رضا کے مرتبے کی جانب

رضا کے مرتبے کی جانب

سوال: مومن کی جانب سے اس اقرار کا کیا مطلب ہے: رَضِينَا بِالله رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم) رسولًا ’’کہ ہم اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین اور حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) کے رسول ہونے پر راضی ہیں؟‘‘ ( البخاری، العلم:29 ،مسلم ، الصیام: 36))

جواب: رسول اکرم (صلى الله عليه وسلم) نے ہمیں بشارت سنائی کہ ’’ جس شخص نے صبح یا شام کے وقت یہ دعا پڑھی، تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور راضی کردے گا‘‘۔ (ابوداؤد، الادب: 110) مطلب یہ ہے کہ یہ مبارک اقرارایک مبارک ذکر ہے جو مومن کا صبح و شام کا ذکر ہونا چاہیے کیونکہ وہ اس میں اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہے ،مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام تصرفات کو پسند کرتا ہے اور اس نے اسلام کو ایک خدائی نظام کے طور پر قبول کرکے اسے پسند کر لیا ہے اور اسی طرح سید الانبیاء (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت پر بھی راضی ہے کیونکہ حقیقی ایمان کا رستہ ایسے ہی شعور، یقین اور عقیدے سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس لئے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) اس نفیس اقرار کے ذریعے ہمیں ایک نہایت اہم حقیقت کی تعلیم فرما رہے ہیں اور مسلمان کو اشارے سے ایسے اعمال کی ترغیب دے رہے ہیں جو ان کو رضاکے اس مرتبے تک پہنچا دیں۔ یہ اقرار ایسا ہونا چاہیے جس سے ان کے دلوں میں اس احساس کا اضافہ ہو اور اسے اس کے دل میں مزید گہرا کردے۔

مرتبہ رضا کا قطب

اس اقرارکا آغاز یہ بات ثابت کرتا ہے کہ نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) رضا کے مرتبے کے قطب ہیں جس کا ثبوت ’’رضینا باللہ ربا‘‘ اور اس حقیقت کی گواہی دینے والی آپ علیہ السلام کی مبارک اور مخلصانہ زندگی ہے۔ جی ہاں، آپ علیہ السلام رضا کے مرتبے کے مرکز ہیں۔ اس لئے ہم جب بھی ’’رضینا باللہ ربا‘ کے الفاظ کہیں تو ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ آپ علیہ السلام اس مرتبے کو ہم سے پہلے پہنچ چکے ہیں اور ہم پر لازم ہے کہ ہم آپ علیہ السلام کی اقتدا کریں یہاں تک کہ اگر کوئی انسان اڑ کر آسمانوں تک پہنچ جائے اور حق سبحانہ تعالیٰ اس کو براہ راست آواز دے دے کہ ’’میں تجھ سے راضی ہوں‘‘ اور نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کی طرح اس پر الہام، وارادت اور وحی کی بارش کردے اور دونوں کے دل میں ایک ہی بات ڈال دے، تو بھی اس شخص پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ نبی کریم(صلى الله عليه وسلم) کو ہادی اور مرشد سمجھے کیونکہ اسے یہ مرتبہ سوچ، عقل و فہم اورتدبرو تامل کی بدولت نہیں بلکہ آنحضرت(صلى الله عليه وسلم) کی رہنمائی سے حاصل ہوا ہے کیونکہ اگر آپ (صلى الله عليه وسلم) نہ ہوتے تو اس شخص کی دنیا و آخرت دونوں ایک اندھیرے قیدخانے کی طرح ہوتیں۔اس لئے ابتدا سے خوشی اور ارادے سے آپ علیہ السلام کو رہبر و رہنما اور مرشد اور معلم ماننا اور آپ علیہ السلام کی پیروی کرنا رضا کے مقام تک پہنچنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس وقت بعض لوگ روحانی سیر وسلوک کے ایسے مرتبے تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کا تعلق آپ(صلى الله عليه وسلم) سے مضبوط ہوجاتا ہے، اسی وقت ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص ہر شے کو شریعت کے میزان سے نہیں تولتا وہ ایسی لغزشوں اور غلطیوں میں مبتلا ہوجائے( اللہ تعالیٰ ہم سب کو محفوظ رکھے) جہاں یہ کہنے لگے کہ : ’’ میرا نور آپ (صلى الله عليه وسلم) کے نور سے آگے بڑھ گیا ہے ‘‘ (نعوذ باللہ من ذالک)، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ علیہ السلام اول سے آخر تک نورہی نور ہیں اور کوئی بھی انسان کبھی بھی اس نور تک پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی آپ علیہ السلام کے مقام تک۔ آپ(صلى الله عليه وسلم) کا فرمان ’’وبالاسلام دینا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلا م کے خدائی نظام ہونے پر راضی ہے۔ جی ہاں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کو کوئی بھی انسان اس طرح نہیں سمجھ سکا جس طرح آپ(صلى الله عليه وسلم) نے سمجھا اور کوئی بھی انسان ایسا نہیں جو اس نظامِ الہٰی سے آپ علیہ اسلام کی طرح راضی ہو کر اپنی زندگی اس کی خاطر وقف کردے اور اس کو قائم کرنے کے سوا اس کی کوئی فکر نہ ہو۔ سو اگر حضرت ابو بکر کی صداقت، حضرت عمر کی فاروقیت اور حضرت عثمان کا قرآن کریم سے تعلق اور عشق اور روح و قلب کے پہلوان حضرت علی کا مرتبہ، سب مل جائیں تو بھی اس سب کی نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) کے مرتبہ رضا کے مقابلے میں پرکاہ کے برابر بھی حیثیت نہ ہوگی۔ اس سے کسی کا ذہن اس طرف نہ جائے کہ میں ان عظیم ہستیوں کے مرتبے کو گھٹا رہا ہوں بلکہ میرا مقصد آپ (صلى الله عليه وسلم) کی عظمت کی تاکید اور اسلام پر آپ کی رضامندی کی عظمت کا بیان ہے۔ آخر میں رسول کریم(صلى الله عليه وسلم) ہمیں ’’ وبمحمد رسولا‘‘ سے اس بات کی یاد دہانی فرمارہے ہیں کہ آپ (صلى الله عليه وسلم) خود بھی اپنی رسالت سے راضی ہیں جبکہ آپ علیہ السلام کی سب سے بڑی صفت تواضع اورفنائیت ہے یہاں تک آپ علیہ السلام جو کچھ بھی کرتے ہیں ایک بندے اور غلام کی طرح کرتے ہیں۔ چنانچہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اپنے خادم کے ہمراہ کھانا تناول فرماتے ہیں اور اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے جب تک وہ ساتھ نہ کھائے، آپ علیہ السلام اپنے آپ کو کسی ادنیٰ ترین انسان سے بھی افضل نہیں سمجھتے حالانکہ اس سب کے باوجود آپ علیہ السلام کے کاندھوں پر رسالت کے ’’قوثقیل‘‘ کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور رسالت سے سرفراز فرمایاگیا ہے۔ اسی طرح یہ بات ناممکن ہے کہ کوئی انسان’’ لاالہ الا اللہ ‘‘ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کے ہمرا ہ ’’ محمد رسول اللہ‘‘ ( محمد (صلى الله عليه وسلم) اللہ کے رسول ہیں) کی گواہی د ئے بغیر مسلمان ہوجائے کیونکہ آپ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان، اسلام اور ایمان کا بنیادی رکن ہے۔ اس سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے نادر اور بے مثال تواضع اور رسالت کی ذمہ داری کے اعلان میں صوری تناقض ہے۔ اس بنا پر(آپ علیہ السلام کے انتہائی تواضع کے باوجود) ’’ وبمحمد رسولا‘‘کے اندر ایک گہرا معنی پوشیدہ ہے، جی ہاں ، آپ (صلى الله عليه وسلم) نے یہ اس لئے فرمایا کہ یہ حقیقت اللہ تعالی کی جانب سے مقدر ہے اور آپ علیہ السلام اس کو پہنچانے کے مکلف ہیں۔ اس لئے انکساری اور تواضع کی وجہ سے اس کی نفی یا چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں۔

رضا کا احساس معرفت کے مرتبے کے برابر

یہ مبارک ذکر کس طرح کرنا چاہیے؟ یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ انسان یہ ذکر ذوق و شوق اور عشق و محبت کے ساتھ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے غفلت اور الفت سے آزاد ہو کر کرے، کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ، رسول اور اسلام سے رضا مندی سب سے پہلے ان کی معرفت کا بھی مرہون منت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عارف کی محبت اس کی معرفت کے بقدر ہوتی ہے جبکہ جاہل کو ان باتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی جو وہ نہیں جانتا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے لئے رضا کے مرتبے تک پہنچنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک آپ اللہ تعالیٰ کو اس کی عظمت، جلال، اس کی ربوبیت اور الوہیت کے اسرارکو اچھی طرح نہ جان لیں۔ اسی طرح آپ فخر انسانیت (صلى الله عليه وسلم) کی رسالت سے حقیقی طور پر اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک آپ، آنحضرت (صلى الله عليه وسلم) کو آپ کے فضائل اور خصوصیات کے ساتھ نہ پہچانیں۔ ایسے ہی آپ اسلام سے بھی اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک اسے اس کی وسعت، گہرائی اور اس کے اصول و فروع کے ساتھ نہ جانیں۔ آج بہت سے لوگوں کی آپ (صلى الله عليه وسلم) سے جفا کی وجہ یہ ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کو نہیں جانتے۔ اس لئے اگر ہم ان کے دلوں میں آپ علیہ السلام کی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ آپ علیہ السلام کے پروانے بن جائیں اور آپ علیہ السلام کو جان جائیں۔ جی ہاں جس طرح گلیوں کا ماحول آپ علیہ السلام سے آشنا نہیں کراتا اسی طرح اسکولوں اور گھروں کا ماحول بھی بلکہ مساجد کا ماحول بھی آپ علیہ السلام کے شایان شان طریقے سے تعارف نہیں کراتا۔

اس لئے ایسے لوگ آپ علیہ السلام کے تعارف سے محرومی میں پروان چڑھے ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر اور احسان ہے کہ (اس ساری غفلت کے باوجود) آپ علیہ السلام کی محبت ہمارے اندر پوشیدہ انسان کے دل میں چمک رہی ہے اور وہ اس وقت بھی گواہی دے رہا ہے کہ ’’لا الہٰ الا محمد رسول اللہ

سب سے بڑی نعمت کے حصول کے لئے دعا پر اصرار

چونکہ رضا، جنت اور اس کی نعمتوں سے بڑی نعمت ہے ، اس لئے ہم پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضوردست بدعا ہوں اور ہمیشہ عاجزی سے عرض کریں کہ ’’ اے اللہ ہمیں رضا کے مقام تک پہنچا‘‘۔ جی ہاں، یہ بات ہماری سانسوں میں شامل ہونی چاہیے کہ ’’ اے اللہ اس چیز تک پہنچا جو تجھے پسند ہے اور جس سے تو راضی ہوتا ہے‘‘ اور ہمیشہ اس بات کا احساس کریں کہ’’ یا اللہ تیری بخشش، عافیت اور رضا کے طلب گار ہیں‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ جو چیز انسان صدق و اخلاص کے ساتھ مانگے گا وہ اسے عطا کروں گالیکن اس بارے میں عاجزی وانکساری ضروری ہے کیونکہ دعاکی قبولیت میں کبھی کبھی کئی سال اورکئی کئی دہائیاں بھی تاخیر ہوسکتی ہے اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے اور ہمارے دل کی ہر دھڑکن اس کی تدبیر پر رضا کے ساتھ ہو تو پھر ہم پر لازم ہے کہ ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دس سال بلکہ بیس سال بھی عاجزی کریں، گڑگڑائیں اور دعا مانگیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دعا کی طویل ’’میراتھن‘‘ دوڑ میں شامل ہونا پڑے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ : وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبہ:72) (اور اللہ کی رضا مندی تو سب سے بڑھ کر(نعمت) ہے۔ یہی بڑی کامیابی ہے) ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور خوشنودی جنت بلکہ جنت الفردوس میں داخلے اور آنحضرت محمدمصطفی(صلى الله عليه وسلم) کی زیارت سے بھی بڑی اور اعلیٰ بات ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم میں سے کسی نے بھی اس قدر طویل وقت یعنی پچیس سال کی مدت میں رضا کی دعا نہ مانگی ہوگی، ہم نے اللہ سے دعا نہیں کی کہ ’’ اے اللہ تیری رضا مطلوب ہے۔۔۔صرف تیری رضا۔۔۔‘‘ہم۔ اس کے آگے نہیں جھکے،صرف یہی مدت نہیں بلکہ اگر ہماری عمر اور لمبی ہو جائے تو بھی ہمارا فرض ہے کہ سینکڑوں سال بھی دعا کرتے رہیں۔ اس دعا کے ذریعے نبی کریم (صلى الله عليه وسلم) نے مسلمانوں کے لئے ایک اعلیٰ و ارفع ہدف مقرر کردیا ہے جس کے بعد مسلمانوں کے کاندھوں پر اس ہدف کو حاصل کرنے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس ہدف کو اپنائے اور اس کا اہتمام کرے کیونکہ جو شخص اپنے لئے کوئی ہدف مقرر کرتا ہے وہ اس کو حاصل کرنے میں اپنی عمر کھپا دیتا ہے یہاں تک وضو کرتے اور مسجد جاتے ہوئے بھی اکثر اوقات اس کا ذہن اس میں اٹکا ہوتا ہے بلکہ نماز میں بھی ۔ چنانچہ یہ افکار جو ہر وقت اس کے ذہن میں موجزن رہتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو دعا کی طرح قبول فرماتا ہے اور اسے ناامید نہیں کرتا۔ اس لئے ہم پر جو بات لازم ہے وہ یہ کہ رضا کے اس مرتبے تک پہنچنے کے لئے مسلمان سعی کریں جو آپ علیہ السلام نے ہمارے لئے ہدف قرار دیا ہے۔ ہمیں ہمیشہ اس کا تذکرہ کرنا چاہیے اور ہر حال میں اسی فکر کو اپنااوڑھنا بچھونا بنا چاہئے۔

Pin It
  • Created on .
حقِ اشاعت © 2024 فتح اللہ گولن کی ويب سائٹ. تمام حقوق محفوظ ہیں۔
fgulen.com یہ فتح اللہ گولن. کی سرکاری ويب سائٹ ہے۔