اخوت کے نورانی تعلقات
سوال:‘‘خطبہ شامیہ ’’(1)میں کہا گیا ہے کہ اہل ایمان کو آپس میں جو ڑنے والے نورانی تعلقات سے جہالت ان خطرناک امراض میں سے ایک ہے جو ہماری ترقی اور آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نورانی تعلقات کیا ہیں؟
جواب:جس وقت حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے جامع مسجد بنی امیہ دمشق ، میں خطبہ شامیہ ارشاد فرمایا ،اس وقت اسلامی دنیا ایسی مشکلات اور مصائب کا شکار تھی جن کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں تھی، چنانچہ حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اس ماحول میں ایسے ذرائع تلاش کرنے کی سعی فرمائی جو ان لوگوں میں حمیت کو بیدار کریں جو برسوں سے تعیش اور سستی کے اس طرح عادی ہو گئے تھے کہ گویا ان کو زنگ لگ چکا ہے اور وہ کسی کام کے قابل نہیں رہے ، ان کے اعصابی خلیے سکڑ گئے ہیں اوران کی صلاحیتیں اور توانائیاں دوبارہ حرکت اور آگے بڑھنے سے عاجز آ چکی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ان کا ظاہری اور باطنی اور روحانی اور مادی حواس کو حرکت میں لانے کی کوشش کی۔
موت کے ماحول کو یاد دلانے والی مایوس کن الفاظ اور‘‘شوبان’’ کے ماتمی مرثیوں جیسے مرثیوں کی بجائے ، ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے طاقتور الفاظ گنگنا رہے ہیں جو فوجی بینڈ کی طرح گرج دار ہیں اور کہتے ہیں : ‘‘امید قائم رکھو کیونکہ مستقبل کے انقلابوں میں اسلام کی گرجدار آواز سب سے بڑی اور سب سے اعلیٰ آواز ہو گی’’۔ ان الفاظ کے ذریعے ان کے مردہ عزائم کے لیے امید کا سر چشمہ بننا چاہا۔ پوپھٹنے کے وقت ایسے امور کے بارے میں بات کرنا جن سے امید پیدا ہوتی ہو، اگرچہ ایک مہارت ہے، لیکن کوئی بڑی مہارت نہیں، بلکہ سچی مہارت اس طاقت کے اندر چھپی ہے جو ارادوں کو مستقل اور زندہ کرنے والے یہ کلمات اس وقت کہہ سکتی ہو جب صبح کا ذب کا بھی کوئی نشان نہ ہو۔
اخوت کے تعلقات اسمائے حسنیٰ کی تعداد کے برابر ہیں
جی ہاں ، حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اپنے اس خطبے میں جو تقریباًایک صدی قبل دیا تھا۔ پہلے ان امراض کی تشخیص فرمائی جو ہماری ترقی اور آگے بڑھنے کے رستے میں حائل ہیں اور پھر اسلامی دنیا کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے ضروری نسخے تجویز فرمائے ، چنانچہ آپ نے جو سب سے بڑا مرض تشخیص کیا وہ ان نورانی تعلقات سے غفلت تھا جو اہل ایمان کو آپس میں جوڑتے ہیں ، جبکہ اس کے علاج کے لیے جو طبی نسخہ تجویز فرمایا ، وہ آپس میں اتفاق اور شورائیت کی روح کا دوبارہ احیاء ہے ۔
در حقیقت حضرت نورسی نے خطبہ شامیہ میں اس موضوع پر اجمالی بات کی ہے ، جبکہ اس کی تشریح اور تفصیل ‘‘ملاحق’’، ‘‘رسالہ اخلاص’’اور ‘‘رسالہ اخوت’’ میں ذکر فرمائی ۔ مثلاً رسالہ اخوت میں آپ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں اتفاق اور اخوت کے روابط اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کی کے برابر ہیں اور ان میں سے یہ روابط شمار کئے :‘‘ہمارا رب ایک ہے، ہمار انبی ایک ہے، ہمارا قبلہ ایک ہے ، ہمار اوطن ایک ہے۔۔۔’’ اس کے بعد اپنے ان الفاظ: ‘‘اس طرح ایک ہے ، ایک ہے۔۔۔یہاں تک کہ یہ تعداد گیارہ سو تک جا پہنچتی ہے ’’، سے اس بات کی عظمت اور اہمیت کی جانب توجہ مبذول فرمائی۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : ‘‘ایمان کے ستر اور کچھ یاساٹھ اور کچھ ( راوی کو شک ہے) شعبے ہیں۔’’ (مسلم ، الایمان :57) ۔ ہم ان کو کثرت سے کنایہ سمجھ سکتے ہیں ، کیونکہ ان شعبوں میں سے ہر شعبہ ایک ایسا نہ ٹوٹنے والا رشتہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے ۔ اسی طرح قرآن کریم کے بیان کردہ حقائق بھی وہ مضبوط اور طاقتور رشتے ہیں جو ہمیں باہم جوڑتے ہیں۔
دوسری جانب جب ہم اس بات کو امت کی سطح پر دیکھتے ہیں ، تو ہمیں ایسے بہت سے ایسے مشترک روابط نظر آ تے ہیں جو ہمیں آپس میں جوڑتے ہیں، کیونکہ ہم ایک طویل عرصے سے ایک وطن کے سائے اور ایک ہی سر زمین کے اوپر رہ رہے ہیں ۔ اس بنا پر ہمارا انجام ایک ہے، ہماری ثقافت ایک ہے اور ہماری تربیت ایک ہے ، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک ہی ظلم ، ایک ہی ستم اور ایک ہی جبر کا شکار رہے ہیں۔ اس لیے حضرت استاد نے اس بات سے خبردار فرمایا کہ یہ بات بذات خود کھلا ظلم ہے کہ ہم ایسے روئے اختیار کریں جو ہمیں شقاق ، نفاق ، کینہ اور بغض کی طرف لے جائیں ، حالانکہ ہمارے درمیان وہ مشترک اقدار موجود ہیں جن کا تقاضہ محبت اور اخوت ہے۔
ذاتی خصوصیات سے بالا تر ہونے کی نیت
ان نورانی تعلقات کا بغیر کسی کمزوری کے بقا( ضرورت کے وقت)ہر فرد کے اپنی ذاتی خصوصیات ، اپنے اختیارات اور ذاتی پسنداور نا پسند سے بالا تر ہونے میں مضمر ہے ۔ یعنی ہر شخص نہ چاہتے ہوئے بھی اتفاق کی خاطر ایک مشترکہ نقطے پر رہے ۔ اگر ہم اس بات کو حضرت استاد کے مفہوم کے مطابق بیان کر نا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی مسئلے کے بارے میں‘‘حسن’’ پر اتفاق ہو سکتا ہو تو‘‘احسن ’’ کے بارے میں اختلاف میں نہیں پڑنا چاہئے، بالفاظ دیگر : اگر ‘‘احسن ’’ کے پیچھے دوڑ لگی ہو گی تو وہ ہمیں اختلاف میں ڈال دے گی ، اس لیے اس وقت سکوت اور ‘‘حسن’’پر اکتفا ضروری ہے ۔ اس رخ سے میں سمجھتا ہوں کہ‘‘احسن’’ کی خواہش میں بھائیوں کے درمیان نزاع کی کوشش سے رکنا ضروری ہے ، جبکہ ‘‘حسن’’ کے بارے میں یگانگت اور تعاون کرنا ممکن ہو ۔ اسی طرح اختلاف اور افتراق کے اسباب کو سامنے لانے سے گریز کرنا چاہیے ، کیونکہ حق سبحانہ و تعالیٰ اپنی سبحانی توفیق کو اتفاق اور یکجہتی سے جوڑ کر بھیجتا ہے ۔ اس لیے جس چیز پر اتفاق ہو جائے ، اگرچہ وہ بظاہر صرف‘‘حسن’’ ہو ، تو بھی درحقیقت‘‘احسن’’ سے بھی‘‘احسن’’ہے۔ اس وجہ سے اخوت کی روح کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ ایسے فرعی مسائل کے استعمال سے بچنا ایک ضروری امر ہے جو تفریق کا باعث بنتے ہیں۔
جی ہاں ، انسان کے لیے لازمی ہے کہ وہ دوسروں کے احساسات کا خیال رکھے اور ( بوقت ضرورت) اپنے ذاتی اجتہادات اور استنباطات سے کنارہ کش ہو جائے۔ اس طرح ذاتی آراء کو اختلاف کا ذریعہ بنا نے کا موقع ختم ہو جائے گا۔
مثال کے طور پر نماز کو اس کی حقیقت کے مطابق ادا کرنا نہایت ضروری بات ہے اور بقول امام الوارلی ‘‘نماز دین کا ستون اور اس کا نور ہے اور نما ز ہی دین کے سفینے کو چلاتی ہے ، کیونکہ نماز تمام عبادتوں کی بنیاد ہے۔۔۔’’اور نماز کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی ذات سے کنارہ کش ہو جائے اور اپنے آپ کو حق سبحانہ و تعالیٰ کے حضور یوں سمجھے کہ جیسے وہ معراج میں ہے۔
اس لیے انسان کو چاہیے کہ (اپنے عرفانی افق کی وسعت کے مطابق) اپنے دل کو نماز کی نیت کرتے ہی اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز سے خالی کر لے اور اس کی آنکھ کو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی شے نظر نہ آئے۔ اس کے بعد وجد اور استغراق کے ساتھ نماز اس طرح پڑھے کہ گویا وہ ایک الگ رخ پر ہے اور مختلف تجلیات کا مشاہدہ کر رہا ہے ۔ مگر( عام طور پر) ہم ان پڑھ لوگ ہیں اور ہم جیسے اکثر لوگ نماز کی شکل کو ادا کرتے ہیں، لیکن یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگرانسان نماز کو اس کے ارکان اور شرائط کا خیال رکھتے ہوئے اس کی صورت کو ادا کرلے، تو بھی بظاہر اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ اس لیے یہ بات قطعاً درست نہیں کے اس دعویٰ کے ساتھ لوگوں کے خلاف تہمت آمیزسلوک یا زبان استعمال کی جائے کہ وہ نمازکو اس کے معنیٰ اور حقیقی مفہوم کے ساتھ ادا نہیں کرتے۔ اس بارے میں ضروری ہے کہ اس مسئلے کو اس حالت میں قبول کر لیا جائے اگرچہ وہ شکلی اور صوری ہی کیوں نہ ہو اور یہ بات مناسب نہ ہو گی کہ اعلیٰ درجات تک پہنچنے اور اپنے مسئلے کو اعلیٰ وارفع اور افضل مقاصد سے جوڑتے ہوئے اختلاف میں پڑ جائیں ۔ ورنہ ایسا ہو سکتا ہے کہ افضل کی تلاش کرتے ہوئے انسان غیر محسوس انداز میں مختلف قباحتوں کی گہرائی میں گر جائے اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی خوشنودی، اس کی نظر اور توفیق کو ہم سے روکنے کا باعث بن سکتی ہے۔
یہی ملاحظات زکاۃ پر بھی ہو سکتے ہیں ،کیونکہ آپ لوگوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب اور ان کے دلوں میں ‘‘سخاوت کے مفہوم’’ کو بیدار کرنے کی خاطر1/40زکاۃ کو ’’بخیل کی زکاۃ‘‘ کہہ کر ان سے 1/20یا1/10 یا1/5 کے حساب سے زکاۃ دینے کی بات کر سکتے ہیں ، مگر یہ بات ترغیب کے باب میں جتنی بھی جائز ہو،آپ پر لازم ہے کہ اس سے بچیں کیونکہ اس صورت میں آپ کا رویہ اختلاف کا دروازہ کھول دے گا اور جھگڑے اور مخالفت کا باعث بنے گا ۔ اس لیے اس بارے میں دین کے بنیادی موضوعی احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔
صحیح بخاری و مسلم میں ایک روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسو اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اسے اس پر فرض احکام یعنی، نماز ، روزہ اور زکاۃ وغیرہ سکھائے تو وہ شخص بولا:‘‘میں اس میں کوئی زیادتی کرونگا اور نہ کمی’’ تو آپﷺ نے فرمایا:‘‘اگر سچ کہتا ہے تو کامیاب ہو جائے گا۔’’ ( البخاری ، العلم :6)یہ ہمارے مسئلے کی جانب ایک اشارہ ہے کیونکہ اگر تم ( اپنے ذاتی احکامات کے مطابق) یہ سمجھ لو کہ سب سے اعلیٰ مقصد ہی واحد ذریعہ نجات ہے ، تو تم اپنے مخاطبین کو اپنے سے دور کر دو گے اور ان کو ایسے نیک اعمال سے محروم کر دو گے جو وہ کر سکتے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم ان کے اندر اپنے بارے میں حسد اور غیرت کے جذبات کو بھی بھڑ کا دو ۔ دیگر عبادات اور ذمہ داریوں کو بھی اسی پر قیاس کر لو۔
خلاصہ کلام یہ کہ لوگوں کو ایک خاص مرتبے تک پہنچنے پر ابھارنا ایک بات ہے اور مسئلے کو ایک خاص دائرے اور معین مقام کے ساتھ خاص کر دینا بالکل ایک الگ بات ہے ۔ اس لیے اگر تمہارے پاس روح اور قلب کی زندگی کا کوئی خاص معیار ہو تو لوگوں کو اس کی دعوت دو گے ، لیکن ایسے مسائل میں اتفاق پیدا کرنا جن میں اختلاف کی گنجائش ہے اور اس اتفاقی نقطے پر رک جانا، زیادہ اہم بات ہے۔
اس زاویے سے ہم پر لازم ہے کہ ہم ہر مقام اور ہر زمان میں اتحاد کے ذرائع کو تلاش کریں اور اتحاد و اتفاق پر توجہ مرکوز رکھیں اور یکجہتی کی روح کو بچانے کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کریں۔
(1)حضرت بدیع الزمان سعید نورسی نے اپنے عنفوان شباب میں دمشق کی جامع مسجد بنی امیہ میں عربی زبان میں شام کے علماء کے اصرار پر عربی زبان میں ایک خطبہ دیا، جس میں بیس ہزار سے زائد لوگوں کے ایک جم غفیر نے شرکت کی اور‘‘الخطبہ الشامیہ’’ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔
- Created on .