جذبہ اور وفا داری
سوال :ان عظیم لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جن کی وجہ سے ہم نے حق اور حقیقت کو پہچانا اور اسی وجہ سے ہم ان کا احترام اور ان سے شدید محبت کرتے ہیں؟
جواب: ایمان والے دل جس وقت اپنی روح کے پیغام کو مخاطبین کے دلوں میں اتارنے کی کوشش اور سعی کر رہے ہوتے ہیں ، اسی وقت وہ بعض اوقات ان خصوصی جمالیات پر بھی بات کرنے پر مجبور ہوتے ہیں جن کے دائرے میں وہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ، لیکن ان حالات میں بھی ان لوگوں کے عمومی احساس کا خیال رکھنا مطلق ضروری ہے جو اس دائرے کے باہر بالکل ایک الگ خط پر روبہ سفر ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ ان جمالیات جن کا معاینہ اور مشاہدہ انہوں نے ہمارے دائرے میں کیا ہو ، اس کووہ اپنی فہم اور خاص اسلوب کے مطابق قلمبند کریں ، لیکن ایسے میں ایمان والے دل پر جذبات کا غلبہ بالکل نہیں ہونا چاہیے اور اس کو قطعی طور پر ایسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جن میں مبالغہ نہ ہو ، اگرچہ اس کی گفتگو ایسے اشخاص کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو جن سے اسے عشق کے درجے تک محبت ہے اور وہ ان کا شدید احترام کرتا ہے ۔ یہ بات اس وقت اور بھی خصوصیت کی حامل ہوتی ہے جب اس کے بیان کردہ معاملات کا تعلق براہ راست دین کی روح کے ساتھ نہ ہو اور اسے فرعی مسائل سے ہو جن کے بارے میں گفتگو کے دوران اختلاف کی گنجائش ہو ۔ اس لیے ایسے موضوعات پر گفتگو سے بچنے کے لیے انتہائی حساسیت کا اظہار ضرو ری ہے۔ مثلاً کسی شخص کا حضرت محمد بہاء الدین نقشبند سے ایسا زبردست اور قومی تعلق ہو سکتا ہے کہ ( اپنی روحانی حالت کے اعتبار سے ) اگر اس کے پاس ایک ہزار جانیں بھی ہوتیں تو وہ ان کی محبت میں قربان کر دیتا ۔ مگر اس کے باوجود ( دیگر طرق کے علاوہ) خود طریقۂ نقشبندیہ کی بھی مختلف شاخیں ہیں جیسے : مجددیہ ، خالدیہ ، کفرویہ، طاغیہ وغیرہ اور ہو سکتا ہے کہ خود ان شاخوں کے درمیان بھی کسی طرح کا مقابلہ ہو ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک دوسرے سے مقابلے کا مطلب دوسروں کی مزاحمت نہیں ہونا چاہیے بلکہ حق کے بارے میں مقابلے کا مقصد اس خیال سے ہونا چاہیے کہ:‘‘ میں اپنے بھائیوں سے پیچھے نہ رہ جاؤں۔’’ یا بالفاظ دیگر مقابلے کو ایک حرکت اور عقلی تحریک ہونا چاہیے جو اس سوچ سے وابستہ ہو کہ: ‘‘مجھ پر لازم ہے کہ میں جنت سے باہر نہ رہوں جبکہ میرے بھائی اس میں داخل ہو رہے ہوں ، بلکہ ضروری ہے کہ میں بھی ان کے ہمراہ داخل ہو جاؤں۔’’ البتہ جب لوگ اس احساس کو توازن کے ساتھ نہیں لیتے اور اس پر کاربند نہیں ہوتے اور اسے غلط استعمال کرتے ہیں ، تو وہ آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں، بلکہ بعض اوقات معاملات یہاں تک نہیں رہتے، جس سے مقابلے کا احساس حسد اور بغض میں بدل جاتا ہے ، جبکہ اہل ایمان کے لیے یہ بات نہایت خطرناک ہے۔ اس رخ سے ، ایمان والے دلوں کو پوری تاکید کے ساتھ چاہیے کہ وہ اس مسئلہ کو متعصب ‘‘تعلق’’ کے ساتھ نہ جوڑیں تاکہ اس وجہ سے ان کے ان بھائیوں میں حسد کے جذبات کو مہمیز نہ ملے جو دوسرے خطوط پر کام اور محنت کر رہے ہیں اور ان کو چاہیے کہ وہ مومنوں کے درمیان اتفاق و اتحاد کی خاطر اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔
سب سے اعلیٰ مرتبہ
اشخاص کے ساتھ وفا داری اور سچائی ہی اصل نہیں ، بلکہ اصل بات اس مثالی سوچ سے وفاداری اور اخلاص ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اشخاص اپنا تن من دھن لگا دیتے ہیں ۔ا س کی وجہ یہ ہے کہ اشخاص فانی اور افکار باقی ہیں ، جبکہ وفا داری اور سچائی سے بڑا کوئی مرتبہ نہیں، کیونکہ اس آیت کریمہ: ﴿وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَءِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولَءِکَ رَفِیْقاً﴾(النساء: 69)‘‘اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل کیاہے یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔’’ میں سچائی کو شہادت اور ولایت سے مقدم رکھا گیا ہے ۔ اسی لیے حضرت ابو بکر صدیق کو ’’صدیق اکبر‘‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ جو انبیائے کرام کے بعد سب سے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں ۔ اس لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہم ان اشخاص کے بارے میں مبالغہ آرا الفاظ استعمال کریں جن سے ہم محبت اور جن کا ہم احترام کرتے ہیں، بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم جس قدر ہو سکے ان کے رستے پر چلیں اور ان کے ہر ہر قدم کی پیروی کریں۔
علاوہ ازیں جو شخص کسی شخصیت سے عشق کے درجے تک کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے ۔( میرے خیال میں) اس کا دعویٰ اس وقت تک غلط ہے جب تک اس شخص کے ذکر کے وقت اس پر کوئی اثر نہ ہو اور وہ رات کو سو رکعت نماز پڑھنے کے بعد یہ دعا نہ کرے کہ:‘‘اے اللہ ! میرا حشر ان کے ساتھ فرما۔’’ اوراس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے محبوب کے پیغام کو پھیلانے کی خاطر اپنے پاس موجود چیزوں کو قربان نہ کرے ۔ اس لئے یقینی بات ہے کہ آدمی کو اپنے نفس کا محاسبہ اور اس سے سوال کرتے ہوئے اس معیار کو ذہن میں رکھنا چاہیے ، ورنہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم کسی پر مخلص اور سچا نہ ہونے کا الزام دھریں۔
ایک اور بات کو بھی جاننا ضروری ہے کہ جس وقت آپ کسی شخص کے بارے میں جذباتی واقعات کی روشنی میں بات کرتے ہیں تو اس وقت آپ غیر محسوس انداز میں دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہیں اور اس طرح اس شخص کے خلاف بہت سے محاز کھولنے کا باعث بنتے ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کی باتیں ،آپ کا رویہ اور آپ کے مبالغہ آمیز تصرفات، صرف دین بیزار حلقوں کو بھڑکانے کا سبب نہیں ہو سکتے ، بلکہ ایمان والوں کے درمیان بھی مختلف سطحوں پر جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں۔ جی ہاں ، جب ہم کسی مسئلے کو اشخاص کے لیے مخصوص کرکے اس کے دائرے کو تنگ کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے مختلف خطوط پر اسلام کی خدمت کرنے والوں کو مقابلے اور عداوت کی طرف دھکیل دیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم حسد کے گناہ کی وجہ سے ان کے ہلاکت کا سبب بھی بن جائیں ۔ اس وجہ سے میں بار دیگر کہہ رہا ہوں کہ: جن لوگوں سے ہم محبت کرتے ہیں ان کے ذکر کی اہمیت نہیں، بلکہ زیادہ اہم بات ان کے افکار کے ساتھ سچائی اور مکمل اخلاص ہے۔
مبالغہ آرائی سے بھرپور الفاظ نقصاندہ اور خیانت کے برابر ہیں
یہ بات بڑا ظلم و ستم ہے کہ ہم ہر اچھی بات کو قائدین اور مرشد ین کی جانب منسوب کریں اور اس کے بعد مبالغہ آمیز الفاظ سے ان کی تعریفیں کریں، کیونکہ ہر کامیابی اور کامرانی ، وحدت اور ہم آہنگی کے جذبے کے لیے اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس لیے راہ حق میں تمام جذبات کو دوسرے لوگوں کے علاوہ صرف قائدین اور مرشدین کی طرف منسوب کرنا نعوذ باللہ شرک تک لے جاسکتا ہے ۔ علاوہ ازیں یہ ان لوگوں کی کوششوں اور کاوشوں پر بھی ظلم ہے جو ان عظیم خدمات کو منصہ شہود پر لانے کے لیے مسلسل کوششیں کرتے رہے۔
رہی بات رہنمائی کی ، تو یہ جاننا لازمی ہے کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں جبکہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے جبر لطفی کی وجہ سے خدمات کے میدان میں پہلے داخل ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ میں کسی شخص میں کی پیدائش کا وقت پہلے لکھ دیا ہو ، جبکہ کوئی بھی انسان اپنی پیدائش کے وقت کا تعین نہیں کر سکتا ۔ اس لیے دین کی خدمت کے رشتے میں شامل ہونے کے لیے تقدیم و تاخیر کی کوئی قیمت نہیں۔
یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے بڑوں اور بزرگوں کا نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کی بجا آوری میں احترام کرتے ہیں کہ :‘‘ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت نہ کرے۔ ’’(الترمذی ، البر :15) لیکن اس کا مطلب ان بزرگوں اور بڑوں کو اتنا بلند کرنا بھی نہیں جہاں ان کے کاندھے عظمت کا بوجھ نہ اٹھا سکیں اور ان کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے ۔ مثلاً جس شخص کو کسی کے ہاتھ پر ایمان کے حقائق سے آگاہی حاصل ہوئی، ہو سکتا ہے وہ اسے ایک قطب تصور کرے ، لیکن اگر وہ مبالغہ آرائی کرتے ہوئے جذباتی انداز میں جگہ جگہ اپنے احساسات کا اظہار کرے ، تو وہ اس مثالی سوچ سے خیانت کا مرتکب ہو گا ، جس کو وہ شخص حاصل کرنا چاہتا تھا۔
آپ کے بہت سارے ایسے بھائی ہیں جنہوں نے دنیا کے مختلف گوشوں کی طرف ہجرت کی اور بعض عظیم خدمات انجام دینے میں کامیاب ہوئے، لیکن اس کے با وجود ان کو مختلف ناموں اور القاب سے موصوف کرنا اور اعلیٰ علیین تک بلند کرنے کا مطلب ‘‘رضا کاروں’’ کی اس تحریک سے خیانت ہو گی ، اگرچہ یہ تعریف غرض اور خواہش سے خالی ہی کیوں نہ ہو ، کیونکہ اس کی وجہ سے ان لوگوں کی جانب سے نئے محاذ وجود میں آ سکتے ہیں جن کو آپ کے معیار سے واقفیت نہیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ اس بارے میں مبالغہ کریں جبکہ آپ لوگوں کے منہ بند نہیں کر سکتے ، لیکن آپ کا فرض یہ ہے اور آپ کے فائدے میں یہ بات ہے کہ آپ اپنے منہ سے مبالغہ آمیز الفاظ نہ نکالیں اور اپنی زبانوں کو ایسی جذباتی معرکہ آرائی سے بچائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ موضوع‘‘ رضا کاروں کی تحریک’’ کے مستقبل کے لیے بہت اہم ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ اس بارے میں مسلسل تنبیہ اور خبردار کرنے کی ضرورت ہے ۔ آپ چاہیں تو اس کو ‘‘خدمت کا فرض’’ کہہ سکتے ہیں۔
’’لا شئی ’’ کے لفظ کے ساتھ دستخط
دوسری جانب یہ بات بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ جب ہم ان لوگوں سے ملیں جو دیگر مختلف طریقوں سے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں، تو ہم اپنی بات ان شخصیات کے تذکرے اور فضائل سے شروع کریں ، جن کا ان کے دلوں میں بڑا مرتبہ ہے اور ان کے بارے میں احترام اور پوری عزت سے بولیں ،کیونکہ عزت و احترام کا جواب عزت و احترام سے ملتا ہے ۔ لیکن اگر آپ اپنی سوچ کو تنگ کر دیں اور صرف اپنے طریقے کے بارے میں بات کریں جس سے آپ کو شدید محبت ہے، تو اس طرح آپ اپنے اور اپنے مخالفیں کے درمیان حائل خلیج کو مزید وسیع کر دیں گے اور اپنے مسلک کے بارے میں منفی رد عمل کا سبب بنیں گے ۔ اس کے با وجود اس انسان کو چاہیے جو اپنے طریقے سے محبت کرتا ہے، اس سے اسے گہری محبت اور عشق کا تعلق ہے اور اپنے اس دائرے کے لیے دوسروں کے احترام اور عزت کا متلاشی ہے، اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اچھی طرح سوچے کہ: کیا اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے دائرے میں موجود لوگوں کو پیش کرے یا دوسروں کو قبول کرے اور ان کا احترام اور عزت کرے؟ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہم مسلمان اگرچہ دین کی خدمت کی شاہراہ پر مختلف خطوط پر رواں دواں ہیں ، مگر ہم میں سے ہر ایک کے پاس اس اعلی اور قیمتی خرانے کا ایک رخ ہے۔
یہ بات درست نہیں کہ کوئی یہ کہے کہ:‘‘ یہ یا وہ اس خرانے کا زیادہ بھاری رخ اٹھائے ہوئے ہے۔’’کیونکہ اس سے ایک دوسرے سے مقابلے اور حسد کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں ۔ اگلی بات یہ کہ جب حقیقت اس شکل میں ہے تو بے شک اس شخص کو آخرت میں اجر عظیم ملے گا۔ لیکن اگر ہم اپنے رستے پر چلنے والے بعض لوگوں کی تصویروں کی مبالغہ آرا الفاظ کے ذریعے ملمع سازی کریں گے، تو ہم شرک کے کیچڑ میں جا پڑیں گے ، کیونکہ ہم خدائی کاموں کو انسانوں کی طرف منسوب کرنے کے مرتکب ہو جائیں گے اور ہم آہنگی اور یکجہتی کی روح کو خراب کر دیں گے ۔ اس لیے ان لوگوں کو چاہیے ، جنہوں نے توحید کو اپنا نصب العین بنا کر شرک کے خلاف اعلان جنگ کیا ہے کہ وہ شرک کے ایک ذرے کو بھی اپنے دلوں میں گھسنے کا موقع فراہم نہ کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی﴿خَالِقُ کُلِّ شَیْْءٍ ﴾ (الانعام :102) ‘‘ہرشے کا خالق ہے۔’’ ( الرعد :16، الزمر: 62، المومنون:62)، ﴿وَاللَّہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُون﴾ (الصافات:96( ‘‘تم کو اور جو تم بناتے ہو اس کو اللہ ہی نے پیدا کیا ہے۔’’اب اس بنیاد پر کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے افعال کا خالق ہے ، ہم پر لازم ہے کہ ہم اس بات کو جانیں کہ انسان کی طرف فعل کی نسبت وہ عظیم مصیبت ہے جو یونانی فلسفے کی وجہ سے دنیائے اسلام پر آئی ہے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اور سب باتوں سے جان چھڑا کر پوری قوت کے ساتھ توحید کے دامن کو تھام لیں۔
توحیدتک رسائی کاسب سے اہم عامل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے آپ پر ایک نظر ڈالے ۔ اس سلسلے میں یہ مقولہ ہماری دستگیری کرتا ہے کہ:’’اے ریاکار نفس اپنی اس بات پر غرور نہ کر کہ :‘‘میں نے دین کی خدمت کی ہے’’ کیونکہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ‘‘بے شک اللہ تعالیٰ کسی فاجر انسان کے ذریعے بھی اس دین کی مدد کرتا ہے ۔’’(البخاری ، الجہاد :182)اور اس راز کی وجہ سے تم پر لازم ہے کہ اپنے آپ کو وہ فاجر آدمی سمجھو، کیونکہ تم پاک نہیں‘‘ ( بدیع الزمان ، کلمات،سولہویں اور بیسویں کلمہ کا خاتمہ) ان الفاظ کو لکنے والے صاحب اپنے نفس کے مرتبے کو پہچاننے پر زور دیتے ہیں اور اسے صرف اور صرف ان جمالیات کی گزر گاہ سمجھتے ہیں جو اس سے گزرتی ہیں وہ اسے ان جمالیات کا مظہر نہیں سمجھتے ،۔(کلمات اٹھارہواں کلمہ ) اور اسے بالکل ، بیچ خیال کرتے ہیں۔ آپ اپنے ان الفاظ سے ایک مرشد اور معلم کی حیثیت سے ہمیں ایک زبردست سبق دے رہے ہیں ، کیونکہ اگر وہ اپنے آپ کو’’ لاشئی’’(ہیچ) سمجھتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ‘‘ہیچ در ہیچ ‘‘سمجھنا چاہیے۔
- Created on .