےجہاں سے کامیابی کی امید ہوتی ہے ۔ ان تمام خطرات سے بچنے کا رستہ یہ ہے کہ آدمی جہاد اکبر سے کبھی پیچھے نہ ہٹے ۔ مطلب یہ ہے کہ نفس کے خلاف جہاد کرتا رہے اور نفس کے حیلوں اور سازشوں سے مقابلے میں نہایت چوکس اور بیدار رہے۔
(1) البخاری، الجہاد والسیر، 2834؛ مسلم ، الایمان : 162
(2) بدیع الزمان سعید نورسی الکلمات، چھبیسویں کلمہ کا اختتام
- Created on .